Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 34
وَ لِبُیُوْتِهِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّكِئُوْنَۙ
وَلِبُيُوْتِهِمْ : اور ان کے گھروں کے لیے اَبْوَابًا : دوازے وَّسُرُرًا : اور تخت عَلَيْهَا : اس پر يَتَّكِئُوْنَ : وہ تکیہ لگاتے ہوں
اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگاتے ہیں
ہاں ہاں ! ان کے گھروں کے دروازے اور کرسیاں بھی سونے کی ہوتیں 34 ؎ گزشتہ مضمون کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ دنیا کے اس مال و متاع اور سیم و زر کو کوئی اتنی بڑی اہم چیز نہ سمجھ لو کہ آخرت کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں کبھی روشنی اور وہ بھی تیز قسم کی روشنی میں آنکھیں کھول کر بیٹھو اور محو کام ہوجاؤ اور پھر اچانک اٹھو اور اندھیرے میں ذرا جا کر دیکھو کہ کیا حال ہوتا ہے اور اسی طرح کہیں گھپ اندھیرے میں کچھ دیر کے لیے بند رہو اور پھر اچانک نکل کر روشنی کی طرف چلو اور کسی بہترین روشنی میں ذرا داخل ہوجاؤ اور دونوں صورتوں کا اب اندازہ لگاؤ کہ کیا صورت ہوتی ہے ؟ وہ حالت کیا ہے جو تیز روشنی سے اندھیرے میں منتقل ہونے سے ہوتی ہے اور اس کی کیا جو اندھیرے سے نکل کر روشنی میں منتقل ہونے کی ہے ؟ بس اس سے سمجھ لو کہ جو شخص تیز قسم کی بہترین روشنی سے اٹھایا گیا اور گھپ اندھیرے میں داخل کیا گیا وہ وہی ہے جو دنیوی زندگی کی ساری عیش و عشرت سے نکال کر دوزخ کی طرف لے جایا گیا اور دوسری صورت وہ ہے جس کو دنیوی اندھیروں سے اٹھا کر اچانک باغات اور روشنیوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں داخل کردیا گیا۔ بلاشبہ ان دنیا داروں کو جتنی مال و دولت کی فراوانیاں زیادہ حاصل ہوں گی اتنی ہی یہ فراوانیاں ان کو سیدھی راہ سے ہٹا کر غلط راستوں میں لے جانے والی ہوں گی جب اچانک یہ فراوانیاں ان سے چھن جائیں گی اور موت کا نقارہ بج جائے گا اور یہ لوگ گھپ اندھیرے میں داخل کردیئے جائیں گے تو یہی مال و دولت اور ہر طرح کی عیش و عشرت ان کے لیے وبال جان بن کر رہ جائے گی جیسا کہ اوپر کی مثال سے تم کو تفہیم کرایا گیا۔ اس وقت نہ ان کے کام یہ چاندی کے محلات ، جن کے دروازے ، کھڑکیاں اور روشندان سب کے سب سونے کے ہوں گے ان کے کچھ کام آئیں گے اور نہ ہی نشست و برخواست کی کرسیاں اور گدے اور بلاشبہ اس وقت ان کی حالت دیدنی ہوگی۔
Top