Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
پھر جو شخص تم سے اس بارے میں جھگڑا کرے حالانکہ علم و یقین تمہارے سامنے آچکا ہے تو تم اس سے برملا کہو کہ آؤ ہم دونوں فریق میدان میں اپنے اپنے بیٹوں ، عورتوں کو بلائیں اور خود بھی شریک ہوں پھر عجز و نیاز کے ساتھ اللہ کے حضور التجا کریں کہ ہم دونوں سے جس کا دعویٰ جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت یعنی پھٹکار ہو
علم و یقین کی باتوں کو جھٹلا دیا جائے تو جھگڑے کے سوا باقی کیا رہ جاتا ہے ؟ 135: اصل جھگڑا کیا ؟ یہ کہ ایک فریق سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ ، اللہ کا بیٹا اور اللہ کا تیسرا جزو قرار دیتا ہے اور دوسرا فریق عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک راست باز انسان ، اللہ کا رسول اور نبی قرار دیتا ہے۔ پہلے فریق سے دلیل طلب کی جاتی ہے تو دلیل پیش کرنے کی بجائے اپنی قومی ایچ میں جھگڑے پر اتر آتا ہے دوسرا فریق اپنے نظریہ کے اثبات میں دلائل کی بوچھاڑ کردیتا ہے لیکن فریق اول دلائل کو تسلیم کرنے کی بجائے الجھاؤ شروع کردیتا ہے اس طرح کیا دوسرا فریق بھی الجھنا شروع کر دے ؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہرگز نہیں آپ ﷺ کے پاس ” العلم “ یعنی دلائل برہان آپہنچے جو حتمی و قطعی باتیں ہیں اگر وہ ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ جھگڑا اور محض جھگڑا ہی یہ لوگ چاہتے ہیں تو بھی آپ ﷺ جھگڑا نہ کریں بلکہ ان کو مباہلہ کی دعوت دیں۔ حکم ہوتا ہے کہ جھگڑا کرنے کی بجائے ان عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دے دو : 136: مباہلہ کیا ہے ؟ جب دلائل وبرہان کو ٹھکرا دیا جائے اور فریقین میں نزاع ہوجائے تو اس نزاع کو ختم کرنے کے لیے بشرطیکہ فریقین اللہ پر یقین رکھنے کے دعویدار ہوں تو سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس امر میں فریقین کے درمیان باعث نزاع ہے باطل پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وبال و ہلاکت پڑے کیونکہ لعنت کے معنی رحمت حق سے دور ہوجانا ہے اور رحمت الٰہی سے دور ہونا قہر ربی اور عذاب الٰہی سے نزدیک ہونا ہے۔ پس حاصل معنی اس کے یہ ہوئے کہ جھوٹے پر قہر الٰہی نازل ہو سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ یقینا اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ اس طور پر دعا کرنے کو ” مباہلہ “ کہا جاتا ہے اور اس میں اصل خود مباحثہ کرنے والوں کا جمع ہو کر دعا کرنا ہے۔ ہاں ! اگر اپنے اعزہ و اقرباء کو بھی جمع کرلیا جائے تو اس کا اہتمام مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس پس منظر یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے پاس نجران سے ایک وفد آیا تھا اس نے خواہ مخواہ نبی کریم ﷺ سے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے الوہیت عیسیٰ اور ربوبیت عیسیٰ پر بحث چھیڑ دی اور بحث کو چھیڑتے ہی اتنی تغلّی کی کہ نازیبا الفاظ تک وہ لوگ استعمال کر گئے اور یہ سوال بھی اٹھایا کہ عسیٰل (علیہ السلام) کا باپ کون تھا ؟ اور رسول کریم ﷺ کے سامنے اللہ تعالیٰ کے حق میں بےہودہ الفاظ تک استعمال کر ڈال اور شروع ہوتے ہی اس طرح برس پڑے کہ باتوں ہی باتوں میں اپنی دھاک بٹھا دیں۔ رسول اللہ ﷺ بڑی خاموشی سے ان کی ساری گفتگو سنتے رہے۔ ان کی زیادتی کی باتوں کا زیادتی سے مطلق جواب نہ دیا بلکہ تقریر کا موضوع ایسا رکھا کہ وہ ساری باتیں جو وہ ماننے کے لیے کبھی تیار نہ تھے نرم گوئی سے ان کو منوا لیں اور انجام کار وہ بھاگنے پر تیار ہوگئے۔ اس واقعہ کی پوری تفصل سورة کے شروع میں آ چکی ہے۔ ازیں بعد رسول اللہ ﷺ نے نجران کے نصاریٰ کی طرف ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئی تھیں : (1) اسلام قبول کرلو یا (2) جزیہ ادا کرو یا (3) جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ ۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے ایک وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس روانہ کیا اور ان لوگوں نے آ کر پھر مذہبی بحث شروع کردی یہاں تک کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت ثابت کرنے میں انتہائی کوشش کی۔ رسول پاک ﷺ کے دلائل کا جواب نہ دینے کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہے اس وقت رسول اللہ ﷺ کو حکم الٰہی ہوا کہ تم ان لوگوں سے کہو ” کہ ہم دونوں فریق میدان میں اپنے اپنے بیٹوں ، عورتوں کو بلائیں اور خود بھی شریک ہوں پھر عجز و نیاز کے ساتھ اللہ کے حضور التجا کریں کہ ہم دونوں میں سے جس کا دعویٰ جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت و پھٹکار پڑے۔ “ عیسائیوں نے الگ ہو کر مشورہ کیا اور آپس میں ایک نے دوسرے سے کہا کہ ” تم کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ یہ اللہ کا نبی ہے نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت ہے اس لیے نجات کا کوئی دوسرا راستہ تلاش کرو۔ اس کے دوسرے ساتھیوں نے کہا کہ تمہارے نزدیک نجات کی کیا صورت ہے ؟ اس نے کہا : میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ نبی کی رائے کے موافق صلح کی جائے۔ چناچہ اس پر سب کا اتفاق ہوگیا اور انجام کار رسول اللہ ﷺ نے ان پر جزیہ مقرر کر کے ان کو امان دے دی۔ اس کی تفصیل ابن کثیر میں موجود ہے۔ سر ولیم مسلمان نہیں بلکہ انیسویں صدی کا مسیحی تھا اور پھر محض مسیحی نہیں مشنری بھی تھا۔ اس کے قلم سے اس واقعہ کو اس طرح قلم بند کیا گیا ” اس سارے واقعہ میں محمد (ﷺ) کے ایمان کی پختگی بالکل نمایاں ہے نیز ان کے اس عقیدہ کی شہادت کہ ان کا تعلق عالم الغیب سے جڑا ہوا ہے اور اس لیے حق تمام تر انہیں کے ساتھ ہے۔ درآنحالیکہ ان کے خیال میں مسیحیوں کے پاس بجز ظن وتخمین کے اور کچھ نہ تھا۔ “ (میور کی لائف آف محمد ﷺ ، ص : 260)
Top