Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 156
وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًاۙ
وَّبِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب وَقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا (باندھنا) عَلٰيُ : پر مَرْيَمَ : مریم بُهْتَانًا : بہتان عَظِيْمًا : بڑا
اور انہوں نے کفر کیا اور مریم (علیہا السلام) کے خلاف بڑے ہی بہتان کی بات کہی
یہود کی شقاوت کا بیان کہ انہوں نے سیدہ مریم پر بہتان باندھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی : 245: سیدہ مریم ؓ کا تذکرہ سورة آل عمران کی آیت 53 تا 46 میں کیا گیا ہے جس میں آپ کی طہارت و پاکیزگی و بزرگی کا بیان ہے لیکن یہود کی کتابوں میں ایسی گندی روایتیں اس پاک سرشت خاتون کی بابت لکھی ہوئی ہیں کہ ان صفحات کو بہ غرض رد بھی نقل کرنا پسند نہیں کیا جا رہا اور خصوصاً اس لئے کہ جب قرآن کریم نے بھی صرف ان کی طہارت و پاگیزگی کا بیان کرنا ہی پسند کیا ہے ان لغو بیانات کا کا ذکر صحیح نہیں سمجھا تو اس بات کو قابل ذکر نہ سمجھنا کوئی غلط نہیں بلکہ ان سے صرف نظر ہی بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس سارتے طومار خرافات کی طرف بکمال بلاغت ، بہتان اور بہتان عظیم کے الفاظ لا کر اشارہ کردیا۔ جیسا کہ اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ عمران کی صاحبزادی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ تھیں نکاح حسب روایات تاریخی یوسف سے ہوا تھا جو نجاری کا کارخانہ قائم کئے ہوئے تھے اور دونوں ہی بڑے عابد اور خدا رسیدہ تھے۔ بہتان کیا ہے ؟ بہتان وہی ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے خود دوسری جگہ اشارہ کردیا کر ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیا کردیا ہے اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بےقصور اذیت دیتے ہیں انہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لئے لیا ہے۔ “ (الاحزاب 58:57:33: ) بس یہ ؟ آیت بہتان کی تعریف متعین کردیتی ہے یعنی جو عیب آدمی میں نہ ہو یا جو قصور انسان نے نہ کیا ہو وہ اس کی طرف منسوب کرنا نبی کریم نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے۔ ابو دائود اور ترمذی کی روایت ہے کہ نبی کریم سے پوچھا گیا کہ غیبت کیا ہے ؟ فرمایا ذکرک اخاک بما یکرہ ” تیرا اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرنا جو اسے ناگوار ہو۔ ” عرض کیا گیا اور اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو تو آپ ﷺ نے فرمایا “ ان کان فیہ ماتقول فقد اغبتتہ وان لم یکن فیہ ما تقول فقد بہتہ “ اگر اس میں وہ عیب موجود ہو جو تو نے بیان کیا تو تو نے اس کی غیبت کی اور وہ عیب اس میں نہیں ہے تو تو نے اس پر بہتان لگایا۔ “ یہ فعل صرف ایک اخلاقی گناہ ہی نہیں ہے جس کی سزا آخرت میں ملنے والی ہو بلکہ اس آیت کا تقا ضا یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے قانون میں جھوٹے الزامات لگانے کا جرم مستلزم سزا قرار دیا جائے اور یہ بات واضح ہوگئی کہ بہتان کیا ہے ؟ یعنی وہ عیب جو اس میں موجود نہیں تھے ان کی نسبت سیدہ مریم ؓ کی طرف کی گئی اس لئے قرآن کریم نے ان کو ” بہتان “ بتایا۔ یعنی جو کچھ بھی یہود نامسعود نے کہا وہ جھوٹ کا پلندہ تھا۔ اس لئے قرآن کریم نے اس کو یہود کا کفر قرار دیا۔
Top