Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب مریم کے بیٹے کا حال بیان کیا گیا تو آپ ﷺ کی قوم کے لوگ (باتیں بنانے لگے اور) چلا اٹھے
ابن مریم کون ہے ؟ اس کی مثال سے قریش مکہ نے کیوں چڑکھائی ؟ 57 ؎ ابن مریم سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ آپ پیچھے عزوۃ الوثقی جلد پنجم ص 653 سے 679 تک پڑھ چکے ہیں اگر یاد نہ ہو تو وہیں سے ملاحظہ کرلیں۔ زیر نظر سورة مکی سورة ہے اور جن مکی سورتوں میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر آیا ہے وہ صرف پانچ سورتیں ہیں سورة الانعام ، سورة مریم ، سورة المومنون ، سورة الشوری اور سورة الزخرف جس کی اب تفسیر کی جارہی ہے ان سورتوں میں سے صرف سورة مریم ہے جس میں مسیح (علیہ السلام) کے متعلق چند آیات بیان ہوئی ہیں باقی سورتوں میں صرف دوسرے انبیاء کے ناموں کے ساتھ نام آیا ہے اور سورة المومنون میں آپ کو صرف بطور نشانی بیان کیا گیا ہے آپ کو بھی اور آپ کی والدہ ماجدہ کو بھی اس لیے ظاہر ہے کہ ابن مریم کی جس مثال کا ذکر اس جگہ کا گیا ہے وہ سورة مریم ہی کی آیات کریمات ہوسکتی ہیں جن میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعریف کی گئی ہے اور یہی عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں جن کو عیسائی ابن اللہ کہتے یا اللہ اور اللہ کا تیسرا جزء قرار دیتے تھے لیکن اس کے باوجود پیغمبر اسلام نے ان کی تعریف بیان کی لیکن قریش مکہ جو آپ کا اپنا خاندان اور قبیلہ تھا ان کے بتوں کی تنقیص کی تو وہ اس سے بہت جزبز ہوئے کہ عیسائیوں کے معبود کی اتنی تعریف و توصیف اور اپنے خاندان کے معبودوں کی اتنی تنقیص آخر کیوں ؟ اس طرح یہ لوگ چلا اٹھے۔ اس بات کو بہانہ بناکرقریش نے بہت باتیں بنائیں اور آپ ﷺ سے بہت بگڑے اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ محمد ﷺ چاہتا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کرتی ہے۔ (ابن جریز عن مجاہد) اور بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ قریش مکہ میں سے عبداللہ بن الزبعری نے رسول مکرم نبی اعظم وآخر ﷺ کو سورة الانبیاء کی یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا (انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم) تو کہا کہ نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ان کو عبداللہ اور عبد صالح بتاتے ہیں اور اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن کی لوگ عبادت کرتے ہیں وہ جہنم میں جائیں گے تو پھر اگر عیسیٰ بھی آگے میں جائیں گے تو ہم اور ہمارے معبود بھی جہنم میں جائیں گے اگر آپ کا یہی خیال ہے تو ہم اس پر راضی ہیں (روح المعانی) اس کی وضاحت ہم پیچھے عزوۃ الوثقی جلد پنجم میں سورة الانبیاء کی آیت 98 میں کرچکے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں۔
Top