Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 57
اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَۙ
اَوْ : یا تَقُوْلَ : وہ کہے لَوْ : اگر اَنَّ اللّٰهَ : یہ کہ اللہ هَدٰىنِيْ : مجھے ہدایت دیتا لَكُنْتُ : میں ضرور ہوتا مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
یا کوئی کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھ کو راہ (حق) دکھاتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں ہوتا (اور انعام پاتا)
یا یوں کہنا پڑے کہ کاش میں ہدایت یافتہ ہو کر متقین میں داخل ہوتا 57۔ انسان جب پھنس جاتا ہے تو اس کے منہ سے افسوس کے کلمات نکلتے ہیں اور اس وقت وہ اپنی نالائقیوں پر اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے منہ سے کبھی کچھ اور کبھی کچھ الفاظ نکالتا ہے اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اس فطری تقاضا کا بیان جاری ہے اور افسوس کرنے والا کبھی کوئی بات منہ سے نکالے گا اور کبھی کوئی بات۔ زیر نظر آیت میں وہ کہہ رہا ہے کہ ” اے کاش ! اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی “ افسوس کے کلمات انسان جب منہ سے نکالتا ہے تو ان کی کیفیت کچھ عجیب سے ہوتی ہے اور وہ کبھی بھی کلمات منہ سے نکالتے وقت نہیں سوچتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں مثلا کسی کے مرنے کا اس کو پیغام ملا تو ہو کہہ دے گا کہ خدا کرے یہ جھوٹ ہی ہو اور عورتیں بین کریں گی کہ ہاہائے نا مرے۔ کہاوت ہے کہ کسی نشہ کرنے والے کو گولی لگ گئی اور وہ زخمی ہونے کے باوجود یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ کرے جھوٹ ہو۔ انسان جب بوکھلا جاتا ہے تو اس طرح کی الٹی سیدھی منہ سے نکالتا رہتا ہے اور اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس وقت اس طرح کی حالت سے وہ بھی دوچار ہوں گے اور اس طرح کی باتیں منہ سے نکالتے ہوں گے۔
Top