Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 2
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَؕ
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ : بیشک ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : تمہاری طرف الْكِتٰبَ : یہ کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ فَاعْبُدِ اللّٰهَ : پس اللہ کی عبادت کرو مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهُ : اسی کے لیے الدِّيْنَ : عبادت
(اے پیغمبر اسلام ! ) بلاشبہ ہم نے یہ کتاب آپ ﷺ پر حق کے ساتھ نازل کی ہے ، پس آپ ﷺ اللہ کے ہو کر خالص اس کی بندگی کرتے رہیں
اس کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا گیا ہے اللہ واحد کی عبادت کا درس دیا گیا 2۔ اے پیغمبر اسلام ! اس کتاب کو ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے جس میں باطل کی ذرا بھر بھی آمیزش نہیں ہے۔ حق کے ساتھ نازل کرنے کا مطلب کیا ؟ مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں ایسی دلیلیں پیش کی گئی ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے۔ خیال رہے کہ کوئی قول اور فعل اس وقت حق کہلاتا ہے جب کہ وہ اس طرح پایا جائے جیسے چاہیے اور اس انداز سے پایا جائے جتنا مناسب اور موزوں ہو اور اس وقت پایا جائے جب کہ اس کی ضرورت ہو۔ قرآن ِ کریم کو جگہ جگہ حق کہا گیا ہے تو اس وجہ سے کہا گیا ہے غور کرو کہ قرآن کریم آیا تو اس شان و شوکت سے آیا جو اس کی شایان شان تھی ایسے دلائل وبراہین سے مزین ہو کر آیا جن کو عقل سلیم ماننے پر مجبور تھی اور عین اس وقت آیا جب ہر طرف گھپ اندھیرا چھا گیا تھا اور انسانیت کا کارواں دشت حیرت وضلالت میں بھٹک رہا تھا اور اس وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے آیا جب عقل انسانی اپنی طفولیت کی سرحد عبور کر کے فکر و نظر کی وادی میں قدم رکھ چکی تھی اور انسان کے حواس کو مرعوب کرنے والے نشانات سے کہیں زیادہ عقل و خرد کو مطمئن کرنے والی آیات بینات کی ضرورت تھی۔ سبحان اللہ ! یہ اعجاز ہے ( بالحق) کے لفظ میں آپ جوں جوں غور کرتے جائیں گے آپ کو اس ایک ہی لفظ میں معانی کا سمندر نظر آنے لگے گا۔ پھر زیر نظر آیت میں اللہ کی عبادت کا حکم ہے کہ خاص اسی کی عبادت کرو کہ یہی دین اسلام کی اصل ہے۔ بلاشبہ شرک ایک ایسا گناہ ہے جس سے بڑا اور برا کوئی اور گناہ نہیں اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی بھی عبادت کرتا ہے اور ساتھ ساتھ کسی دوسری کی بھی عبادت و پرستش کرتا ہے تو اس کی ساری نیکی اکارت چلی جاتی ہے اس لیے اس جگہ حکم دیا جا رہا ہے کہ فقط اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اسی کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرو اپنے خالق حقیقی کے بغیر کسی کی بندگی و عبادت کا تصور تک کرنا اور اپنے بادشاہ حقیقی کے احکام کو نظر انداز کرکے کسی غیر کی اطاعت کا دم بھرنا مرد مومن کے لیے زیبا نہیں بلکہ ایسی حرکت کے ارتکاب کے بعد اس کا نام اہل ایمان کی فہرت سے کا رج کردیا جائے گا لیکن افسوس کہ آج بھی اس ملک عزیز کے مسلمانوں کے ہاں دین خالص کی اسی طرح کمی موجود ہے جس طرح قرآن کریم کے نزول کے وقت تھی فرق ہے تو صرف یہ کہ ان کو اسلام نے کفر کا فتوی دیا اور اپنی دعوت کھلے لفظوں میں پیش کی آج نام کے مسلمان اسلام کی خالص دعوت پیش کرنے والوں کو کافر اور نہ معلوم کیا کچھ مزید کہہ جاتے ہیں۔ الی اللہ المشتکی
Top