Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 36
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَۙ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون يٰهَامٰنُ : اے ہامان ابْنِ لِيْ : بنادے میرے لئے صَرْحًا : ایک (بلند) محل لَّعَلِّيْٓ : شاید کہ میں اَبْلُغُ : پہنچ جاؤں الْاَسْبَابَ : راستے
اور فرعون نے (ازراہ تمسخر) کہا اے ہامان ! (ذرا) میرے لیے ایک بلند عمارت تو بنوا دے شاید میں (اس پر چڑھ کر ان) راہوں تک پہنچ جاؤں
فرعون نے اس مرد مومن کی کسی بات کا جواب نہ دیا لیکن ہامان سے مخاطب ہوا 36۔ فرعون نے اس مرد مومن کی باتیں سنیں اور ان میں سے کسی ایک بات کا جواب بھی نہ دیا اور ہامان سے مخاطب ہو کر کہنے لگا اے ہامان ! تم ایک بہت بلند عمارت ( طول منارہ ) بنائو جس کے اوپر چرھ کر میں موسیٰ کے رب کو تو جھانکوں کہ وہ اوپر کہاں ہے۔ یہ اس نے از راہ مذاق اور استہزاء کہا کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے باربار رب کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو آسمانوں کا رب ہے اور یقینا باتوں ہی باتوں میں اوپر کو اشارہ بھی کیا ہوگیا کیونکہ قدرت الٰہی کا جب ذکر آتا ہے تو انسان فطرتا اوپر کو اشارہ کرتا ہے اور اس سے احمق اور بیوقوف لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ رب ذوالجلال والاکرام اوپر کہیں آسمان پر یا آسمان سے بھی اوپر رہتا ہے حالانکہ اوپر کی طرف جو اشارہ کیا جاتا ہے وہ محض بلندی کے باعث کیا جاتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ایسی ذات نہیں کہ اس کی طرف کوئی انسان دنیا میں رہ کر اشارہ کرسکے کہ اللہ وہاں ہے کیونکہ ہو ہر جگہ اور ہر مقام پر موجود ہے اور کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں اللہ رب ذوالجلال والاکرام موجود نہ ہو۔ خیال رہے کہ فرعون نے اس طرح کی بات کر کے محض لوگوں کی توجہ اس مرد مومن کی طرف سے ہٹانا چاہی ورنہ وہ خود بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتا تھا کہ نہ تو موسیٰ کا رب کہیں اوپر آسمان پر رہتا ہے اور نہ ہی موسیٰ کی وہ مراد ہے جو وہ کہہ رہا ہے اس نے جو کہا جان بوجھ کر عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے استہزاء کیا اور اس آیت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس نے فی الواقع ہامان کو کسی عمارت یا منارہ کے تعمیر کا حکم جاری کیا اور پھر ہامان نے منارہ تیار کرایا جیسا کہ ہمارے مفسرین نے اس بحث کو بیان کیا ہے مذاق اور شرارت دونوں کو ملا جلا کر اس نے محض لوگوں کی توجہ اسی مرد مومن کی ہاتھ کی طرف ہٹانا چاہی تھی اور آۃ ج بھی شاطر اور چالاک لوگ جب کسی مخالف کی بات اثر کر رہی ہو تو دوسرے روز کوئی نہ کوئی مذاق کا بیان داغ دیتے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ اس طرف سے ہٹ جائے اور سیاسی لیڈروں کی قلابازیاں آض بھی اسی طرح کی ہوتی ہیں اگر کوئی شک گزرے تو اپنے پیر جی پیر پگاڑا صاحب کا بیان اخبار میں پڑھ لیا کریں ان کا مذاق ذرا زیادہ کھلا ہوتا ہے ورنہ سارے سیاسی لیڈر ایسی چالیں چلتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح کی نوک جھونک ہوتی رہتی ہے اور لوگ اس نوک جھونک میں الجھے رہتے ہیں اور ان کے بیانات پر تبصرے کرتے رہتے ہیں اور یہی ان کی دراصل مراد ہوتی ہے اس کی تفصیل پیچھے عروۃ الوثقی کی جلد 6 میں سورة القصص کی آیت 38 میں بھی گزر چکی ہے وہاں سے بھی دیکھ لیں مزید وضاحت مل جائے گی۔
Top