ایمان کا اظہار کرنے کے باوجود ایمان کی پروا نہ کرنے والوں کی پردہ داری
11 ؎ جو لوگ ایمان لانے اور ایمان کا وعدہ کرنے کے باوجود ایمان کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے بلکہ من مانیاں ہی کرتے رہتے ہیں ان کو اسلام کی زبان میں کیا کہتے ہیں ؟ منافق کا نام آپ نے سنا ہوگا ، بس اس کو منافق ہی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور یہ لوگ وہی ہیں جو بظاہر مسلمانوں کے ساتھ معاشرہ کے اندر ہی رہتے ہیں اور ان کو اسلام سے بزور بازو نکال کر باہر نہیں کیا جاتا ہاں ! ان کی گو شمالی کی جات ی ہے اور ان کو باز رہنے کی تلقین بھی برابر کی جاتی ہے اگرچہ ایسی عادات کے لوگ کم ہی حقیت کو قبول کیا کرتے ہیں کیونکہ ہر سنی ان سنی اور ہر دیکھی ان دیکھی کردینا ان کی گھٹی میں ان کو پلایا گیا ہوتا ہے جس سیوہ باز نہیں آسکتے اور جھوٹ ان کی نس نس میں رچ چکا ہوتا ہے اور عادت کا بدلنا محال نہیں تو مشکل بہرحال ضرور ہے۔ زیر نظر آیت میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ جب نبی اعظم و آخر ﷺ نے اپنے خواب کا ذکر فرمایا جو عمرہ کے لیے نکلنے سے پہلے آپ نے دیکھا تھا تو جہاں مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی تھی اور وہ بڑے شوق و ذوق سے عمرہ کرنے کی غرض سے آپ ﷺ کے ساتھ نکلنے کے لیے تیار تھے وہاں کچھ لوگوں نے اعتراضات بھی کیے تھے اور ان ایمان والوں کو روکنے کی کوشش بھی کی تھی اور اظہار خیال بھی کیا تھا کہ یہ لوگ موت کو ماسی کہنے کے لیے جا رہے ہیں اور مکہ والے ان میں سے ایک کو بھی زندہ بچ کر نہیں آنے دیں گے ایسے لگتا ہے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ بستی کا منہ کرتا ہے اور سانپ کو جب مرنا ہوتا ہے تو وہراستہ کی طرف نکل آتا ہے یہیمثال ان لوگوں کی ہے جو ایک خواب کے انحصار پر بیداری میں غلطی کر رہے ہیں اس طرح کی انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں باتیں بنائیں اور بےپر کی اڑائیں لیکن انہوں نے تو جو کہا سو کہا حقیقت کیا نکلی یہی کہ وہلوگ بحمد اللہ بخیرو عافیت واپس آگئے اگرچہ وہ عمرہ کو نہ کر پائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کا اجر وثواب عطا کیا اور وہ فتح مبین کے ساتھ واپس لوٹے۔ جب یہ حالات ان لوگوں نے دیکھے جو اپنی چرب زبانی سے بہت کچھ غلط ملط بکتے رہے تھے اور ان میں اکثریت دیہاتیوں اور سطحی لوگوں کی تھی جب نبی اعظم و آخر ﷺ اور دوسرے مسلمان بخیریت واپس آگئے تو وہ لگے دُم دبانے اور انہی مونہوں سے اس طرح کی معذرتیں پیش کرنے لگے کہ ہم اپنے مالوں میں مشغول ہوگئے اور دراصل ہم نے جو کچھ کیا وہ محض رضائے الٰہی کے لئے کیا تاکہ اموال اکٹھے کریں اور مجاہدین کی خدمت دل کھول کر کرسکیں اگر ہمارے پاس کچھ نہ ہوتا تو دین کے کاموں میں ہم حصہ کیونکر لے سکتے تھے تاہم اپنی کمزوری کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سے کتنی زبردست غلطی ہوئی کہ ہم آپ ﷺ کے ساتھ عمرہ کی غرض سے نکل ہی نہ سکے لیکن اب جو ہونا تھا ہوگیا اور آپ ﷺ اے پیغمبر اسلام ! کفار سے وعدہ لے کر بخیریت واپس آگئے اس بات پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ ہماری التجا ہے کہ آپ ﷺ اے پیغمبر اسلام ! ہمارے لیے اللہ سے بخشش طلب کریں کہ وہ ہمارے اس گناہ کو معاف کر دے۔ اس طرح کی باتیں کر کے اے پیغمبر اسلام وہ لوگ آپ ﷺ کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں اس طرح لہو لگا کر وہ شہیدوں میں داخل ہونے کے عادی مجرم ہیں۔ یہ حرکت ان لوگوں نے پہلی بار نہیں کی بلکہ اس سے قبل ایک سیزیادہ بار یہ لوگ اس طرح کی حرکتیں کرچکے ہیں۔ یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں مطلق نہیں ہوتی۔ لاریب اگر ان کی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ ہوتی یا ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا تو اپنے کردار پر ان کو پشیمانی اور قلق ہوتا اور وہ آپ ﷺ کے جانے کے وقت ایسی ایسی باتیں نہ کرتے یہ دوہری پوزیشن کے لوگ ہیں جو کرتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ ہیں اور یہ بات انکی عادت ثانیہ میں رچ بس گئی ہے یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ محض ان کے مونہوں کی بات ہے ان کے دلوں میں بغض و عداوت بھری پڑی ہے اور سیدھی اور صاف بات کی ان کے دل میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ جو بات کرتے ہیں سب فرضی ہے اور چاپلوسی ان کی سرشت میں داخل ہے۔ آپ ﷺ اے پیغمبراسلام ! ان کو دو ٹوک اور غیر مبہم لفظوں میں کہہ دیں کہ ہمیں تو تم اس طرح کی باتیں کر کے خوش کر رہے ہو کل آنے والے دن میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہاری ذمہ داری کون قبول کرے گا۔ آج تم مال و اولاد کا بہانہ پیش کر رہے ہو حالانکہ یہ محض بہانہ سازی ہے جو حقیقت کے سرا سر خلاف ہے۔ ہم نے تمہاری وہ باتیں بھی سنی تھیں جب ہم عمرہ کی نیت سے مدینہ سے نکلے تھے اور یہ باتیں بھی ہم سن رہے ہیں جو اس وقت تم ہم کو خوش کرنے کے لیے کر رہے ہو۔ ہماری سمجھ میں تو یہ کسی صورت نہیں آتا کہ اگر تمہاری موجودگی میں تمہارے ان مالوں اور تمہاری اس اولاد میں کوئی آفت آجاتی ، کوئی بیماری ہی پھوٹ نکلتی یا کوئی ناگہانی آفت تم کو آ لیتی اور تم کو چورہ چورہ کردیتی تو تم ان مالوں اور اولادوں کا آخر کیا کرلیتے کیا جو لوگ عمرہ کی غرض سے ہمارے ساتھ نکلے تھے ، ان کے مال مر گئے اور اولادیں تباہ ہوگئیں اور تم نے یہ سب کچھ بچالیا اور اب ہم مان لیں اور آپ کی انب اتوں کو حق تسلیم کرلیں حالانکہ حقیقت حال جو چھ ہے وہ اللہ تعالیٰ سیم خفی نہیں اگر تمہارے دلوں کے رازوں کو ہم نہیں جانتے تو کیا اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی چیز پوشیدہ ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں تمہارے کرتوتوں سے اللہ تعالیٰ خوب آگاہ ہے۔ ہم اتنی بات کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا معاملہ اللہ کے سپرد ہے وہ چاہے تم کو تمہارے کیے کی سزا دنیا میں یا آخرت میں دے اور چاہے تم کو نفع پہنچائے گویا اس معاملہ میں تم جانو یا تمہارا اللہ اور یہ بات وہی ہے جو انبیاء کرام اپنی امتوں کے بارے میں کہتے آئے ہیں اور قیامت کے روز بھی کہیں گے جیسے اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں کے اختتام پر فرمایا کہ ” میں نے ان سے کچھ نہیں کہا مگر وہی جس کا تُو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے اور میں ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں موجود تھا پھر جب تُو نے مجھے وفات دے دی تو تُو ہی ان پر نگہبان تھا اور تُو ہرچیز پر گواہ ہے اگر تُو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور گر تو ان کی حفاظت کرے تو تُو ہی غالب آنے والا ، حکمت والا ہے۔ “ (118 , 117 , 5) اور یہ بات ہم تمہارے حق میں کہہ سکتے ہیں کہ تم جانو اور تمہارا اللہ۔ قرآن کلام اللہ ہے لیکن لوگوں کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ منافقین پیھچے رہ گئے تھے لیکن نفرت کے باعث ان کے متعلق کہا گیا کہ وہ پیچھے چھوڑے گئے تھے اور اس طرح کی مثالیں قرآن کریم میں عام ہیں۔