Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 35
اِ۟لَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ١ؕ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑا کرتے ہیں فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں میں بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ : بغیر کسی دلیل اَتٰىهُمْ ۭ : آئی ان کے پاس كَبُرَ مَقْتًا : سخت ناپسند عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَعِنْدَ : اور نزدیک الَّذِيْنَ : ان لوگوں کے جو اٰمَنُوْا ۭ : ایمان لائے كَذٰلِكَ : اسی طرح يَطْبَعُ اللّٰهُ : مہر لگادیتا ہے اللہ عَلٰي : پر كُلِّ قَلْبِ : ہر دل مُتَكَبِّرٍ : مغرور جَبَّارٍ : سرکش
جو لوگ اللہ کی آیتوں میں بلا کسی سند کے جو ان کے پاس پہنچی ہو جھگڑتے ہیں (یہ) اللہ اور مومنوں کے نزدیک بڑی ہی بیزاری کی بات ہے اس طرح اللہ ہر مغرور ، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے (اور ان کے تکبر کے باعث قبول حق کی صلاحیتیں مردہ ہوجاتی ہیں)
دین کے معاملہ میں بےدلیل بات کبھی قابل قبول نہیں ہوتی 35۔ اس مرد مومن نے جو باتیں کیں وہ سب کی سب ایک دوسرے سے زیادہ بڑھ کر عقل وفکر کو اپیل کرنے والی ہیں اور اتنی سچی اور صاف ہیں کہ کوئی شخص ان کو من حیث العقل غیر معقول نہیں کہہ سکتا اگرچہ تسلیم کرنا نہ کرنا اس کا ذاتی فعل ہے۔ زیر نظر آیت میں اس کا بیان ہے جو اس نے قوم کے سامنے دیا اور ان کو باور کرایا کہ دین کے معاملہ میں کوئی بات بےسند اور بےدلیل قابل قبول نہیں ہونی چاہیے اور جو لوگ بغیر کسی دلیل اور سند کے مخالفت کرتے ہیں وہ اللہ اور اہل ایمان کے نہایت مبغوض ہیں لیکن افسوس کہ اس وقت ہمارے زمنہ میں لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ دین کے معاملہ میں عقل کا کوئی مطلب نہیں اور نہ ہی دین کی باتوں کو عقل وفکر کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے کیونکہ دین میں عقل کو کوئی دخل نہیں ہے۔ فرمایا یاد رکھو کہ جو لوگ اس طرح کی کٹ حجتیاں کرتے ہیں وہ بڑے بڑے متکبر اور جبار لوگ ہیں اور ان کے دلوں پر جو مہر لگتی ہے وہ اسی تکبر اور برائی کے باعث لگتی ہے۔ یہ لوگ محض اپنے غرور بڑائی کے باعث ہر اس بات کی مخالفت کرتے ہیں جو ان کی خواہش اور مرضی کے خلاف ہو اگر کوئی اللہ کا رسول بھی ان کو کوئی بات سمھائے تو اس کی کہی بات کو بھی وہ گوارا نہیں کرتے اور ان کے اندر اس بات کا قلق بھی ہوتا ہے کہ آخر وہ کیوں نبی ورسول ہوا اگر نبوت و رسالت ملنا ہی تھی تو وہ ہمارا حق تھا۔ نبی اعظم وآخر محمد ﷺ کے مخالفین کو بھی اس سوال نے پکڑلیا کہ کیا نبوت و رسالت کے لیے محمد ﷺ ہی رہ گیا تھا حالانکہ مکہ اور طائف میں بڑے برے لوگ موجود تھے اگر اللہ کو نبی بناناہی تھا تو پھر ان میں سے کسی کو نبی بنا دیتا اس کا تفصیلی ذکر آگے سورة الزخرف کی آیت 31 میں آ رہا ہے وہاں سے ملاحظہ کریں۔ سورة الزخرف عروۃ الوثقی کی آٹھویں جلد میں ہے۔
Top