Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 60
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ
اَلْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : آپ کا رب فَلَا تَكُنْ : پس نہ ہو مِّنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
مسیح کے (انسان ہونے کے) متعلق جو کچھ کہا گیا ہے یہ تمہارے رب کی طرف سے بالکل حق ہے ، دیکھو ایسا نہ ہو کہ شک و شبہ کرنے والوں سے ہو جاؤ
رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے پوری امت کو سبق دیا جا رہا ہے : 134: اے پیغمبر اسلام ! سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ سب کا سب حق ہے جو تمہارے رب کی طرف سے اعلان کیا جا رہا ہے اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ ہاں ! آپ ﷺ کے توسط سے پوری دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا جا رہا ہے انسان ہونے کے رشتہ سے تم سب کا حق ہے کہ تم خوب غور و خوض کرلو اور اگر غور و فکر سے کام لو گے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت اس کے سوا کچھ بھی ثابت نہیں ہوگی جو بیان کی جا رہی ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ : ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ ۔ (مریم : 34:19) ” یہ ہے مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت۔ سچائی کی بات جس میں لوگ اختلاف کرنے لگے ہیں۔ “ مطلب یہ ہے کہ یہ جو بیان کیا گیا ہے اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ عیسائیوں نے خود بنا لیا ہے اس لیے دراصل وہ جہل و گمراہی ہے۔ یاد رہے کہ سینٹ پال کی طرف جو انبیت کی تعلیم منسوب ہے اس کی تمام تر بنیاد اس پر خیال پر رکھی گئی ہے کہ نوع انسانی کی سرشت میں گناہ ہے پس اس کی نجات کے لیے ضروری تھا کہ کفارہ ہو اور کفارہ کی یہی صورت ہو سکتی تھی کہ خدا کی صفت رحمت ابن اللہ کی شکل میں اترے اور اپنی قربانی کے خون سے اولاد آدم کا گناہ دھو ڈالے۔ قرآن کریم اس اصناعی تخیل کا رد کرتے ہوئے خدا کی بےنیازی اور قدرت کا اثبات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم نے خدا کو اتنا ہی بےبس اور محتاج کیوں سمجھ لیا ہے کہ جب تک ایک انسان کو اپنا بیٹا بنا کر سولی پر نہ چڑھائے وہ اپنے بندوں کو نجات دینے کی راہ نہیں پا سکتا ؟ یہ تو وہ کرے جو اپنے کاموں کی انجام دہی میں دوسروں کا محتاج ہو لیکن جب تم خود بھی مانتے ہو کہ خدا محتاج نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا چاہنا ہی انجاموں کا قرار پانا ہے تو پھر ایسے تخیلات اور فرضی کہانیاں کیوں گھڑتے ہو ؟ یاد رہے کہ گھڑی ہوئی بات اور حقیقی بات میں فرق ہی یہ ہے کہ حق بات کے لیے دلیل کیا دلائل موجود ہوتے ہیں اور گھڑی ہوئی بات بےدلیل اور صرف لاٹھی کے ذریعہ پر منوائی جاتی ہے۔
Top