Urwatul-Wusqaa - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
اے لوگو ! تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بےنیاز سزاوار حمد (وثنا) ہے
اے لوگو ! تم سب محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ ہی غنی ہے ، تعریف کیا گیا 15 ۔ انسان اور اغراض دونوں لازم وملزوم ہیں اور پھر انسان ہر غرض کے لئے محتاج ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی غرض پوری ہو اور اللہ تعالیٰ نے انسان کی ساری جائز اغراض کا جائز بندوبست کردیا ہے اس کی کوئی غرض ایسی نہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے بندوبست نہ کیا ہو اب انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اغراض کے لئے جائز اور درست کوشش اور جدوجہد کرے تاکہ وہ ان کو پورا کرسکے اس طرح انسان کے اندر جتنی خواہشات پیدا ہوسکتی ہیں ان سب کو پورا کرنے کا ایک جائز طریقہ بھی اور بہت سے ناجائز طریقے بھی ہیں اور یہ اس کے لئے امتحان رکھ دیا گیا ہے کہ وہ جائز طریقہ کو استعمال کر کے اپنی ضرورت کی چیز کو حاصل کرتا ہے یا ناجائز طریقہ کو استعمال کرکے پھر جائز طریقہ سے جو اس کو حاصل ہے اس پر قناعت کرنا ہی آخرت پر یقین رکھنا ہے اور ناجائز ذرائع کا استعمال کرنا ہی آخرت سے دوری اور اس عقیدہ کو تسلیم نہ کرنا قرار دیا جاتا ہے اب اس بات کو پیش نظر رکھو اور ایمانداری کے ساتھ سب سے پہلے تو اپنا ہی تجزیہ کرکے دیکھو اور پھر جس مذہبی پیشوا اور سیاسی لیڈر کا چاہو تجزیہ کرو اور نتیجہ دیکھ لو کہ کیا نکلتا ہے حالانکہ ماننے کو تو ہر مسلمان آخرت کی زندگی کا اقراری ہے لیکن اس اقرار میں کون صحیح ہے اور کون غلط تم سب پر روشن ہوجائے گا۔ مختصر یہ کہ زیر نظر آیت میں سارے انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ تم تو ہر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے محتاج ہو اگر وہ نگاہ کرم کو ایک منٹ کے لئے بھی ہٹائے تو دنیا اندھیر ہوجائے وہ تم کو اگر اپنی تسبیح و تہلیل کے لئے کہتا ہے تو اس میں بھی اس کا نہیں تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے اگر تم سمجھو۔
Top