Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 22
بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ
بَلْ : بلکہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم نے وَجَدْنَآ : پایا ہم نے اٰبَآءَنَا : اپنے آباؤ اجداد کو عَلٰٓي اُمَّةٍ : ایک طریقے پر وَّ اِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ : ان کے آچار پر۔ نقش قدم پر مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ ہیں۔ راہ پانے والے ہیں
بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اس راہ پر پایا ہے اور ہم انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں
22 ؎ ان کے سامنے ایک دو نہیں آپ بیسیوں اور سینکڑوں دلیلیں پیش کریں ، کتاب و سنت کو کھول کھول کر رکھیں ان کو انگلی رکھ کر بتائیں کہ قرآن کریم میں یہ لکھا ہے کہ میں اللہ کا کلام ہوں اور میری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ میری عبارت میں کہیں بھی تضاد نہیں ہے ان کی ان ساری دلیلوں کے سامنے ایک ہی دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جس راہ پر چل رہے ہیں اسی راہ پر ہم نے اپنے بزرگوں کو چلتے پایا ہے اور ہمارے باپ دادا کبھی غلط نہیں ہو سکتے علاوہ ازیں ان کے پاس نہ تو کوئی عقلی دلیل موجود ہے اور نہ ہی نقلی دلیل موجود ہے بس وہی ایک آباؤ اجداد اور بزرگوں کا طریقہ ہے جس کو وہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور اس راہ کو وہ راہ ہدایت سمجھتے ہیں { اُمۃ } کا لفظ اس جگہ طریقہ اور دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور ان کے اس نظریہ کی وضاحت قبل ازیں عروۃ الوثقی جلد سوم میں سورة المائدہ کی آیت 104 ، سورة الاعراف کی آیت 28 ، جلد پنجم سورة الانبیاء کی آیت 53 ، جلدششم سورة الشعراء کی آیت 74 ، سورة لقمن کی آیت 23 , 22 میں کی جا چکی ہے محولہ آیات کی طرف رجوع کریں۔
Top