Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 33
وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
وَالَّذِيْ : اور جو شخص جَآءَ : آیا بِالصِّدْقِ : سچائی کے ساتھ وَصَدَّقَ : اور اس نے تصدیق کی بِهٖٓ : اس کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُتَّقُوْنَ : (جمع) متقی
اور وہ شخص جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس (سچی بات) کو سچ مانا وہی لوگ متقی ہیں
وہ شخص جو سچائی لے کر آیا اور جن لوگوں نے اس سچائی کو قبول کیا وہی متقین ہیں 33۔ سچائی لے کر آنے والا کون ہے ؟ وہی نبی اعظم وآخر محمد ﷺ جن کے سینہ اقدس پر قرآن کریم نازل کیا گیا اور آپ نے اس سچائی کو لوگوں تک پہنچایا اور پھر وہ لوگ جنہوں نے اس سچائی کی سب سے پہلے تصدیق کی اور صحابہ کرام کی جماعت قرار پائی یہی وہ متقی اور پرہیز گار لوگ ہیں جن کے اتقاء اور پرہیزگاری کا اعلان رب ذوالجلال والاکرام کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ایک سچائی ہر حلل میں اور ہر دور میں سچائی ہی رہے گی لیکن وہ لوگ جو سچائی کو ظاہر ہوتے ہی مان گئے اور اس کی تصدیق کی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کی ان کے درجات ان کے مقابلہ میں جنہوں نے دیر تک سوچنے سمجھنے کی کوشش کی اور ہر طرح کی مخالفت میں بھی حصہ لیا اور آخر کار مجبورا اس سچائی کو قبول کرلیا دونوں میں جو فرق ہے وہ بالکل واضح ہے۔ زیر نظر آیت نے صحابہ کا مقام اور صحابہ کے درجات دونوں کی پوری پوری وضاحت کردی کہ اول اول ہی ہوتا ہے اور آخر تو بہرحال آخر ہی ہوگا اگرچہ دیر آمدی درست آید ہم کہہ سکتے ہیں تا ہم مدارج کے فرق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
Top