Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
(اے پیغمبر اسلام ! ) آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات (ؓن) سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتی ہو تو آؤ میں تم کو (دُنیا کا) کچھ فائدہ (مال و متاع) دے کر حسن و خوبی کے ساتھ رخصت کر دوں
مسلمانوں کی گھریلو زندگی کی اصلاح کے لئے پہلا قدم رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے اٹھایا گیا 28 ۔ یہ ہجرت کا پانچواں سال جارہا ہے مہاجرین کو مدینہ میں آباد ہوئے چار ساڑھے چال سال گزر رہے ہیں الحمد للہ اب مشکل اوقات رخصت ہوتے نظرآتے ہیں اسی وقت تک جب تک خندق کھودی جارہی تھی حالات نازک سے نازک تر ہی ہوتے گئے لیکن جنگ احزاب کے بعد اور بنو قریظہ کی طرف سے بہت مال اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تو لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور جس طرح سب کو معلوم ہے کہ مال آئے تو کیا ہوتا ہے وہی کچھ ہوا یہ صحیح کہ بنو قریظہ کی طرف سے بہت سا مال آیا لیکن ساتھ ہی بنو قریظہ کے قبیلے کے نو دس ہزار آدمی بھی قیدی بنائے گئے اور ان کے قیام وطعام کا بندوبست بھی اسلام ہی کے ذمہ تھا اور وہ بھی اس مال سے مکمل ہونا تھا ان چیزوں کے پیش نظرگھریلو زندگی کی اصلاح لئے براہ راست نبی اعظم وآخر ﷺ کو اور آپ ﷺ کی بیویوں کو مخاطب کیا گیا اس وقت نبی کریم ﷺ نے 8 شادیاں کی تھیں اور آپ ﷺ کی 2 بیویاں سیدہ خدیجۃ الکبری اور زینب خزیمہ وفات پاچکی تھیں اور 6 امہات المومنین موجود تھیں ، سیدہ سودہ ؓ ، سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ ، سیدہ حفصہ ؓ ، ام سلمہ ؓ ، سیدہ زینب بن جحش ؓ ، اور سیدہ جو یریہ ؓ ، اسی طرح ام المومننی سیدہ ریحانہ ؓ جو بنی قریظہ ہی میں تھیں اس وقت آپ ﷺ کے حبالہ عقد میں آچکی تھیں یا آنے والی تھیں کیونکہ غزوہ بنو قریظہ 5 ہجری کے ذی الحجہ میں ہوا جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کو ام المومنین ہونے کا شرف ذی الحجہ 5 ہجری یامحرم 6 ہجری میں حاصل ہوا اور بلا شبہ ان آیات کا نزول اس وقت ہوا جب بنی قریظہ کا قلع قمع ہوچکا تھا اور وہاں سے کافی مال بیت المال میں جمع ہوچکا تھا اور یقینا لوگوں کی نظریں اس وقت دیکھتی تھیں اور ویسے بھی اب مسلمان ، زمینوں ، باغات اور مکانات کے مالک ہوچکے تھے اس وقت تک نبی کریم ﷺ کی خانگی زندگی صرف آرام اور آسائش کے اسباب ہی سے خالی نہ تھی بلکہ ضروریات زندگی بھی کثرت سے فراہم نہ تھیں ، مسلسل کئی کئی روز تک چولھے میں آگ نہیں جلائی جاتی تھی بلکہ ضروریات زندگی بھی کثرت سے فراہم نہ تھیں ، مسلسل کئی کئی روز تک چولہے میں آگ نہیں جلائی جاتی تھی اور کھجور وغیرہ پر بسر اوقات کی جاتی تھی اکثر جو کی روٹی یا گندم کے ان چھنے آٹے کی روٹی دستر خوان کی زینت ہوتی تھی لیکن خیال رہے کہ اس میں زیادہ حصہ امہات المومنین کی سادہ زندگی کا تھا ورنہ اس وقت تک امہات المومنین میں داخل ہونے والی ساری کی ساری بیبیاں اپنے خانگی حالات کے باعث خوشحال تھیں اور اپنی ذاتی ملکیت رکھتی تھیں اور بلا شبہ وہ اس قدر تنگ داماں ہرگز نہ تھیں کہ وہ ذاتی مال کو اس قدر سنبھال کر رکھتی ہوں کہ اس میں سے اپنے ذاتی استعمال میں بھی وہ لانے کے لئے تیار نہ ہوں اور رسول اللہ ﷺ پر یہ شبہ کرنا بھی حرام ہے کہ آپ ﷺ جن عورتوں کو اپنی زوجیت میں لاچکے ہوں ان کے جائز اخراجات کی فکر سے آپ ﷺ آزاد ہوں اور اس کا بندوبست نہ کرتے ہوں جس کے باعث بیبیوں کو مل کر تقاضا کرنا پڑا۔ ایک طرف تو آپ ﷺ لوگوں کو اس بات کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمائیں کہ تم میں سے بہتروہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر سلوک کرے اور میں تم سب سے بہتر سلوک کرنے والا ہوں اور دوسری طرف عورتوں کی طرف سے اتناشدید تقاضا کہ ان کو نکاح میں رہنے اور اس روکھی سوکھی پر گزارہ کرنے کے لئے کہا جاتا یا ان کو اختیار دیا جائے کہ اگر تم اللے تللے کرنا چاہتی ہو تو آئو میں تم کو رخصت کردوں۔ امہات المومنین میں سے ایک بی بی تھی اس کردار کی اور اتنے سخت رویہ کی نہیں تھی اور یقینا نہیں تھی۔ قرآن کریم کلام ربانی ہے اور اس میں جس طرح ہر بات کے لئے مخاطب رسول اللہ ﷺ ہی کو کیا جاتا ہے اگرچہ مقصود کلام لوگوں کو متنبہ کرنا ہے بعینہ اسی طرح اس جگہ مخاطب تو بلا شبہ امہات المومنین ہی کو کیا گیا ہے ۔ لیکن دراصل مقصود کلام ایمان والی عورتوں کو سمجھانا ہے کہ وہ اپنے لئے خاوندوں اور گھر والوں کو اخراجات کے لئے ناجائز تنگ نہ کریں اور یہ بھی کہ اس رکوع میں بعض احکام امہات المومینن سے خاص ہیں جن کا ذکر آگے آرہا ہے اور عام احکام کو بھی خاص ہی کے تحت بیان کیا جارہا ہے تاکہ ان کی اہمیت واضح ہوجائے اور عام عورتیں بھی اپنے خاوندوں سے آئے دنوں نئے نئے مطالبات نہ پیش کرتی رہیں کہ مردوں کو ان مطالبات سے تنگ آکر کوئی ایسا اقدام کرنا پڑے جس کے نتائج فریقین کے لئے اچھے نہ ہوں اس طرح ایک حکم عام کو حکم خاص کرکے بیان کیا جارہا ہے تاکہ اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جائے اور ہر اس عورت کو مخاطب کرکے بات نہ کی جائے جس کا اس طرح کا تقاضا ہو بلکہ اس کی تفہیم کے لئے رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کو مخاطب کرکے بات کی جائے تاکہ اس کے لئے اس کا سمجھنا آسان ہو کہ جب اتنی بڑی شان کی عورتوں کو جو امہات المومنین کی لقب سے ملقب ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے تو باقی عورتوں کا ان کے مقابلہ میں کیا مقام ہے کہ ان کے جائز وناجائز مطالبات کو ان کے مرد یعنی خاوند ضرور پورا کریں چاہے وہ جو مطالبہ بھی پیش کردیں۔ تعجب ہے کہ ہر وہ سبق جو ہم کو دیا گیا تھا اس کو ہم نے خصوصاً بھلانے کی کوشش کی آج نہ تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس موجود ہیں اور نہ ہی امہات المومنین لیکن یہ تعلیمات تو ہمارے پاس موجود ہیں پھر ان تعلیمات سے ہم نے کیا سبق سیکھا ؟ آج ہر گھر میں عورتوں کے کیا مطالبات ہیں اور مرد عورتوں کے ان مطالبات کو پورا کرنے کے لئے کیا کچھ کر رہے ہیں۔ عورتوں کے کھانے پینے کے مطالبات کیا ہیں اور بنائوسنگھار کے سامان اور کپڑوں کے انبار کی کیا صورت ہے اور ان کے اخراجات کا کیا حال ہے ؟ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں پھر جو تعلیم ہم کو ان آیات کریمات میں دی گئی تھی اس کو ہم نے کیسے بھلا دیا ؟ صرف یہی کہہ کر کہ یہ تو امہات المومنین کو مخاطب کرکے کہا گیا اس میں ہمارا تمہارا ذکر ہی کب ہے ؟ افسوس کہ مسلمان عورتوں کو اس مخصوص حکم کو حکم عامہ کہہ کر کیوں نہ سمجھایا گیا اور ان کو یہ کیوں نہ باور کرایا گیا کہ یہ حکم تو ہر اس عورت کے لئے دنیا طلبی کا تقاضا کرے اور آخرت کی زندگی کو بالکل بھلا کر رکھ دے۔ ہمیں معلوم ہے کہ روایات کی روشنی میں امہات المومنین کے ان مطالبات کو کس طرح پیش کیا گیا اور کس طرح نبی کریم ﷺ کو پریشان کرنے کے قصے گھڑت گئے۔ مفسرین نے اس وقت جب ان آیات کریمات کا نزول ہوا آپ ﷺ کی چار بیبیاں تسلیم کی ہیں سو دہ ؓ ، عائشہ ؓ ، حصفہ ؓ ، اور ام سلمہ ؓ چاروں کے حالات زندگی پڑھ جائو کسی ایک کے حال میں بھی اس بات کا ذکر موجود نہیں کہ انہوں نے اس طرح کا کوئی مطالبہ رسول اللہ ﷺ سے کیا تھا اور یہ بھی کہ ام سلمہ کے سوا کسی کے پاس کوئی بچہ بھی نہیں تھا ام سلمہ کے پاس پچھلے خاوند عبداللہ کے بچے تھے لیکن ان کی پرورش کی ذمہ داری رسول اللہ ﷺ نے اٹھائی تھی کہ میں ان کی پرورش کا بندوبست کروں گا اور جب آپ ﷺ نے ذمہ لیا تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اس ذمہ داری کو آپ ﷺ نے پس پشت ڈال دیا ہو اور ام سلمہ کو کسی طرح کا مطالبہ کرنا پڑا ہو۔ غور کرو کہ قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ { لئن…… …… الخاسرین } (الزمر 65:39) ” اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے میں رہو گے “ تو کان نبی کریم ﷺ سے شرک کرنے کا کوئی اندیشہ تھا ؟ حاش اللہ ہرگز ہرگز نہیں بلکہ اس سے مقصود نبی کریم ﷺ کو اور آپ کے واسطہ سے تمام انسانوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ شرک کتناخطرناک جرم ہے جس سے نہایت سخت اقرار لازم ہے اور یہی بات اس جگہ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے کہی جارہی ہے اور امت کی ساری عورتوں کی اس سے تعلیم کرنا مراد ہے تاکہ کسی جگہ بھی اس طرح کی کوئی صورت نہ پیدا ہو جو جھگڑے کا باعث بنے اور مردوں پر اتنی ہی ذمہ داری ڈالی جائے جس کے وہ متحمل ہوں ، پھر آنے والی آیتیں خود اس کی وضاحت پیش کررہی ہیں کہ بات وہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی گھریلوزندگی کے وہ حالات ہیں جن میں کئی کئی روز تک آگ روشن نہ ہونے کا ذکر ہے اور اس طرح کی دوسری باتیں کتب احادیث میں بیان ہوئی ہیں یہ ہجرت کے معن بعد کی باتیں ہیں جب تک غزوات وسرایا کا معاملہ شروع نہیں ہوا تھا احادیث میں اس بات کی وضاحت بھی موجود ہے کہ ازواج مطہرات کے لئے یہ انتظام تھا کہ بنو نضیر کے نخلستان میں ان کا حصہ مقرر کردیا گیا جو فروخت کردیا جاتا تھا اور سال بھر کے مصارف کے لئے وہ کافی ہوتا تھا۔ (بخاری ص 806) پھر جب خیبر فتح ہوا تو اس میں سے مزید ازواج مطہرات کو دیا گیا جس کی مقدار فی کس 80 دسق کھجوریں اور بیس وسق جو بتائی گئی ہے جب کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا تھا۔ (بخاری کتاب المزارعہ جلد اول 313) خیال رہے کہ دنیوی زندگی کی آسانیاں اور عیش ممنوع چیز نہیں ہے جس چیز سے روکا گیا ہے وہ فقط اسے مقصود بنا لینا ہے۔ “ { تردن } کا لفظ اس آخری معنی کو چاہتا ہے ، دنیوی زندگی کی عیش مقصود بالذات ہوجائے کہ انسان جو کچھ کرے وہ اس کی خاطر کرے تو بلا شبہ یہ مذموم ہے ہاں جہاد فی سبیل اللہ ہو یا کوئی دوسرا کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے پھر اس طرح اس سے دنیوی زندگی کا فائدہ بھی حاصل ہوجائے تو ہرگز ہرگز مذموم نہیں اور یہ بات پہلے معلوم ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ قرآن کریم نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کو اس طرح مخاطب کرکے بات بالکل واضح کردیں تاکہ ان کو بھی قبل ازوقت اس بات کی اطلاع ہوجائے کہ ان کو امہات المومنین کا شرف حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ قربان کرنا ہے اور عام مومن مسلمان عورتوں کو بھی پتہ چل جائے کہ وہ اپنے خاوندوں سے کس طرح کے مطالبات کرسکتی اور کس طرح کے مطالبات جائز نہیں اس کو کہتے ہیں کہ ایک پنتھ دو کاج۔ اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات سے فرمادیجئے تاکہ ان کو قبل از وقت معلوم ہوجائے اور عام مسلمان اور مومن عورتیں بھی ان کا ذکر سن کر اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر ہم نیاسلام کے اندررہنے اور اسلامی زندگی اختیار کرنے کی باوجود غلط طرح کے مطالبات شروع کیے تو ان کا انجام کیا ہوگا اور غلط مطالبات میں جو بات سرفہرست ہے وہ یہ ہے کہ ایک سچا مومن خواہ مرد ہے یا عورت مقصود اصلی اس دنیا فانی کو سمجھ لے اور اس کی عیش و آرام ہی کو اصل عیش و آرام کہنا شروع کردے حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مومن ومسلم کا مقصود اصلی آخرت ہو اور ہر وہ کام اختیار کرے جس سے اس کی آخرت درست ہو لیکن آخرت درست ہونے کے ساتھ اس کی دنیوی زندگی بھی آسانی سے گزرے تو سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ دنیا کی زندگی کے پیچھے اس طرح لگ جائیں کہ آخرت بربادہوجائے۔ فرمایا اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت وزیبائش کو چاہیا ہو تو آئو میں تم کو وقتی فائدہ اور سازو سامان زندگی دے کر رخصت کردوں تم وہاں رہو جہاں صرف دنیوی زندگی کی آسائش و آرام کی باتیں ہوں اور اس زندگی کو حقیقی زندگی سمجھ لیا گیا ہے میرے ہاں تو اس دنیا کی کوئی وقعت نہیں ، میں تو آخرت کا طالب ہوں اور انہی لوگوں کے ساتھ پسند کرتا ہوں جو آخرت کے جو یا ہیں اور دنیوی زندگی میں اتناحصہ ہی حاصل کرتے ہیں جتنا حصہ حاصل کرنا حدود اسلامی کے اندررہ کر ان کے لئے جائزہو۔
Top