Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 29
وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ : تم چاہتی ہو اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ : اور آخرت کا گھر فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ اَعَدَّ : تیار کیا ہے لِلْمُحْسِنٰتِ : نیکی کرنے والوں کے لیے مِنْكُنَّ : تم میں سے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
اور اگر تم اللہ ، اس کے رسول اور آخرت کی (اچھی) زندگی کو پسند کرتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
اگر تم کو اللہ ، رسول اور آخرت کی اچھی زندگی کی چاہت ہے تو اجر عظیم کے مستحق ہو 29 ۔ گزشتہ آیت میں تو زندگی کا ایک رخ تھا اب دوسرا رخ بھی تمہارے سامنے ہے اور وہ ہے کہ مقصود اصل یہ دنیوی زندگی نہیں بلکہ اس کے عوض میں آخرت کی اچھی زندگی اصل طلب حقیقی ہے تو تمہارا اور میرا نظریہ ایک ہے اور ظاہر ہے کہ نظریہ ایک ہو تو زندگی کا اصل لطف حاصل ہوتا ہے اور اگر نظریات کا اختلاف ہو تو دنیوی زندگی ہی جہنم کا سماں پیدا کردیتی ہے۔ دلوں کے راز اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو دلوں کے رازوں سے واقف ہو اگر تمہارا نظریہ اللہ ، اس کا رسول اور آخرت کی زندگی اصل مقصود ہے تو بلا شبہ اسی نظریہ کا میں داعی ہوں اور میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری آخری زندگی کے لئے اجر عظیم تیار کررکھا ہے اور بلا شبہ تمہارے درجے کے مطابق تمہاری پذیرائی ہوگی اور تمہیں وہاں کسی طرح کا کھٹکا نہیں ہوگا اور تم کو اجر عظیم دیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ نبوت و رسالت کے مقام سے کون سا مقام زیادہ بلند ہے۔ بلا شبہ اس مقام ومنصب سے کوئی زیادہ اچھا مقام ومنصب نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی معیت حاصل ہوجائے تو اس مقام کی اس سے بڑی وضاحت اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ کتنا بڑامقام ہوگا جس مقام پر تم کو ٹھہرایا جائے گا بلاشبہ وہ وہی مقام ہوگا جس سے بڑا اور کوئی مقام نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں نبوت و رسالت سے زیادہ حسن سلوک کی جگہ میسر نہیں ہے کہ آپ ﷺ سے زیادہ بہتر سلوک معاشرت کوئی کر ہی نہیں سکتا ؟ اور نہ ہی ممکن ہے ازواج مطہرات نے اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو بگوش ہوش سنا اور سن کر ذرا دیر لگائے بغیر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ اور آخرت کی اچھی زندگی مقصود اصل سمجھتے ہوئے پسند کیا اور اس بشارت کی مستحق ٹھہریں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کی تمام عورتوں کے لئے ایک نمونہ بن گئیں جب تک زندہ رہیں ان کی زندگی عورتوں کے لئے اسوہ رسول کی زندہ مثال تھی اور جب وفات پاگئیں تو ان کا تذکرہ بھی رسول اللہ ﷺ کی امت کے لئے آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ پیش کررہا ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے پیش کرتا رہے گا۔ افسوس ہی نہیں صد افسوس ہے انکم فہموں اور بدبختوں پر جو اللہ تعالیٰ کا یہ کلام پڑھ کر بھی امہات المومنین میں سے کسی ایک کی شان میں گستاخی اور ہزہ سرائی سے باز نہیں آتے اور اپنی آخرت کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ بلا شبہ اس طرح وہ امہات المومنین میں سی کسی ایک کا بھی کوئی نقصان نہیں کر رہے بلکہ جو کچھ نقصان کر رہے ہیں وہ اپنا ہی کر رہے ہیں اور بلاشبہ یہ نقصان کوئی معمولی نقصان نہیں بلکہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کا ازالہ کبھی ممکن ہی نہیں۔ زیر نظر آیت کے تحت ہمارے مفسرین نے تخییر کے مسائل بیان کئے ہیں اور اس کی بہت تفصیل بیان کی ہے تخییر کیا ہے ؟ تخییر یہ ہے کہ مرد عورت کو اختیار تفویض کردے کہ وہ اگر چاہے تو اپنے آپ کو طلاق دے کر مرد سے الگ کرلے پھر اس کی اقسام بھی بہت ہیں اور تخییر کے الفاظ میں بہت بحث ہے کہ کون سے الفاظ استعمال کیے ہوں تو ان کا کیا مطلب ہوتا ہے اور کیا حکم ہوتا ہے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تھا اس کا سبب کیا تھا اور نتیجہ کیا رہا یہ اور اس طرح کی بہت بحث کی ہے لیکن ہم اس بحث کو اس جگہ چھیڑنا نہیں چاہتے اس کا مقام آئے گا تو انشاء اللہ بات ہوگی۔
Top