Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 126
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز مُّحِيْطًا : احاطہ کیے ہوئے
اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کیلئے ہے اور وہ ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے
آسمان و زمین کی ہور شے ک اصل مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہے : 206: قرآن کریم کا قاری جو قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھتا ہے وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ مشرکین کو ہمیشہ دو صفات باری یعنی علم وصفت ملک وقدرت میں سب سے زیادہ ٹھوکر لگی ہے اس لئے قرآن کریم انہی دو صفات کا اثبات باربار کرتا ہے یہاں بھی للہ مافی السموات ومافی الارض میں اللہ تعالیٰ کی صفت کمال قدرت و وسعت سلطنت کا بیان ہے اور کا ناللہ بکل شیء محیطا میں کمال علم کا بیان ہے اور مطلب یہ ہے کہ کوئی چھوٹی بڑی چیز اس پوری کائنات میں سے نہ اس کی ملک و سلطنت سے باہر ہے اور نہ اس کے احاطہ علم سے۔ اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہو وقت اس کارگاہ علم میں اس کی کارفرمائی کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے ، کسی کو ماررہا ہے اور کسی کو جلا رہا ہے ، کسی کو اٹھا رہا ہے اور کسی کو گرا رہا ہے۔ کسی کو شفا دے رہا ہے اور کسی کو بیماری میں مبتلا کر رہا ہے۔ کسی ڈوبتے کو بچا رہا ہے اور کسی تیرتے کو ڈبورہا ہے۔ بیشمار مخلوقات کو طرح طرح سے رزق دے رہا ہے۔ بےحدو حسات چیزیں نئی سے نئی اور شکل و صورت اور اوصاف کے ساتھ پیدا کر رہا ہے۔ اس کی دنیا کبھی ایک حال پر نہیں رہتی۔ ہر لمحہ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور اس کا خالق ہر بار اسے ایک نئی صورت سے تر تیب دیتا ہے جو پچھلی تمام صورتوں سے مختلف ہوتی ہے اور یہ سارا معاملہ اس کے قانون کے مطابق ہورہا ہے اس کا بیان دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طرح کیا گیا ہے کہ : (الرحمن 55:69)
Top