Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 157
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ١ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ
وَّقَوْلِهِمْ
: اور ان کا کہنا
اِنَّا
: ہم
قَتَلْنَا
: ہم نے قتل کیا
الْمَسِيْحَ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنَ مَرْيَمَ
: ابن مریم
رَسُوْلَ
: رسول
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَا قَتَلُوْهُ
: اور نہیں قتل کیا اس کو
وَمَا صَلَبُوْهُ
: اور نہیں سولی دی اس کو
وَلٰكِنْ
: اور بلکہ
شُبِّهَ
: صورت بنادی گئی
لَهُمْ
: ان کے لیے
وَاِنَّ
: اور بیشک
الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا
: جو لوگ اختلاف کرتے ہیں
فِيْهِ
: اس میں
لَفِيْ شَكٍّ
: البتہ شک میں
مِّنْهُ
: اس سے
مَا لَهُمْ
: نہیں ان کو
بِهٖ
: اس کا
مِنْ عِلْمٍ
: کوئی علم
اِلَّا
: مگر
اتِّبَاعَ
: پیروی
الظَّنِّ
: اٹکل
وَ
: اور
مَا قَتَلُوْهُ
: اس کو قتل نہیں کیا
يَقِيْنًۢا
: یقیناً
اور ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو جو اللہ کے رسول تھے ، قتل کر ڈالا ، حالانکہ نہ تو انہوں نے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا بلکہ حقیقت حال ان پر مشتبہ ہوگئی اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا تو بلاشبہ وہ بھی شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ، ظن و گمان کے سوا کوئی علم ان کے پاس نہیں اور یقینا یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا
یہودنامسعود کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو قتل کردیا ہے سراسر جھوٹ ہے : 246: یہود کا دوسرا جرم جو اس جگہ پہلی دفعہ مذکور ہوا یہ ہے کہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح (علیہ السلام) کو قتل کردیا ہے اور قتل بھی سولی پر لٹکا کر کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا رسول مانتے تھے یا نہیں ؟ اگر مانتے تھے تو پھر انہوں نے قتل کیوں کیا ؟ اور یہ بھی کہ اگر وہ اللہ کا رسول نہیں مانتے تھے تو پھر انہوں نے آپ کے رسول ہونے کا ذکر کیوں کیا ؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو رسول مانتے تھے یا نہیں ؟ قرآن کریم کا اسلوب بیان اور یہود کی تاریخ دونوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا سچا رسول نہیں مانتے تھے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے آپ کو قتل کرنے کا اقرار کیا تھا ؟ نہیں رسالت کا انکار اس بات کی دلیل نہیں اس لئے کہ جن لوگوں کو انہوں نے رسول مانا تھا اور ان کی نبوت و رسالت کے اقراری تھے ان کے قتل کے وہ مرتکب ہوچکے تھے جیسے سیدنا زکریا (علیہ السلام) اور سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کو صحیح سیدنایرمیاہ علیہ اسلام اور یہی دوسرے سوال کا جواب بھی ہے بلکہ اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ وہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو صحیح النسب تسلیم نہیں کرتے تھے یہی بہتان انہوں نے سیدہ مریم ؓ پر باندھا تھا اور اسی بہتان کا رد کیا قرآن کریم نے کیا اور فرمایا عیسیٰ (علیہ السلام) ” صحیح النسب “ تھے اور مریم کے متعلق یہود نے یہ جھوٹ گھڑا تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی جیسے کچھ منصوبہ بنایا تھا وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہ تھا اور قرآن کریم نے سیدنا مسیح علیہ اسلام کو ” وجیھا فی الدنیا والاخرۃ “ کہ کر یہود کے الزام کی تردید فرمائی اور ثابت کیا کہ عیسیٰ علیہ اسلام ” صحیح النسب “ اور ایک ” مبارک ولد “ تھے۔ رہاتیسرا سوال کہ اگر وہ رسول مانتے تھے تو انہوں نے ” رسول اللہ “ کے الفاظ کیوں استعمال کئے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کا رسول ہونے کا دعویٰ جو تھا اس لئے انہوں نے ان کے دعویٰ کے مطابق استہزاء ” رسول “ کہہ دیا اور دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ جملہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عزت و توقیر بیان کرنے کے لئے ارشاد فرمایا اور اس طرح یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ جملہ یہود کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ محقق ہے کہ وہ جن انبیاء کرام کو نبی و رسول مانتے تھے وہ بھی جب ان کو ان کی بد اعتدالیوں کی نشاندہی کرتے تھے تو وہ ان کے درپے آزاد ہوجاتے تھے نہ ان کو تکالفر پہنچانے سے چوکتے تھے اور نہ ہی قتل کرنے میں کوئی جھجھک محسوس کرتے تھے۔ یہود تو قتل کے دعویدار تھے ہی تعجب تو یہ ہے کہ نصاریٰ نے بھی اس کی تصدیق کردی : 247: عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح علیہ اسلام کے دشمن یہود بھی دعوی کرتے ہیں کہ نے ان کو قتل کردیا اور سولی چڑھا دیا اور آپ کے ماننے والے اور پرستار یعنی نصاریٰ بھی یہی یقین رکھتے ہیں کہ یہود نے حضرت مسیح علیہ اسلام کو سولی دے دیا۔ گویا بیٹا سولی پر لٹکتے ہوئے ” ایلی ایلی لما شقتنی “ تم نے مجھے کیوں چھو ڑدیا فریاد کرتا رہا اور باپ نے اس کی کچھ مدد نہ کی۔ جب دوست و دشمن اس بات پر مقفق ہوچکے تھے تو قرآن کریم نے آکر حضرت مسیح (علیہ السلام) کی عظمت و جلالت کے اظہارکا بیڑا اٹھایا اور صاف صاف الفاظ میں اعلان کیا کہ یہودی اپنی سازش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جس اللہ کے رسول کو اپنے اللہ کا پیغام سنانے کے باعث انہوں نے قتل کرنے کی سر توڑ کوشش کی اپنی مذہبی عدالت سے اس کو واجب القتل قرار دلوایا اور ملکی عدالت کو جو رومیوں کی حکومت کے تحت تھی اس حکم پر عمل درآمد کرنا ے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ اللہ رب العزت نے ان کی اس ناپاک سازش کو ناکام بنا دیا اور اپنے رسول کا بال بھی بیکا نہ ہونے دیا ۔ دونوں چیزوں کو نفی کردی کہ یہودی نہ آپ کو قتل کرسکے اور نہ سولی چڑھا کر تذلیل کرسکے۔ ہاں ! ہم مانتے ہیں کہ ناجیل کی عبارتیں اس پر شہادت دیتی ہیں اور جو بات یہود کا مسلک تھا اس کو ایک لحاظ سے وہ تسلیم کرتی ہیں اور ہمارے بعض مفسرین نے بھی انہی اناجیل کی عبارات پر انحصار کر کے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ سولی پر لٹکائے گئے تھے کچھ لوگوں نے ان کو مردہ سمجھ لیا تھا حالانکہ وہ مردہ نہیں تھے اور کچھ نے تسلیم کرلیا کہ عیسائیوں کے کہنے کے مطابق وہ تیسرے روز یا چند روز کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے اور بعض مفسرین اسلام نے یہ بھی بیان کیا ہے بلکہ اس طرح بیان کرنے والوں کی تعداد کثیر ہے کہ یہود نے ایک دوسرے آدمی کو جو عیسیٰ علیہ اسلام تو نہیں تھا لیکن عیسیٰ علیہ اسلام کی شکل میں تبدیل ہوچکا تھا اس کو قتل کردیا تھا لیکن اصل عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ قرآن کریم نے بغیر تفصیل میں گئے اور جزوی طور پر ان کی ایک ایک بات کو بیان کر کے اس کی تردید کی بجائے دو لفظوں میں بات کو بالکل واضح اور صاف کردیا اور قرآن کریم کا یہ سب سے بڑا اعجاز ہے کہ کسی کو دکھ دئیے بغیر اپنا صاف صاف بیان دے جاتا ہے اور باتیں بنانے والوں کو قطعاً وہ نہیں چھیڑتا اور نہ ہی بات سے بات نکالتا ہے اور نہ اس طرح کے بیان کو وہ پسند کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ سوسنار کی پر ایک لوہار کی لگا کر آگے چلتا بنتا ہے لیکن سنا کو کچھ نہیں کہتا۔ اس جگہ بھی اس نے بالکل وہی کچھ کیا اور صاف صاف لفظوں میں اعلان فرما دیا کہ ” وماقتلوہ وما صلبوہ “ نہ وہ قتل کرسکے اور نہ ہی سولی چڑھا سکے۔ پھر ہوا کیا ؟ فرمایا ” ولٰکن شبہ لھم “ لیکن یہ بت ان پر مشتبہ ہوگئی۔ یہ شبہ کس نے ڈالا۔ کیوں ڈالا ؟ اور کیسے ڈالا ؟ اس نے اس کے متعلق کچھ نہ کہا ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ اس کے متعلق جو کچھ بھی کہا جاتا اللہ کے ہاں بیشک وہ سچ ہوتا لیکن نہ ماننے والوں کے لئے وہ کسی حال میں بھی بس نہیں ہو سکتا تھا اور اس طرح ضمنی سوالات و جوابات میں الجھ کر وہ اپنے اصل موقف سے بہت دور نکل جاتا اور قرآن کا کمال ہی یہ ہے کہ وہ ایسے مقامات پر بالکل خاموش رہتا ہے کیونکہ یہ کٹ حجتیوں کی لڑائی کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی اور وہ اپنے مقصد میں اس طرح کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ ایسی باتوں میں الجھا کر اصل مقصد سے دور لے جاتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بت واضح ہوجاتی ہے کہ جب ایک نہ ہونے والی بات تسلیم کرلی جاتی ہے تو اسکا نتیجہ کیا نکلتا ہے عیسائیوں نے یہودیوں کی باتوں میں آکر اس بات کو تسلیم کرلیا کہ ہاں وہ ” صلیب پر لٹکائے گئے “ اس کے بعد انہوں نے کیا کچھ کہا اور وہ کہاں کے کہاں نکل گئے۔ پھر ان کو تیسرے روز زندہ کرنے ‘ زندہ آسمان پر اٹھائے جانے ‘ حواریوں کے ساتھ ملاقات کرنے ‘ ایک دعوت میں شریک ہونے اور پوری قوم کے گناہوں کا کفارہ بننے ۔ انسان کو لعنتی زندگی سے نکالنے ۔ صلیب کو ایک مبارک نشان تسلیم کرنے کے کتنے عقائد گھڑنے پڑے یہ سب کچھ کیوں ہوا ؟ صرف اس لئے کہ انہوں نے صلیب پر چڑھائے جاناتسلیم کرلیا حالانکہ ان کو اس کی کوئی دلیل بھی نہیں دی گئی تھی بلکہ انہوں نے اس نظریہ کو تسلیم کر کے خود دلیلیں گھڑناشروع کیں اور اس طرح ایک ایسی بحث انہوں نے شروع کرلی جو استروں کی مالا سے کچھ کم نہ تھی۔ وہ جس طرف منہ پھیرتے زخمی ہوتے اور پھر ان زخموں کی مرہم پٹی میں وہ لگ جاتے اور یہود نے ان کا ناطقہ اس طرح بند کیا کہ وہ دم بخود ہو کر رہ گئے اور آئے دنوں کی مجلسیں جما کر نئے نئے عقیدے بنانے اور پھر ان کی تشہیر کرنے سے کبھی فرصت نہ ہوئی اور انجام کار انہوں نے دین و دنیا کو بالکل الگ الگ کر کے ایک دوسرے سے اس طرح جدا کیا کہ اب دین میں وہ جس نظریات کے پابند ہیں ان کا دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ان کی دنیوی زندگی کے لئے کوئی ضابطہ الٰہی نہیں ہے بلکہ وہ بالکل آزاد ہیں جو ایک ناطق حیوان سے زیادہ کوئی پابندی کو قبول نہیں کرتے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ وہ سمجھدار بندر کہلا سکتے ہیں۔ پھر اس پر مزید تعجب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو جو صحیح معنوں میں انسان کہلا نے کے حقدار ہیں انگلیوں نچا رہے ہیں ‘ ایسا کیوں ؟ اس لئے کہ جن راستوں سے وہ گزر گئے ہیں مسلمان اب ان پر رواں دواں ہیں۔ ان کی دو سو سال کی مذہبی تاریخ کو اٹھا لو وہ آج تمہاری مذہبی تاریخ پر اس طرح منطبق ہوگی جیسے دو زاویوں کی مثلث برابر کے دو زاویوں کی مثلث پر منطبق ہوتی ہے کیونکہ تیسرا زاویہ اس کا خود بخود ہی ہوگا جو پہلی کا ہے۔ حقیقت تو یہ ہی کہ ان پر حقیقت ہی مشتبہ ہوگئی ۔ کیا دال میں کچھ کالا تھا ؟ 248: تفاسیر میں اگرچہ ایسی روایات کثرت سے مندرج ہیں جن میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کرنے اور آپ کے بچ جانے اور کسی دوسرے انسان کو سولی چڑھائے جانے کی تفصیلات موجود ہیں لیکن محقق علمائے تفاسیر نے بھی صراحت کردی ہے کہ کوئی روایت ان میں یقینی نہیں ہے اور نبی اعظم و آخر ﷺ سے اس کے متعلق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں۔ ” اختلف الرواۃ فی کیفیۃ القتل والصلب ولم یثبت عن رسول اللہ ﷺ فی ذلک شی “ (بحرا محیط) بہر حال اتنامعلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کے رومی گورنر پیلاطس کی عدالت میں آپ کیخلاف مقدمہ دائر کیا اس لئے کہ وہ اپنی مذہبی عدالت میں مسیح (علیہ السلام) کو پھانسی دلوانے کی سزا پاس کرچکی لیکن اس پر عمل درآمد ان کے بس کی بات نہ تھی یہ حکومت وقت کے اختیار میں تھا یہودیوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ جب اسے پس وپیش کرتے دیکھا تو اس کو فتنہ بغاوت فیہ ہیں۔ اس بارے میں نصاریٰ کے مختلف اقوال کی تو حد ہی نہیں ۔ امام رازی (رح) نے تین فرقوں کی آراء نقل کی ہیں 1 ۔ نسطوریہ 2 ۔ ملکانیہ 3 ۔ یعقوبیہ ۔ نسطوریہ کا یہ قول ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کا ناسوت تو مصلوب ہوا لیکن ان کا لاہوت مصلوب نہیں ہوا۔ ملکانیہ کا خیال ہے کہ لاہوت بھی مصلوب ہوا لیکن بالذات نہیں بلکہ بواسطہ ناسوت اور یعقوبیہ کا نظریہ ہے کہ ناسوت ولاہوت دونوں کو سولی دی گئی لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ ان کی آراء کسی دلیل پر منطبق نہیں بلکہ سب کچھ ظن و گمان کی نقش آرائیاں ہیں۔ یہ اس وقت کے قصے ہیں جب عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے معاصرین میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا چونکہ یہود کی مخالفت کے دھندل کے موجود تھے پچھلوں نے اپنے بزرگوں کیحمایت میں کہ جب انہوں نے مخالفت کی تھی تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ مخالفت کر کے مخالفت میں ناکام ہوئے ہوں ‘ انہوں نے طرح طرح کی باتیں گھڑنا شروع کردیں اور ایسے وقت میں صرف مخالف فریق کو باتوں ہی باتوں میں چپ کرادینا مقصود ہوتا ہے اس لئے دونوں فریقوں نے دل کھول کر باتیں بنائیں اور وہی باتیں جس طرح لوگوں میں مشہور تھیں مورخین نے ان کو تاریخوں میں درج کردیا۔ چونکہ ہر قوم میں یہ بیماری موجود ہی ہے اور اب تک چلی آرہی ہے کہ اس طرح کی روایات میں ایک طرح کی دلچسپی موجود ہوتی ہے اور وہ اس ناطے سے پروان چڑھتی رہتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ اس قدر پکی اور پختہ ہوجاتی ہیں کہ ان سے انکار ممکن ہی نہیں رہتا۔ آج بھی لوگوں کے ہاں اپنے اپنے پیروں اور بزرگوں کے نام سے ایسی ایسی باتیں مشہور ہیں کہ ان کو سن کر ہنسی آتی ہے لیکن وہی دین و مذہب کے معیار مقرر ہو کر رو گئی ہیں۔ قرآن کریم نے واشگاف الفاظ میں یہ ارشاد فرمادیا کہ ” اور جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا تو بلاشبہ وہ بھی شک و شبہ میں پڑے ہوئے ظن و گمان کے سوا کوئی علم ان کے پاس نہیں اور یقینا یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا۔ “ وماقتلوہ یقینا جس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ سنت اللہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے نبی و رسول کے مقابلہ میں پوری قوم کو شکست دی اور ناکام کر کے رکھ دیا یہی کچھ یہاں بھی ہوا کیونکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے چناچہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی سرگزشت کو پڑھو مخالفین نے کیا کچھ کیا اور اس کے لئے کیا کیا اسکیمیں بنائیں ابراہیم علیہ اسلام نے پوری قوم کو دو ٹوک لفظوں میں یہ جواب دیا کہ ” تاللہ لا ایکدن اصنا مکم بعد ان تولوا مدبرین “ (الانبیاء 21:57) ” اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا بخدا میں ضرور تمہارے ان بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا جب تم سب پیٹھ پھیر کر چل دو گے۔ “ قرآن کریم کہتا ہے کہ قوم کے لوگوں نے بھی ابراہیم (علیہ السلام) کے اس اعلان کے بعداپنا سارا زور لگایا اور ابراہیم (علیہ السلام) کو ناکام کرنے کی ساری تدبیریں کیں اور ساری سرگزشت نچوڑ اس طرح بیان فرمایا کہ ” وارادوبہ کیدا فجعلنہم الاخسرین “ (الانبیاء 21:70) اور دیکھو انہوں نے چاہا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف ایک چال چلیں لیکن ہم نے انہیں نامراد کردیا۔ “ اس طرح انجام کار پوری قوم کے مقابلہ میں کامیابی کس کو ہوئی ؟ ابراہیم علیہ اسلام کو۔ صالح (علیہ السلام) کی سرگزشت بیان کی کہ قوم نے صالح علیہ اسلام کی تبلیغ کا مذاق اڑایا اور مخالفت میں اس قدر جھوٹے ہوگئے کہ کسی ضابطہ کی پابندی کو وہ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے انجام کار صالح علیہ اسلام نے ان کو چیلنج دے دیا اور وہ بھی اس قدر بڑھ چکے تھے کہ انہوں نے اس چیلنج کی بھی کوئی پروا نہ کی اور جس بات سے ان کو منع کیا گیا تھا انہوں نے وہی کر دکھایا قرآن کریم کہتا ہے کہ پھر ان کا انجام کیا ہوا ؟ یہ ہوا کہ ” جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کا یہ حال ہوا کہ ایک زور کی کڑک نے ان کو آلیا اور جب صبح ہوئی تو وہ سب اپنے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے گویا ان گھروں میں وہ کبھی بسے ہی نہ تھے۔ “ الا ان ثمود کفرو ربھم الا بعد لثمود (ھود 11:86) ” تو سن رکھو کہ ثمود نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی اور ہاں ! سن رکھو کہ ثمود کے لئے محرومی ہوئی۔ “ اور نبی اعظم و آخر ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ ” اے پیغمبر اسلام ! اس طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بد کردار آدمیوں کے سردار بنا دئیے تاکہ وہاں مکرو فریب کے جال پھیلائیں اور فی الحقیقت وہ مکرو فریب نہیں کرتے مگر اپنے ہی ساتھ لیکن اس کا شعور نہیں رکھتے۔ “ (الانعام 6:123) فرمایا جب کسی آبادی میں کوئی داعی حق کھڑا ہوتا ہے تو وہاں کے سردار محسوس کرتے ہیں کہ اگر دعوت حق کامیاب ہوگئی تو ان کے ظالمانہ اختیارت کا خاتمہ ہوجائے گا اس لئے انہیں ایک طرح کی ذاتی دشمنی اور کد ہوجاتی ہے وہ طرح طرح کی مکاریاں کرتے ہیں تاکہ لوگ دعوت حق قبول نہ کریں اور یہی کچھ یہود نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے کیا اور ان کے ساتھ سنت اللہ کے مطابق ہوا جو ہوا۔
Top