Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 76
بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
بَلٰي : کیوں نہیں ؟ مَنْ : جو اَوْفٰى : پورا کرے بِعَهْدِهٖ : اپنا اقرار وَاتَّقٰى : اور پرہیزگار رہے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
ہاں ! جو شخص اپنا قول وقرار پورا کرتا ہے اور پرہیزگاری اختیار کرتا ہے تو اللہ کی پسندندگی ان ہی لوگوں کے لیے ہے جو پرہیزگار ہوتے ہیں
عہد کرنے والے اور دیانتدار ہی متقی لوگ ہیں : 157: اس آیت میں اسلام کی پوری وسعت بیان فرما دی گئی۔ ذکر تو صرف امانت کا تھا مگر ایک قسم کی ذمہ داری کو اس کے اندر داخل کرنے کے لیے پہلے عہد کے پورا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور پھر تقویٰ کی طرف اس کو منتقل کردیا گیا۔ عہد کو تو ہر ایک شخص سمجھتا ہے یعنی کوئی بھی ذمہ داری جو انسان علی الاعلان اپنے اوپر لے لیتا ہے عہد میں داخل ہوجاتی ہے مگر تقویٰ کے اختیار کرنے میں اشارہ زیادہ تر باریک امور کی طرف ہے جس کا تعلق امانت اور دیانت داری سے ہے کیونکہ امانت کی ادائیگی میں ہر قسم کے ان حقوق کی ادائیگی داخل ہے جو انسان کے ذریعہ امانت ہوں خواہ وہ عہد کے اندر آتے ہوں یا نہ آتے ہوں۔ گویا کھلا عہد ہو یا بطور امانت کوئی ذمہ داری خواہ کسی کے متعلق ہو تو ان عہدوں اور امانتوں کو ادا کرنا ضروری و لازمی ہے اور اس طرح انسان اللہ کا محبوب بنتا ہے اور اتقی کا مرتبہ ایک ایسا کامل ہے کہ ایفائے عہد بھی اس میں آجاتا ہے اس لیے آخر آیت میں صرف ” یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ “ کے الفاظ فرما دیے اور انہی عہود میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان جن کو ” عہد میثاق “ کا نام بھی دیا جاتا ہے داخل ہیں۔ کیونکہ اس کے احکام جن کو ایمان لا کر انسان علی ال ایمان قبول کرچکا ہے اس لیے ان کی تعمیل بھی ضروری ہے اور اس کے بعد اب اللہ تعالیٰ ہی کے عہد کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔
Top