Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 181
لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ١ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ١ۙ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
لَقَدْ سَمِعَ : البتہ سن لیا اللّٰهُ : اللہ قَوْلَ : قول (بات) الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے قَالُوْٓا : کہا اِنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ فَقِيْرٌ : فقیر وَّنَحْنُ : اور ہم اَغْنِيَآءُ : مالدار سَنَكْتُبُ : اب ہم لکھ رکھیں گے مَا قَالُوْا : جو انہوں نے کہا وَقَتْلَھُمُ : اور ان کا قتل کرنا الْاَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) بِغَيْرِ حَقٍّ : ناحق وَّنَقُوْلُ : اور ہم کہیں گے ذُوْقُوْا : تم چکھو عَذَابَ : عذاب الْحَرِيْقِ : جلانے والا
بلاشبہ اللہ نے ان لوگوں کا کہنا سن لیا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم دولت مند ہیں ، عنقریب جو بات انہوں نے کہی ہے ہم ان ہی کیلئے لکھ دیں گے اور ان کا نبیوں کو ناحق قتل کرنا بھی لکھا جا چکا ہے ہم کہیں گے کہ اب پاداش عمل میں عذاب جہنم کا مزہ چکھو
یہودیت اور منافقت کا جوڑ : آیت 116 تک اہل کتاب کا حال چلا آ رہا تھا خصوصاً یہود کا پھر آیت 117 سے منافقین کا بیان شروع ہوگیا جو آیت 180 تک چلتا رہا اور اب آیت 181 سے پھر موضوع اہل کتاب کی طرف منتقل ہورہا ہے اور خصوصاً یہود کی طرف گویا یہودیت سے منافقت کو گھیرے میں لے رکھا ہے یا منافقت یہودیت کی لپیٹ میں ہے اور اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہودیت اور منافقت کا مزاج ملتا جلتا ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کے فقیر ہونے کی پھبتی کسی ہے ان کی بات اللہ نے سن لی ہے : 329: منافقین کے جس گروہ کا ذکر پیچھے ہو رہا تھا بڑے حامی اور جنگ احد کے بعد مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن جو بالکل منافقوں کی طرح اندرونی دشمن ہی تھے کیونکہ بظاہر مسلمانوں سے معاہدہ بھی کر رکھا تھا ، یہودی تھے۔ یہاں ان ہی کا ذکر شروع ہو رہا ہے جیسا کہ قتل انبیاء کے جملہ نے صاف وضاحت کردی ہے۔ نظام اسلام میں زکوٰۃ کا قائم کرنا ، صدقات میں ترغیب دینا اور خصوصاً جنگوں کے لئے مالی قربانیوں پر زور دینا معاشرہ اسلامی کا ایک اہم جز تھا اور ہے باوجود اس کے کہ مسلمان اس وقت ابھی حالت غربت میں تھے اور مال اور فراوانی نہیں تھی۔ ادھر یہود ہمیشہ سے بوجہ اپنی سود خواری اور بخل کے ایک مال دار قوم تھی۔ اس لئے یہ لوگ اسلام کی ان باتوں پر استہزاء کرتے رہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیبات پر انہوں نے یہ پھبتی کسی کہ اب اللہ فقیر ہوگیا ہے اور ہم غنی ہیں اس لئے اللہ کی غربت کو دور کرنے کے لئے اب مسلمان چندہ کی اپیلیں کر رہے ہیں فرمایا ” بلاشبہ اللہ نے ان لوگوں کا کہنا سن لیا ہے جنہوں نے یہ بات کہی کہ اللہ محتاج ہے اور ہم دولت مند ہیں۔ “ انہوں نے اس طرح کا استہزاء کیوں کیا اور کیسے کیا ؟ بعض لوگوں اور قوموں کی خصوصیت ہے کہ وہ لفظوں کے پھیر میں الجھے رہتے ہیں اور حقیقت ، لب لباب اور راز کی طرف نہیں آتے ایسا پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے یہودیوں کی یہ قومی خصوصیت ہے اور انہوں نے اسی طرح کی بیسیوں باتیں بنائی ہیں جن کا قرآن کریں نے ذکر کیا ہے جیسے ” رَاعِنَا “ کے لفظ کو زبان کے پیچ کے ساتھ پڑھنا جس سے اس کا اصلی مفہوم بدل جائے یعنی ” رَاعِنَا “ کو رَائِی نَا کہنا کہ ” اے ہمارا چرواہے “۔ السلام علیکم کو سام علیکم کہنا کہ ” تم پر موت آئے “ محمد ﷺ کو مزمم کہنا کہ ” مزمت کیا گیا۔ “ اس جگہ ان کو یہ استہزاء اس لئے سوجھا کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کو ” یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا “ یعنی اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دو سے بیان کیا ہے اور یہ الفاظ اپنے اندر کیا پوشیدہ راز رکھتے ہیں ؟ اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ 1ۘکے الفاظ کہہ کر گویا اللہ اور اس کے رسول پر پھبتی کسی۔ قَرْضًا حَسَنًا ، اصطلاح قرآنی میں کیوں لایا گیا ؟ اس کی تفصیل کے لیے عروۃ الوثقیٰ جلد اول بقرہ 2 : 245 ، حاشیہ 411 ص 831 ملاحظہ کریں۔ اس جگہ ان آیات کی فہرست ملاحظہ کریں ، جہاں یہ اصطلاح استعمال کی گئی۔ ارشاداتِ الٰہی سے متعلق : قَرْضًا حَسَنًا ، اصطلاح قرآنی۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا کَثِیْرَةً 1ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ 1۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ 00245 (البقرہ 2 : 245) ” کون ہے جو اللہ کو خوشدلی کے ساتھ قرض [ 2 ] دیتا ہے تاکہ اللہ اس کا دیا ہوا (قیامت کے روز) دوگنا ، سہ گنا کر کے ادا کرے ، اور (رزق کی) تنگی اور کشائش کا رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے (کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں) اور اسی کے حضور تم سب کو لوٹنا ہے۔ “ اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌۙ0017 (التغابن 64 : 17) ” اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو گے تو وہ اس کو تمہارے لیے بڑھاتا جائے گا اور تمہاری کوتاہیاں بھی معاف کر دے گا اور اللہ بڑا قدردان ، بڑا تحمل والا ہے ۔ “ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ کَرِیْمٌۚ0011 (الحدید 57 : 11) ” کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تو اللہ اس کو اس سے دوگنا دے اور اس کے لیے بڑا ہی عزت والا صلہ ہے۔ “ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَ الْمُصَّدِّقٰتِ وَ اَقْرَضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَ لَهُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ 0018 (الحدید 57 : 18) ” بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ جو اللہ کو نیک قرض دیتے ہیں ان کو دوگنا (اَجر) دیا جائے گا اور ان کے لیے بڑا ہی باعزت اجر ہے۔ “ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا 1ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ ...... (المزمل 73 : 20) ” اور نماز قائم کرو ، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کو اخلاص کے ساتھ قرض دیا کرو اور تم جو بھی نیک عمل اپنے لیے پہلے بھیجو گے اسے تم اللہ کے ہاں بہتر اور اجر کے لحاظ سے بڑھا ہوا پاؤ گے ۔۔۔۔۔۔ “ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَ عَزَّرْتُمُوْهُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ (المائدہ 5 : 12) ” میرے تمام رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی مدد کی اور اللہ کو قرض نیک دیتے رہے (یعنی اللہ کی رضا کے لیے فی سبیل اللہ مال خرچ کیا) تو میں ضرور تم پر سے تمہاری برائیاں محو کر دوں گا ۔ اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ کے لیے دوسرے الفاظ میں بھی ترغیب دی گئی تاکہ لوگ خوشدلی اور اپنی مرضی اور جذبہ اسلامی کے ساتھ خرچ کرتے رہیں کیونکہ قانون کے ڈنڈے سے لیا ہوا دینے والے کے لیے اس اجر کا باعث نہیں ہو سکتا جس اجر کا باعث اپنی مرضی سے دیا ہوا ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ 1ؕ (البقرہ 2 : 272) ” جو کچھ بھی تم خیرات کرو گے تو خود اپنے ہی فائدہ کے لیے کرو گے۔ “ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ (ایضاً ) ” جو کچھ بھی تم خیرات کرو گے تو اس کا بدلہ پوری طرح تم کو مل جائے گا۔ “ فرمایا : اللہ کی راہ میں خرچ کرنا عبادت ہے اور عبادت کا فائدہ عابد ہی کو ہوتا ہے اس میں تمہاری زندگی کو عبادت بنانے کی تعلیم اس لیے ہے کہ تم اللہ کے ہاں سے روزی اور اس کی عنایات کے مستحق بنو۔ اللہ اس تمہارے دیئے ہوئے کو خود نہیں کھاتا اور نہ ہی وہ کھانے کا محتاج ہے ، یہ جو کچھ ہے وہ تمہارے ہی فائدے کے لیے ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ 0057 (الذاریات 51 : 57) ” میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں پلائیں۔ “ ایک جگہ فرمایا : وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا یُؤْتِكُمْ اُجُوْرَكُمْ وَ لَا یَسْـَٔلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ 0036 (محمد 47 : 36) ” دُنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم ایمان لاؤ اور بچتے رہو تو وہ تم کو تمہارا اجر دے گا اور تمہارے مال طلب نہ کرے گا۔ “ یعنی وہ غنی ہے اسے اپنی ذات کے لیے تم سے لینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے ، اگر وہ اپنی راہ میں تم سے کچھ خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمہاری ہی بھلائی کے لیے کہتا ہے۔ ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ 1ۚ وَ اللّٰهُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ 0015 (فاطر 35 : 15) ” اے لوگو ! تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بےنیاز سزاوار حمد (وثنا) ہے۔ “ یہود کی یہ بات کہ اللہ فقیر اور ہم غنی ہیں لکھ لی گئی ہے ، یہ خود اس کا جواب دیں گے : 330: جس وقت ان لوگوں نے نبی اعظم و آخر ﷺ کے اس پیغام کو استہزاء کا نشانہ بنایا تھا اس وقت یہ مذاق اڑانے والے اپنے قلعوں میں رہتے اور اپنے باغوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے اور مہاجن بن کر مسلمانوں اور دوسرے غریب طبقوں کا خون چوس رہے تھے۔ ان کا اصل کاروبار سود اور سود دَر سود کا تھا۔ لیکن ان کے اس طرح کے مذاق کو محفوظ کرلیا گیا تھا۔ تاکہ وقت آنے پر یہ خود اس کا جواب ہوجائیں ۔ چناچہ ارشاد الٰہی یہ ہوا کہ : ” عنقریب جو بات انہوں نے کہی ہے ہم ان ہی کے لیے لکھ دیں گے “۔ انہوں نے کہا تھا : ” اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں “ ارشاد ہوا کہ یہ بات ہم ان کے لیے لکھ دیں گے۔ کیا ؟ ان کو جلدی معلوم ہوجائے گا کہ اللہ غنی ہے اور وہ خود فقیر ہیں۔ ابھی زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دنیا نے دیکھ لیا اور وہ خود بھی سمجھ گئے کہ جو بات اللہ نے کہی تھی وہ حرف بہ حرف پوری ہوگئی۔ نَحْنُ اَغْنِیَآءُ 1ۘ ، کہنے والوں کو اس دنیا ہی میں عذاب الحریق کا ایک جھونکا پہنچا دیا اور ان کا غنا حالت فقر میں تبدیل ہوگیا اور ان کو اپنے املاک وغیرہ چھوڑ کر ملک بدر ہونا پڑا اور جن کو وہ فقیر کہتے تھے اللہ نے ان کو اپنے فضل سے مالامال کردیا اور بےحساب رزق دے دیا ، جہاں سے ان کو اتنا رزق ملنے کی کبھی توقع نہ تھی۔ نبی اعظم و آخر ﷺ تو رحمۃ للعالمین تھے۔ آپ ﷺ نے بنی نضیر کے اخراج کا حکم کیوں دیا ؟ اس جگہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے تاکہ اس معاملہ میں ذہن صاف ہوجائے۔ نبی کریم ﷺ سے بنی نضیر کا باقاعدہ تحریری معاہدہ تھا اور اس معاہدے کو انہوں نے رد نہیں کیا تھا کہ معاہدہ ختم ہوجاتا لیکن جس وجہ سے ان پر چڑھائی کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بہت سی چھوٹی بڑی خلاف ورزیاں کرنے کے بعد آخرکار ایک صریح فعل ایسا کیا تھا جو نقص عہد کا ہم معنی تھا۔ وہ یہ کہ انہوں نے دوسرے فریق معاہدہ یعنی مدینہ کی اسلامی ریاست کے صدر کو قتل کرنے کی سازش کی تھی اور وہ کچھ اس طرح کھل گئی تھی کہ جب ان کو نقض معاہدہ کا الزام دیا گیا تو وہ اس کا انکار نہ کرسکے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کو دس دن کا نوٹس دے دیا کہ اس مدت میں مدینہ چھوڑ کر نکل جاؤ ورنہ تمہارے خلاف جنگ کی جائے گی۔ یہ نوٹس قرآن کریم کے اس حکم کے ٹھیک مطابق تھا کہ : ” اگر تم کو کسی قوم سے خیانت و بدعہدی کا اندیشہ ہوا تو اس کے معاہدہ کو اعلانیہ اس کے آگے پھینک دو “ (الانفال 8 : 58) اس لیے ان کے اخراج کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل قرار دیا جیسا کہ سورة الحشر کی آیت 2 سے و اضح ہے ، کیونکہ یہ ٹھیک قانون الٰہی کے مطابق تھا ، گویا ان کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے نکالا۔ خیال رہے کہ بنو نضیر صدیوں سے یہاں جمے ہوئے تھے ، مدینہ کے باہر ان کی پوری آبادی یکجا تھی جس میں ان کے اپنے قبیلے کے سوا کوئی دوسرا عنصر موجود نہ تھا۔ انہوں نے پوری بستی کو قلعہ بند کر رکھا تھا اور ان کے مکانات گڑھیوں کی شکل میں بنے ہوئے تھے۔ جس طرح عموماً قبائلی علاقوں میں جہاں ہر طرح بدامنی پھیلی ہوئی ہو بنائے جاتے ہیں۔ پھر ان کی تعداد بھی اس وقت کے مسلمانوں سے کچ ھ کم نہ تھی اور خود مدینے کے بہت سے منافقین ان کی پشت پر تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ یہ لوگ لڑے بغیر صرف محاصرے ہی سے بدحواس ہو کر یوں اپنی جگہ چھوڑ دیں گے۔ اس طرح خود بنی نضیر کے بھی وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ کوئی طاقت ان سے چھ دن کے اندر یہ جگہ چھڑا لے گی۔ اگرچہ بنی قینقاع ان سے پہلے نکالے جا چکے تھے اور اپنی شجاعت پر ان کا سارا زعم دھرے کا دھرا رہ گیا تھا۔ لیکن وہ مدینہ کے ایک محلہ میں آباد تھے اور ان کی اپنی کوئی قلعہ بند بستی نہ تھی۔ اس لیے بنو نضیر یہ سمجھتے تھے کہ ان کا مسلمانوں کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکنا بعید از قیاس نہ تھا۔ بخلاف اس کے وہ اپنی محفوظ بستی اور اپنی مضبوط گڑھیوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہ کرسکتے تھے کہ کوئی انہیں یہاں سے نکال سکتا ہے۔ اس لیے جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جانے کا نوٹس دیا تو انہوں نے بڑے دھڑلے کے ساتھ کہہ دیا کہ ہم نہیں نکلیں گے ، آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لیجیے۔ بنی نضیر بظاہر اپنے قلعوں کا استحکام دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے حملے سے بچ جائیں گے مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کا مقابلہ اللہ سے تھا اور اس سے ان کے قلعے نہ بچ سکتے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہودی اس دنیا میں ایک ایسی عجیب قوم ہے جو جانتے بوجھتے اللہ کا مقابلہ کرتی رہی ہے۔ اللہ کے رسولوں کو جانتے ہوئے اس نے قتل کیا۔ اس قوم کی روایات یہ ہیں کہ ان کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کی رات بھر کشتی ہوتی رہی اور صبح تک لڑ کر بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہ پچھاڑ سکا پھر جب صبح ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اب مجھے جانے دے تو انہوں نے کہا کہ میں تجھے نہ جانے دوں گا ، جب تک تو مجھے برکت نہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا : تیرا نام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یعقوب۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ” آئندہ تیرا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہوگا کیونکہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا۔ “ (ملاحظہ ہو یہودیوں کی جدید ترجمہ کتب مقدسہ (The Holly Scriptures) شائع کردہ جیوش پبلیکیشنز سوسائٹی آف امریکہ 1954 ء کتاب پیدائش باب 32 آیات 25 ، 29) پھر بائبل کی کتاب ” ہیوسیع “ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ : ” وہ انی توانائی کے ایّام میں خدا سے کشتی لڑا۔ وہ فرشتے سے کشتی لڑا اور غالب آیا۔ “ (باب 12 آیت 4) اب ظاہر ہے کہ یہ بنی اسرائیل جو مدینہ کے قریب بستے تھے وہ ان ہی کے صاحبزادے ہی تھے ، جنہوں نے اپنے عقیدے کے مطابق خدا سے زور آزمائی کی تھی اور اس سے کشتی لڑ کر خدا کو پچھاڑ دیا تھا۔ انہوں نے خود اپنے اعتراف کے مطابق خدا کے نبیوں کو قتل کیا اور اس بنا پر انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے زعم کے مطابق صلیب پر چڑھایا اور خم ٹھونک کر کہا : ” ہم نے مسیح بن مریم رسول اللہ کو قتل کیا۔ “ لہٰذا یہ بات ان کی روایات کے خلاف نہ تھی کہ انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو رسول جانتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کی لیکن اس کا نتیجہ کیا رہا کہ جب ان کی بستی کا محاصرہ کیا گیا اور بستی کے اطراف میں کھجوروں کے باغ تھے وہ کاٹ دیئے گئے ، انہوں نے خوب شور مچایا اور ظلم ظلم کے نعرے بلند کیے اور اپنے کیے ہوئے مظالم کو چھپانے کے لیے ہر طرح کا شور و غوغا کیا لیکن انجام کار ان کو اپنی بستی خالی کر کے اس جگہ سے نکل جانا پڑا اور اسی میں انہوں نے عافیت سمجھی اور اپنے ظلم کا بدلہ دنیا ہی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ جس نبی اعظم و آخر ﷺ کو قتل کرنے کی انہوں نے سازش کی تھی اس کا خمیازہ بھگت کر یہاں سے نکل گئے اور اس طرح انہوں نے اپنے فقیر ہونے کو مانا یا نہیں ؟ اس واقعہ کی پوری تفصیل ان شاء اللہ سورة الحشر ہی میں آئے گی کیونکہ وہی مقام اس کی تفصیل کا ہے۔ جو لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے قتل سے باز نہ رہے ان کو نبی سے استہزاء میں کیسے شرم آتی : 331: یہ مثل مشہور عام ہے کہ جو ماں کا نہیں وہ خالہ کا کیسے ہوگا ؟ جن لوگوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو قتل کرنے کیں جھجک محسوس نہ کی ان کو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ استہزاء و مذاق سے کون باز رکھ سکتا تھا ؟ ہاں ! ایک مثل یہ بھی ہے کہ ” سو سنار کی اور ایک لوہار کی “ اور یہ بھی ہے کہ ” سو دن چور کا اور ایک شاہ کا “ بلاشبہ انہوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو قتل کیا اور دکھ دیئے اور ایذا پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن اس وقت وہ اس نبی ﷺ کے ساتھ مذاق کے مرتکب ہوئے تھے جس پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کا دروازہ بند کردیا تھا لہٰذا اس مذاق و استہزاء کی سزا بھی لازم تھی ، جو دی گئی اور ایسی دی گئی کہ وہ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے کہ وہ کس کی درگاہ سے راندے گئے ہیں۔ ہاں ! یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کے مخاطب تو یہود مدینہ ہیں اور قتل انبیاء کے مرتکب صدیوں سے پہلے گزر چکے تھے کیونکہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تو کوئی نبی آیا ہی نہ تھا۔ بلاشبہ سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ (علیہما السلام) کو یہودیوں نے قتل کیا تھا لیکن وہ قاتل اب تک کہاں موجود تھے ؟ پھر ان مخاطبین کی طرف قتل انبیا (علیہ السلام) کا جرم کیسے منسوب کیا گیا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود مدینہ اپنے سابق یہودیوں کے اس فعل پر راضی تھے اور خوش تھے کہ ان کے بڑوں نے یہ ” کارہائے نمایاں “ انجام دیئے اس لیے یہ بھی اس حکم میں شمار کیے گئے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کفر پر راضی ہونا بھی کفر اور معصیت میں داخل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جب زمین پر کوئی گناہ کیا جاتا ہے تو جو شخص وہاں مو وجد ہو مگر اس گناہ کی مخالفت کرے اور اس کو برا سمجھے تو وہ ایسا ہے گویا یہاں موجود نہیں یعنی وہ اس کا شریک نہیں اور جو شخص اگرچہ اس مجلس میں موجود نہیں مگر ان کے اس فعل سے راضی ہے وہ باوجود غائب ہونے کے ان کا شریک گناہ سمجھا جائے گا۔ پھر قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کے بزرگوں کی بداعتدالیوں کا ذکر موجود ہے کبھی کسی یہودی نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یا آپ ﷺ کے وقت میں یہ سوال نہ اٹھایا کہ یہ کام ہمارے آباء و اجداد یا ہمارے فکر کے لوگوں نے کیے تھے ہم تو ان کے مرتکب نہیں ہوئے یا ہم ان کاموں کو اچھا نہیں سمجھتے جو انہوں نے کیے تھے۔ جب کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی تو یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان کے کاموں کو برا خیال نہیں کرتے تھے پھر وہ خود وہی کام کرتے تھے جو ان کے و ڈیرے کرتے رہے۔ وہ جس جرم میں مدینہ سے نکالے گئے تھے وہ بھی تو یہی تھا کہ انہوں نے نبی اعظم و آخر ﷺ کے قتل کردینے کی سازش کی تھی جو موقع پر پکڑی گئی اور اسی جرم کی پاداش میں ان کو مدینہ بدر ہونا پڑا۔ چناچہ اس جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” اور ان کا نبیوں کو قتل کرنا بھی لکھا جا چکا ہے اور وہ وقت آنے و الا ہے کہ ہم کہیں کہ اب پاداش عمل میں عذاب جہنم کا مزہ چکھو۔ “ اور قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کی دیدہ دلیری کو بیان کیا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّیْثَاقَهُمْ وَ کُفْرِهِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ قَتْلِهِمُ الْاَنْۢبِیَآءَ۠ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ قَوْلِهِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ 1ؕ (النساء 4 : 155) ” پس ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے اور اللہ کی آیتیں جھٹلانے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ، نیز اس شقاوت کی وجہ سے کہ انہوں نے کہا کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ “ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ 1ۙ وَّ یَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ (آل عمران 3 : 21) ” جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں اور اس کے نبیوں کے ناحق قتل میں چھوٹ ہیں ، نیز ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو حق و عدالت کا حکم دینے والے ہیں۔ “ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَبِغَیْرِ حَقٍّ 1ؕ (آل عمران 3 : 112) ” وہ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور نبیوں کے ناحق قتل میں بےباک تھے۔ “ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ 1ؕ (البقرہ 2 : 61) ” وہ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے تھے اور انبیاء کے ناحق قتل میں بےباک و چھوٹ تھے۔ “ یاد رہے کہ سب قوموں میں جو قومی بیماریاں ہوتی ہیں ان میں ہر دور کے لوگ برابر کے شریک ہوتے ہیں ، اس لیے کہ وہ ان بیماریوں کو بیماریاں نہیں بلکہ قومی فخر اور قومی امتیازات مانتے ہیں اگر یہ بیماریاں ان سے دور کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ممنون نہیں ہوتے بلکہ درپے آزار ہوجاتے ہیں۔ ہاں ! دَور بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ بیماریوں خود بخود بدلتی رہیں ، یہ دوسری بات ہے لیکن ایسی قومی بیماریاں جب بدلتی ہیں تو اپنی جگہ پہلے سے بھی بری بیماریاں چھوڑ جاتی ہیں ، بالکل ختم نہیں ہوتیں۔ آج قوم مسلم خود اپنا تجزیہ کر کے دیکھے تو اس کا بھی یہی حال ہے کہ صدر اوّل کے بعد جب ہم کسی بیماری میں مبتلا ہوئے تو وہ بیماریاں ہم میں بڑھتی چلی گئیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں بیماریوں نے ہم کو مختلف مذہبی ، گروہوں اور سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کردیا اور جس کو جو بیماری لگی وہ روز بروز پختہ ہوتی گئی اگر کوئی بیماری گئی تو اس سے بھی بدتر آئی جس کے نتیجہ میں اختلاف ، افتراق مزید بڑھتا گیا اور جو حال ہمارا ہے وہ سب پر روشن ہے۔
Top