Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 106
وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ
وَّاسْتَغْفِرِ : اور بخشش مانگیں اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہو ، یقین جانو کہ بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے
قرآن کریم حق و باطل میں فرق کرکے الگ الگ کردینے والا ہے 179 قرآن کریم کی نصیحتوں میں سے ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ وہ کسی کو چڑ نہیں چڑھاتا بلکہ ہر اس معاملہ میں جس میں کسی کو چڑ کھانے کا امکان ہوتا ہے اس کا رخ اپنے رسول ﷺ کی طرف پھیر دیتا ہے کیونکہ وہ صاحب وحی ہے اس کو مخاطب کرکے بات کرتا ہے تاکہ رسول جب ان لوگوں کے سامنے بیان کرے گا جو اس کے مخاطبین ہیں تو اللہ کا حکم بیان کرے گا جس کا بظاہر مخاطب تو وہی ہوگا اگرچہ اس سے سمجھانا مقصود امت کے لوگوں ہی کو ہے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھ لو کہ جب حاکم اعلی حکم کرتا ہے تو وہ اپنے نائبین کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ فلاں کام اس طرح ہونا چاہئے اگر اس میں تم نے کوتاہی کی تو اس کا نتیجہ تم کو بھگتنا ہوگا حالانکہ وہ ان کے ماتحتوں نے کرنا ہے اس نے بذاتہ نہیں کرنا ہے تاہم مخاطب وہی کیا جاتا ہے جو اس کام کو سرانجام دینے والوں کا افسر و نگران ہے اور اگر کوئی کوتاہی ہو تو وہ جواب دہ بھی ہوتا ہے۔ زیر نظر آیت میں جو خطاب ہے وہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ فرمایا گیا اے پیغمبر اسلام یہ جو کتاب آپ ﷺ کو دی گئی ہے یہ کیا ہے ؟ یہ حق و باطل کیلئے ایک کسوٹی ہے۔ تم اس پر پرکھ کر لوگوں کے ساتھ معاملہ کرو جو اس پر پورے اتریں وہ مومن و مخلص ہیں ، جو اس پر کھوٹے ثابت ہوں وہ عہد شکن اور غدار ہیں تم اللہ کے حضور ان کے وکیل اور سفارشی نہ بنو اللہ ایسے بد عہدوں اور غداروں کو پسند نہیں کرتا۔ ؛ ہاں ! آپ ان لوگوں کو ہدایت کی تلقین کرسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی ہدایت کی دعا بھی جب تک کہ وہ زندہ ہیں کیونکہ ہدایت کا تعلق زندگی ہی کے ساتھ خاص ہے اور ہدایت یافتہ وہی ہوسکتا ہے جس نے خود توبہ کی اور برائیوں سے تائب ہوگیا۔ فرمایا آپ ﷺ پر ال کتاب یعنی قرآن کریم نازل کیا ہے جو سراسر سچائی ہے۔ آپ ﷺ اس کے مطابق فیصلہ کریں اور کسی کی ناراضگی کی پروا نہ کریں کہ کون راضی رہتا ہے اور کون ناراض ہوتا ہے۔ الفاظ کا اشارہ اس طرف ہے کہ کسی کے دعوی اسلام کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جھوٹا ہو تو بھی اس کو سچا قرار دیا جائے اس لیے کہ اس نے اسلام کو قبول کرلینے کا دعوی کیا ہے اور کسی شخص کے جھوٹے ہونے کی یہ دلیل نہیں کہ اس نے اسلام قبول نہیں کیا۔ اسلام و کفر کا مقام اپنا ہے کسی واقع اور کسی بات کا حق و ناحق ہونا اور بات ہے۔ اسلام سچ بولنے کی ہدایت تو دیتا ہے لیکن یہ نہیں کہتا کہ جو شخص دعوی اسلام رکھتا ہو وہ چاہے جو کرتا رہے وہ سچ ہی ہوگا۔ ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور قرآن کریم کی ہدایت ہر سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کہتی ہے۔ کوئی شخص اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور قرآن پر ایمان کا دعوی کرنے کے باوجود اگر جھوٹ کا مرتکب ہوگا تو جھوٹا ٹھہرے گا اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور قرآن کریم میں سے کسی پر ایمان نہ لائے لیکن جس معاملہ میں وہ سچا ہے اس کو جھوٹا نہیں کہا جاسکتا۔ قرآن کریم کی یہی وہ تعلیم ہے جو دوسرے ادیان و مذاہب سے اس کو بالکل الگ کردیتی ہے لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اس کو بالکل بھلا دیا ہے اور اس میں سے کچھ بھی یاد نہیں رکھا۔ بڑے بڑے علامہ و فہامہ ، پیر و مفتی ، قاری و قاضی دین کے ستون کہلانے والے جب اپیا پارٹی ، اپنی فکر اور گروہ بندی کا نام آتا ہے تو ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ زیر نظر آیت اس بات کی ہدایت فرما رہی ہے کہ ایسا کرنا کھلی خیانت کا مرتکب ہونا ہے۔ سچ سچ ہے اور جھوٹ جھوٹ ہے خواہ کوئی بولے اور کوئی کہے۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ فکر و پارٹی کو دیکھ کر نہیں کیا جاسکتا بلکہ سچ اور جھوٹ کے پرکھنے کے جو اصول ہیں ان ہی پر رکھ کر پرکھا جاسکتا ہے۔ آیت زیر نظر کے شان نزول میں ایک نام کے مسلمان اور یہودی کے ایک فیصلہ کا ذکر بیان کیا جاسکتا ہے۔ آیت زیر نظر کے شان نزول میں ایک نام کے مسلمان اور یہودی کے ایک فیصلہ کا ذکر ہے جس میں یہودی سچا اور مسلمان نام رکھنے والا جھوٹا تھا اور اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق تحقیق کرکے یہ بات واضح فرما دی کہ یہودی سچا ہے اور مسلمان نام رکھنے والا جھوٹا ہے۔ حالانکہ اس وقت نام کے مسلمان کو جس کا نام بشیر تھا مسلمانوں کی حمایت بھی حاصل تھی جو یہودی کو نہیں تھی لیکن آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے جو سچ تھا اور اس کو سچ کہا اور مسلمانوں کی حمایت کی بھی کوئی پروا نہ کی اور یہی ہدایت قرآن کریم مسلمانوں کو دے رہا ہے کہ تم بھی وہی کرو جو پیغمبر اسلام نے کیا ہے ، حق کی حمایت کرو اور حق ہی کو حق جانو اس کے کہنے والا خواہ کوئی ہو۔ (اس واقعہ کی تفصیل ترمذی ، حاکم ، ابن مسعود اور ابن جریر میں موجود ہے)
Top