Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو مَنْ : جو کوئی يَّاْتِ : لائے (مرتکب ہو) مِنْكُنَّ : تم میں سے بِفَاحِشَةٍ : بیہودگی کے ساتھ مُّبَيِّنَةٍ : کھلی يُّضٰعَفْ : بڑھایا جائے گا لَهَا : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب ضِعْفَيْنِ ۭ : دو چند وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اے نبی ﷺ کی بیویو ! تم میں سے جو کوئی ناشائستہ حرکت کرے گی تو اسے دوگنی سزا دی جائے گی اور یہ بات اللہ کے لیے آسان ہے
جتنا بڑا مقام اتنی ہی بڑی سزا اگر کوئی لغزش ہوجائے 30 ۔ { فاحشۃ } ایسی برائی جس کا اثر دوسروں پر پڑے۔ حد سے بڑھی ہوئی برائی۔ ہر وہ چیز جس کی ممانعت اللہ تعالیٰ نے کردی ہو اور پھر آدمی اس کا مرتکب ہو۔ ہر برا قول یا عمل ، کیا کوئی مسلمان اس بات کا تصور بھی کرسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی بیبیوں میں سے کوئی فحش حرکت کی مرتکب ہوسکتی تھی۔ نہیں ، اور ہرگز نہیں۔ بلا شبہ اس سے ازواج مطہرات رسول کو احساس دلانا مقصود ہے کہ جن لوگوں کا معاشرہ میں بہت بڑا مقام ہو ان کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہیں اور دوسرا یہ کہ کہ جن سے کسی گناہ کے سرزد ہونے کا امکان تک موجود نہیں جب اسلام ان کا نام لے کر ان کی برائی کے ارتکاب کی وجہ سے دوہرا عذاب سنایا جارہا ہے تو وہاں عام عورتوں کو کیسے معاف کیا جاسکتا ہے کیونکہ معاشرتی بیماریوں اور برائیوں کا وجود اسلام کبھی برداشت نہیں کرسکتا بڑوں کی چھوٹی حرکت کو بھی وہ بڑا سمجھتا ہے چہ جائیکہ کوئی بڑا بڑی برائی کا مرتکب ہو اور پھر اس کو معاف کردیا جائے ہرگز نہیں وہ قابل معافی نہیں بلکہ وہ تو دوہری سزا کا مستحق ہے کیونکہ وہ دوسروں کی ٹھوکر کا باعث ہوسکتا ہے اسلام کی نظر میں جتناانسان بڑا ہوگا اتنی ہی اس کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی بڑی تصور ہوگی کیونکہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ ہے اس لئے بڑوں کا اخلاق ، پاکیزگی اور طہارت بھی بڑی ہی ہونی چاہیے۔ اس سے جو درس قوم مسلم اور خصوصاً بنات الاسلام کو دیا گیا ہے اور ان لوگوں کی گھریلو ذمہ داریوں کے متعلق وضاحت دی گئی ہے جو مذہبی پیشوا اور مذہبی راہنما کہلاتے ہیں لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں نے جہاں باقی باتوں سے منہ موڑ لیا ہے وہاں ان ذمہ داریوں کی بھی کوئی پروا نہیں کی جاتی اس لئے حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ اس کا تذکرہ کرنا نہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ بہرحال نبی کریم ﷺ کی بیویاں امہات المومنین ہیں اس لئے ساری امت کی عورتوں اور بچیوں کے لئے ان کی زندگی تو بہرحال ایک نمونہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی ان کا درجہ بہت بلند ہے لہٰذا اس رفعت شان اور عظمت مقام کے تقاضے پورے کرنا بھی ان پر لازم وضروری ہے اس لئے ان کو خبردار کیا گیا ہے خبردار ! تمہارے اجلے دامن پر کوئی داغ لگنے نہ پائے ان کو واشگاف الفاظ میں دو ٹوک بتا دیا گیا کہ اگر تم نے کوئی ایس حرکت کی جو قابل اعتراض ہوئی تو یاد رکھو کہ تمہارا لحاظ کرکے تم کو چھوڑا نہیں جائے گا بلکہ تمہیں دوگنی سزا دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ پر ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے یہ بات کہہ کر قوم مسلم کے افراد کو بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی انسان بھی گرفت سے بچ نہیں سکتا اور جس کو وہ اپنے قانون کے مطابق پکڑ لیتا ہے وہ کوئی ہو اور کون ہو سزا سے بچ نہیں سکتا ہاں ! یہ ہو سکتا کہ اگر وہ قوم کا راہنما یا پیشوا اور سیاسی لیڈر ہو تو جتنا بڑا اس کا مقام ہوگا اتنی ہی بڑی اس کی سزا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بیبیوں میں سے کسی سے کوئی ایسی نازیبا حرکت ہوئی تو ان کو دوگنا عذاب دیا جائے گا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ بڑے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی سزا میں تخفیف کردی جائے جیسا کہ اس معاشرہ میں ہورہا ہے اور یہود کے معاشرہ میں بھی نبی اعظم وآخر ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ہوتا رہا ہے۔ بہرحال امہات المومنین میں سے کسی سے بھی نہ تو کوئی ایسی لغزش ہوئی اور نہ ہی اس کا کوئی امکان تھا جس مقصد کے لئے یہ احکام بیان ہوئے اس مقصد کو مسلمانوں نے اور خصوصاً مذہبی پیشوائوں اور راہنمائوں نے بالکل بھلا دیا اور جو سبق ان میں دیا گیا تھا اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دی گئی اور آج مذہبی راہنمائوں ، پیشوائوں اور سیاسی لیڈروں کی گھریلو زندگی جس قدر خراب اور ناگفتہ بہ ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور ان آیات کریمات میں دوگنا عذاب سنانے والا اللہ تعالیٰ بھی سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے۔ زیر نظر آیت پر قرآن کریم کا اکیسواں پارہ ختم ہورہا ہے۔ پاروں کی تقسیم اگرچہ عجمی ہے تاہم سپارہ قرآن کریم معروف ہیں۔
Top