(1) آپ ﷺ کی بعثت کے بعد زندگی کا پہلا دور نبوت و رسالت کے سال اول سے شروع ہو کر تیسرے سال تک کا مرحلہ پس پردہ دعوت کا مرحلہ ہے۔
(2) آپ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ ﷺ کی مکی زندگی کا دوسرا دور چوتھے سال کے شروع اور دسویں سال کے آخر تک قرار پاتا ہے اور یہ دور بھی اہل مکہ میں کھلم کھلا دعوت و تبلیغ کا دور قرار دیا جاسکتا ہے جس میں مخالفت زور پر آگئی۔
(3) آپ ﷺ کی بعثت کے بعد کی مکی زندگی کا تیسرا دور نبوت کے گیارہویں سال سے شروع ہو کر ہجرت مدینہ تک کا دور ہے اور یہ وہ دور ہے جس میں مکہ کے اندر مخالفت اپنی آخری حدود تک پہنچ گئی اور بیرون مکہ دعوت کی مقبولیت اور پھیلائو بڑھنا شروع ہوگیا جس میں روز افزوں ترقی ہوتی چلی گئی اور آپ ﷺ کی اس ترقی نے مکہ والوں کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
دور اول میں جو خفیہ تبلیغ کا دور کہلاتا ہے سب سے زیادہ کام سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے کیا کیونکہ وہ آپ ﷺ کی بعثت کے پہلے ہی روز ایمان لے آئے تھے اور اپنے خاندان بلکہ پورے قریش کے خاندانوں میں وہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور یہ بھی کہ آپ بڑے ہر دلعزیز ، نرم خو ، پسندیدہ خصال کے حامل ، باخلاق اور دریا دل تھے اور ان کے پاس ان کی مروت ، دور اندیشی ، تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمدورفت لگی رہت یتھی اور اس طرح انہوں نے اپنے پاس آنے جانے والوں میں دعوت اسلام کا کام شروع کردیا تھا اور ان کی ان کوششوں کے نتیجہ میں اللہ کے فضل و کرم سے سیدنا عثمان بن عفان ، سیدنا زبیر ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف ، سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا طلحہ بن عبیداللہ ؓ مسلمان ہوگئے تھے جو اسلام کے ہر اول دستہ میں شمار کیے جاتے ہیں اس دور میں ایمان لانے والوں میں بلال حبشی ؓ ، این امت سیدنا ابوعبیدہ ؓ ، ابو سلمہ ؓ بن عبدالاسد ، ارقم بن ابی الارقم ، عثمان بن مظعون اور ان کے دو خوش نصب ساتھی قدام ؓ اور عبداللہ ؓ ، عبیداللہ ؓ بن مسعود اور علاوہ ازیں دوسرے حضرات مسلمان ہوگئے جن کی تعداد چالیس تک بیان کی جاتی ہے اگر ان سب کا تعلق دور اول سے ثابت نہ ہوسکے تو دور ثانی کے اول میں یہ لوگ ضرور آئیں گے جو نبوت کے چوتھے سال سے دسویں سال تک چلا گیا ہے اور ان لوگوں کے ایمان لانے کی وضاحت زیادہ تر دوسرے دور ہی سے متعلق ہے کیونکہ اس دور کے شروع ہی میں ان کے ایمان لانے کی خبر قریش مکہ کو مل چکی تھی اور غریب و مسکین لوگوں کی ابتلا شروع ہوگئی تھی۔
نبی اعظم و آخر ﷺ کی مکی زندگی کا دوسرا دور 4 نبوی سے 10 نبوی تک
دوسرا دور شروع ہوتے ہی یعنی نبوت کے چوتھے سال آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قریش میں کھلم کھلا تبلیغ شروع کردی اور جونہی آپ ﷺ نے تبلیغ شروع کی قریش نے بھی آپ ﷺ کی مخالفت پر کمر باندھ لی آپ ﷺ نے قرابت داروں میں تبلیغ شروع کی یعنی بنو ہاشم میں اور اس کے بعد اس کا دائرہ بنی مطلب تک وسیع کردیا ان کی مخالفت کا باب بہت وسیع ہے اور ان میں سب سے زیادہ مخالفت اس شخص نے کی جس کو آپ ﷺ کی پیدائش کی سب سے زیادہ خوشی ہوئی تھی اور یہ آپ ﷺ کا حقیقی چچا ابو لہب تھا اور جوں جوں آپ ﷺ کی تبلیغ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اس کی مخالفت کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع ترہوتاچلا گیا اور باجود اس کے کہ وہ آپ ﷺ کا چچا تھا جو انجام اس کا ہوا وہ انجام کسی دوسرے مشرک سے بھی مشرک اور مخالف سے بھی مخالف کا نہ ہوا جس میں ایک پکے اور سچے مسلمان کے لیے بہت زیادہ اسباق مخفی ہیں اگر کوئی ان کو حاصل کرنا چاہے ابو طالب بھی آپ کے چچا ہی تھے اور ابو لہب کے بھائی لیکن انہوں نے باوجود اس کے کہ وہ ایمان نہیں لائے تھے اپنی پوری زندگی محمد رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا اور زبیر کے بعد انہوں نے آپ ﷺ کی حمایت کا حق ادا کردیا اور اپنے بھائی ابو لہب کی تلخیوں کا جواب بھی اس کو دیتے رہے آپ ﷺ کے ان وعظوں نے جو آپ ﷺ نے مخصوص اپنے خاندان کو کیے کوہ صفا کا وعظ بھی ہے جو اس دائرہ کی وسعت کا ثبوت پیش کرتا ہے اور اس کا تذکرہ ہر سیرت نگار نے کیا ہے اس وعظ کے بعد آپ ﷺ کو دعوت عام دینے کا حکم دے دیا گیا کہ : (فاصدع بما تو مرو اعرض عن المشرکین) (94:15) ” آپ ﷺ کھول کھول کر بیان کردیجئے اور مشرکین سے رخ پھیر لیجیے “ آپ ﷺ نے یہ حکم پاکر شرک کے اباطیل اور خرافات کا پردہ چاک کردیا اور مشرکین بھی غیظ و غضب سے پھٹ پڑے اور پھر دونوں طرف سے چل سو چل۔ آپ ﷺ نے تبلیغ اسلام میں اور مخالفین نے مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
قریش کے سارے خاندانوں نے مل کر ابو طالب کو مجبور کیا کہ وہ بھتیجے کو اس طرح کی تبلیغ سے بازرکھے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو کم از کم ابو لہب کی طرح وہ بھی اس کی حمایت سے دستبردار ہوجائے اور ان سالوں میں یہ ایک سے زیادہ بار کوشش کی گئی لیکن قریش ہر بار منہ کی کھاتے رہے آپ ﷺ کے چچائوں میں سیدنا امیر حمزہ ؓ نے تو سچے دل کے ساتھ اسلام کو قبول کرلیا اور ابو طالب نے آپ ﷺ کی اور اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور عباس ؓ اگرچہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے تاہم مخالف بھی نہ تھے قریش نے اس دور میں آپ ﷺ کی دعوت کو روکنے کے لیے مختلف مجلسیں بٹھائیں اور ہر مجلس میں آپ ﷺ کو ناکام کرنے کی تجویزیں تشکیل دیں لیکن ان کی کوئی تجویز بھی کارگر ثابت نہ ہوئی اس میں سب سے بڑی اور آخری تجویز آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں پر ظلم و ستم ڈھانے کی تھی جس کا نتیجہ صفر رہا اور جس کا ماحصل یہ ہے کہ مکہ والوں نے مکمل اتحاد کرکے ایمان لانے والوں کو ظلم و ستمکا نشانہ بنانا شروع کیا یہاں تک کہ مکہ والے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتے ڈھاتے تھک گئے لیکن مسلمان ان کے مظالم کو سہتے سہتے نہ تھکے گویا ظالم ظلم کرتے کرتے تھک گیا لیکن کوئی ایک بھی مظلوم ظلم سہتے سہتے نہ تھکا اور یہ بات کہنے کو اگرچہ آسان ہو لیکن کرکے دکھانے میں یہ لوہے کے چنے چبانے سے بھی زیادہ مشکل ہے اور اس وقت کے ان مسلمانوں پر یہ مصرع صادق آتا نظر آتا ہے کہ ع
مشکلیں مجھ پرا تنی پڑیں کہ آسان ہوگئیں
محاذ آرائی کے جو انداز اختیار کیے گئے ان میں ایک محاذ رسول اللہ ﷺ کے لیے مخصوص تھا کہ آپ ﷺ کو مجنون کہا جانے لگا (6:15) جدوگر اور کذاب کہا گیا۔ (4:38) آپ ﷺ کو ہنسی اور ٹھٹھا و مذاق کا نشانہ بنایا گیا ۔ (53:6) (32 , 29:83) دوسرا محاذ یہ تھا کہ آپ ﷺ پر نازل شدہ کتاب قرآن کریم کو من گھڑت ، جھوٹ اور پہلے لوگوں کی قصہ گوئی قرار دیا جانے لگا۔ تیسرا محاذ یہ تھا کہ جہاں سے محمد رسول اللہ ﷺ خود گزریں اور جہاں آپ ﷺ کا لایا ہوا کلام پڑھا جائے وہاں شوربپا کردیا جائے۔ آپ ﷺ کے لیے لوگو ! بچو بچو پاگل آگیا اور قرآن کریم کی آواز کان میں پڑے تو شور وغوغا ، ہی ہی اور ہا ہا اتنازور سے کرو کہ اس شور میں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے۔ محاذ آرائی کی چوتھی صورت یہ تھی کہ افسانہ گو خصوصی مجلسیں قائم کریں اور اپنی اپنی مجلسوں میں پہلوں کے واقعات اور افسانے بیان کریں اور ان سب کی تان محمد رسول اللہ ﷺ پر لاکر ختم کریں جو کچھ محمد ﷺ بیان کرتا ہے اس میں بھی سوائے دل لگی کے کچھ نہیں ہے تم لوگ اس کی باتوں میں خواہ مخواہ نہ آئو اور محاذ آرائی کی آخری صورت یہ کہ محمد ﷺ کو آمادہ کرو کہ ” وہ کچھ دو اور کچھ لو “ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اور اپنے اور ہمارے بین بین کچھ باتیں مشترک کرکے دین کی ایک نئی صورت تشکیل دینے پر آمادہ ہوجائے اور اس طرح برابری کے بیس پر ہم آپس میں صلح کرلیں نہ اس کی بات رہے اور نہ ہماری بلکہ اس کے درمیان ایک نئی راہ نکال لی جائے۔ لیکن آپ ﷺ نے اس کو اس کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ میں جو کچھ پیش کرتا ہوں وہ میرا نہیں بلکہ رب کریم کی طرف سے عطا کردہ ہے اور میں صرف اور صرف اس کا پیغام پہنچانے والا ہوں اور میں اپنی مرضی استعمال نہیں کرسکتا جس کے نتیجہ میں لوگوں نے آپ محمد ﷺ کہنے کی بجائے مذمم کہال شروع کردیا یا آپ ﷺ کے نام ، حکم اور کام سے مکمل طور پر نفرت کرنا شروع کردی اور آپ ﷺ کو قتل کرنے کی تجویزیں پیش ہونے لگیں اور ایک سے زیادہ بار ابوجہل نے اس ذمہ داری کو قبول بھی کیا لیکن باوجود اس کے کہ آپ ﷺ کا ظاہری طور پر کوئی محافظ و نگہبان نہیں تھا وہ اس کی تکمیل نہ کرسکا اور ہر بار ناکام و نامراد ہوا۔ مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان سے تنگ آکر لوگوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت شروع کردی ان مہاجرین کا بھی روسائے مکہ نے تعقاب کیا لیکن ناکام ہوئے اور اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے اور یہ اس دوسرے دور کے شروع میں سلسلہ شروع ہوگیا جو اس دور کے آخر تک بدستور قائم رہا اور ایک سے زیادہ بار ہجرت کی تحریک چلائی گئی جس میں صحابہ ؓ کی کثیر تعداد مکہ سے ہجرت کرکے ادھر ادھر چلی گئی۔
نبی اعظم و آخر ﷺ کا صبر اور قریش مکہ کی حماقتیں
سیدنا حمزہ اور عمر بن خطاب ؓ دونوں کے ایمان لانے کے بعد قریش نے مل کر بنو ہاشم کا بائیکاٹ کیا اور آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے پورے خاندان کو ایک تحریر کے ذریعہ شعب ابی طالب یا بنی ہاشم میں بند کردیا لیکن تین سال کے بعد بائیکاٹ کرنے والوں نے خود اس تحریر کو پھاڑ دیا اور بنو ہاشم کو شعب سے باہر آنے جانے کی اجازت مل گئی۔ اس خاندان کو شعب میں بند کرنے کے بعد اہل مکہ نے ان غریبوں اور دوسرے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا خوب تختہ مشق بنایا جس کی داستان بہت لمبی ہے لیکن آپ ﷺ کے اور آپ ﷺ پر ایمان لانے والوں کے صبر کی جو آزمائش کی گئی اس میں کس طرح پاس ہوئے اس کی ایک جھلک پڑھ لینا یقیناً مفید رہے گا۔
(1) بلال ؓ کا نام کس مسلمان نے نہیں سنا ہوگا ؟ یقیناً آپ کے نام سے بچہ بچہ واقف ہے۔ بلال حبشی کے نام سے معروف ہی اس لیے ہیں کہ آپ حبشہ کے رہنے والے تھے اور امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جب امیہ کو معلوم ہوا کہ بلال مسلمان ہوگیا ہے تو اس بدبخت نے ان کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کیا مثلاً ان کی گردن میں رسی ڈال کر بچوں کے ہاتھ میں دی گئی کہ وہ اس کو مکہ کی گلیوں ، جنگلوں اور پہاڑوں میں پھرائیں اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھیں تا آنکہ وہ پریشان ہو کر اسلام سے باز آجائے لیکن اس کی یہ تدبیر مکمل طور پر ناکام ہوگئی ، بچے ہار گئے اور بلال ؓ جیت گئے پھر اس نے بلال ؓ کو وادی کی گرم ریت پر لٹایا آپ ؓ کے سینہ پر گرم پتھر کھے اور اس کے باوجود اس کو مقصود حاصل نہ ہوا۔ یہ سلسلہ اس نے بدل بدل کر آزمایا لیکن ناکام و نامراد رہا اور انجام کار ابوبکر صدیق ؓ نے ان کو اس سے خرید لیا اور اللہ کی رضا کیلئے آزاد کردیا۔
(2) عمار ؓ ، ان کے والد یاسر ؓ اور ان کی والدہ سمیہ ؓ مسلمان ہوگئے تھے ابوجہل نے انہیں گوناگوں عذاب پہنچائے اور وہ ظلم کر کرکے تھک گیا یہاں تک کہ سمیہ ؓ (خاتون) کو مار مارکر ہلاک کردیا لیکن اس خاندان کے ایک فرد کو بھی وہ واپس کفر میں نہ لے سکا۔
(3) ابو فکھیہ ؓ جن کا نام افلح تھا ، خباب ؓ بن ارت ، زنیرہ ؓ ، فھدیہ ؓ اور ام عبیس ؓ ان سب لوگوں کو مختلف اذیتوں میں ڈالا گیا لکن یہ سب کے سب مظلوم کامیاب ہوئے اور ظالم ناکام و نامرد ہوئے۔ یہ سب لوگ اللہ تعالیٰ پر اس طرح راضی ہوئے کہ انجام کار اللہ ان سے راضی ہوگیا۔
نبی اعظم و آخر ﷺ اور اس دوسرے دور کا آخری سال
مشیت ایزدی کے فیصلے کتنے اٹل اور پختہ ہوتے ہیں کہ جب ان کے وارد ہونے کا وقت آتا ہے تو کسی کی رو رعایت نہیں کی جاتی اور جس کا جو اہم سہارا ہوتا ہے اس کو اس سے الگ کرکے دکھا دیا جاتا ہے کہ سارے سہاروں سے بڑا سہارا وہ ہے جو یہ سہارے جوڑنے اور توڑنے والا ہے اور جو اس کا مستحق ہے کہ اس کو اور پھر صرف اسی کو سہارا بنایا جائے اور کوئی دوسرا اس قابل ہی نہیں کہ وہ کسی کا سہارا بن سکے ، غور و فکر کرو کہ مکہ والے یہ سمجھتے تھے کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺ اور ہمارے درمیان ابو طالب حائل نہ ہوتا تو کبھی کا ہم نے محمد ﷺ کا سر قلم کردیا ہوتا اور اگر خدیجۃ الکبریٰ ؓ جو مکہ کی خاتون اول اور ام المومنین تھیں اگر وہ نہ ہوتیں اور ان کا خاندان درمیان میں حائل نہ ہوتا تو شاید اتنا خیال ہم ابو طالب کا بھی نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں سہاروں کو بھی آپ ﷺ سے دور کردیا اور یکے بعد دیگرے اس طرح ہٹا دیا کہ کچھ بھی دیر نہ لگی کہ لوگوں کی نظروں میں محمد رسول اللہ ﷺ بےیارو مددگار ہو کر رہ گئے اور کوئی بھی مونس و غمخوار ایسا نہ رہا جس کا مکہ کے لوگوں کو کوئی لحاظ ہوتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے گویا ان لوگوں کا منہ کالا کردیا جو ان سہاروں ہی کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی سمجھے بیٹھے تھے ابو طالب شعب ہی میں کمزور ہوچکے تھے اور عمر کے لحاظ سے بھی آپ بہت بوڑھے ہوچکے تھے شعب سے باہر آنے کے بعد پانچ سے سات ماہ کے اندر اندر ان کی وفات ہوگئی اور اس طرح گویا ان کی وفات 10 نبوی میں ہوئی۔ مہینہ میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن زیادہ تر یہی سمجھا گیا ہے کہ رجب کا مہینہ تھا اور جونہی ابو طالب کی وفات ہوئی تو ساتھ ہی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ بھی داغ مفارقت دے گئیں اور دونوں میں بعض روایات کے مطابق صرف تین دن اور بعض کے مطابق دو ماہ کا وقفہ ہوا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے فیصلوں کے متعلق سب کو ایک طرف تو یہ بتا دیا کہ جب میرے فیصلہ کا کوئی وقت آتا ہے تو اس وقت میرا فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے نہ میں خود فیصلہ کو روکتا ہوں اور نہ ہی کسی کو روکنے دیتا ہوں اور دوسری طرف یہ بات تفہیم کرا دی کہ لوگوں کو خواہ مخواہ یہ بھول لگی ہے کہ کوئی شخص آسرے اور وسیلے کے سوا زندہ نہیں رہ سکتا حقیقت یہ ہے کہ بےآسروں اور بےسہاروں کا سہارا اور آسرا وہ رب ذوالجلال والا کرام خود ہے اور جس کی حفاظت وہ کررہا ہو ساری مخلوق اس کے مخالف ہوجائے تو بھی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی۔ غور کرو کہ یہی وہ دو شخصیتیں تھیں جو نبی اعظم و آخر ﷺ کا سہارا سمجھی جاتی تھیں لکین ذرا غور کرو کہ جب مخالفت عین شباب پر پہنچ گئی اور آپ ﷺ کے قتل کی مختلف صورتیں طے پاچکی تھیں تو اللہ رب ذوالجلال والا کرام نے وہ دونوں سہارے بھی ہٹا دیئے اور اس طرح گویا لوگوں کو دعوت دے دی کہ آئو اور میرے نبی و رسول کو ذرا مار کر دکھائو۔ وہ ہر طرف سے اٹھے اور اپنی کامیابی کا نعرہ لگانے لگے کہ بس یہ مارا اور وہ مارا لیکن اس کے باوجود نبی اعظم و آخر ﷺ کے پائے ثبات میں ذرا بھر لغزش نہ آئی لاریب آپ ﷺ کا دل غم واندوہ میں ڈوب گیا آپ ﷺ کی آنکھیں تخلیہ میں پرنم رہنے لگیں آپ ﷺ نے اس سال کو حزن و غم کا سال قرار دیا لیکن اس دل کی بےقراری کو زبان تک نہ لائے اور آپ ﷺ کے ارادوں میں پہلے سے بھی زیادہ پختگی آگئی اور اپنے عزم و جزم پر پہلے سے بھی زیادہ جم گئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک دو روز نہیں بلکہ مسلسل تین سال تک مکہ والوں میں رکھا اور مکہ والوں نے ان تین سالوں میں کئی بار آپ ﷺ کے قتل کے پختہ منصوبے بنائے اور آپ ﷺ کو ہلاک کرنے کی سکیمیں تشکیل دیں لیکن ہر بار ان کو منہ کی کھانی پڑی اور ایک سکیم بھی ان کی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی اس کو کہتے ہیں کہ ” جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے “
نبی اعظم و آخر ﷺ ، عام الحزن میں تبلیغ کا کام اور سیرت نگار
نبی اعظم و آخر ﷺ نے جس سال کو عام الحزن قرار دیا وہ بلاشبہ نبوت کا دسواں سال ہے اور ابو طالب اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی یکے بعد دیگرے وفات ہی آپ ﷺ کے اس غم کا باعث بھی تھی لیکن کیا آپ ﷺ نے اس سال کو صرف غم واندوہ میں گزارا جیسا کہ ہم لوگ کرتے ہیں یا آپ ﷺ نے تبلیغ کا کام پہلے سے بھی زیادہ تیز کردیا۔ ہمیں تعجب ہے کہ سیرت نگاروں نے دونوں طرح کی متضاد باتیں سیرت کی کتابوں میں بھر دیں جن کو دیکھتے ہی انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ ان بزرگوں نے کیا کیا لکھ دیا۔ مثلاً یہ تبلیغ کا پیغام دور دراز علاقوں میں پہنچانے کے لیے آپ ﷺ اسی سال میں نکلے جیسے طائف میں آپ ﷺ کا تشریف لے جانا اور وہاں کے زوسا کے پاس تن تنہا پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا۔ سیدہ سودہ ؓ کو حبالہ عقد میں لانا ، اپنے دوست اور نہایت پر اعتماد محبوب کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لانے کا پیغام بھیجنا۔ حج کی غرض سے جو جو قبائل آرہے تھے ان کی اطلاع پاکر ہر ایک قبیلہ کے قافلہ کے پاس پہنچنا اور ان کو تبلیغ کرنا اور اس طرح قبائل عرب میں سے بنو عامر ، محارب ، خزارہ ، غسان ، مرۃ ، حنیفہ ، سلیم ، علس ، بنو نضر ، کندہ ، کلب ، حارث بن کعب ، عذرہ اور حضارمہ کے مشہور قبائل کے پاس تشریف لے جانا اور ان کو تبلیغ کرنا اور مکہ والوں کی مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے کسی جگہ اپنے ساتھ کسی صحابی کو بھی نہ لے جانا کس بات کی دلیل ہے ؟ خدا لگتی کہو ، لیکن ہمارے سیرت نگاروں نے طائف کے سفر کی آمدورفت کا جس طرح ذکر کیا ہے اور خصوصاً مکہ میں واپسی پر جس طرح داخلہ ہوا اس کو بیان کرتے ہوئے بہت رطب و یا بس نقل کردیا ہے محض تاریخ نگاری کے شوق میں متضاد حالات ، واقعات قلمبند کردیئے ہیں ان کو پڑھ کر آدمی کبھی بھی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ ہم اس جگہ صرف اشارات کر رہے ہیں واقعات کی تصیح بیان نہیں کر رہے اور انہی اشارات سے آپ نے حاصل کرنا ہے جو حاصل کرنا ہے۔ ابو طالب اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی وفات رجب سے رمضان تک دو تین ماہ میں بکے بعد دیگرے ہوئی اور درمیان میں صرف ایک مہینہ شوال کا گزرتا ہے اور یکم ذی قعدہ سے یہ قافلے مکہ آنے شروع ہوجاتے پھر جتنے قبائل کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان سب سے آپ ﷺ ملاقات کرتے ہیں اور سب کو دین کی تبلیغ کرتے ہیں اور پھر اسی سال 10 نبوی میں آپ ﷺ مدینہ سے آنے والے خزرج قبیلہ کے چند لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں ان سے حسب و نسب دریافت کرتے ہیں پھر آپ ﷺ ان کو دعوت اسلام پیش کرتے ہیں ان کو قرآن کریم کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں اور وہ لوگ اسلام کو قبول کرتے ہیں اور اس طرح گویا آپ ﷺ نے ان دو تین مہینوں میں جو جو کام کیے وہ کام خود بول بول کر کہہ رہے ہیں کہ آپ ﷺ باوجود حزن و ملال کے دعوت کے کام میں پہلے سے بھی زیادہ عزم و جزم سے تزیگام ہوجاتے ہیں اور کسی طرح کا کوئی خوف و ہراس آپ ﷺ پر طاری نہیں ہوتا۔ نہ آپ ﷺ کسی سے پناہ طلب کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کے سامنے اپنے فطری غم واندوہ کا اظہار فرماتے ہیں اس طرح کے جو واقعات تحریر میں آچکے ہیں سب کی حیثیت بازاری قصوں سے زیادہ نہیں خیال رہے کہ حق حق ہے اور باطل باطل خواہ اس کے کہنے والا کوئی ہو ، کہاں ہو اور کیسا ہو اور رسول اللہ ﷺ کا مقام کسی دوسرے انسان کو نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی رسول کی زندگی مجموعہ اضداد تھی اور خصوصاً نبی اعظم و آخر ﷺ کی زندگی کا کوئی پہلو بھی ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ فطری چیزیں ہر انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن دل کا غم واندوہ میں ڈوب جانا اور شے ہے اور اظہار غم اور شے ہے اور دونوں میں زمین و آسمان سے بھی زیادہ فرق پایا جاتا ہے خیال رہے کہ مدینہ کے خزرج قبیلہ کے چھ آدمی جو 10 نبوی میں ایمان لائے تھے یہ بیعت عقبہ اولیٰ کے لوگ نہیں بلکہ یہ ” ابتدائے اسلام انصار “ ثابت ہوئے جو بیعت عقبہ اولیٰ کا باعث بنے اور بیعت عقبہ اولیٰ 11 نبوی میں ہوئی ان چھ اشخاص میں سے صرف ایک شخص راقع بن مالک بن عجلان دوسرے سال بیعت عقبہ اولیٰ میں شامل ہوئے اور بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی یہ بارہ نقیب میں سے ایک نقیب تھے اسی لیے ان کو بیعت عقبہ اولیٰ میں بھی شامل کیا گیا اور بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی جو 12 نبوی میں ہوئی تھی 11 اور 12 نبوی کے حالات سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے ان سالوں میں باوجود مخالفتوں کے طوفان امڈ آنے کے بغیر کسی کی پروا کیے نبوت و رسالت کے فرائض انجام دیئے اور اپنے غم واندوہ کے اظہار کو کسی کمزوری کا باعث نہ ہونے دیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جرات کا مظاہرہ کیا جس کی دلیل میں بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ ہی کو پیش کیا جاسکتا ہے اور اس طرح اور واقعات کو بھی اسی طرح 12 نبوی کے بعد مکہ سے مدینہ کی ہجرت کا آغاز ہوگیا اور اسلام لانے والے چوری چھپے مدینہ جانا شروع ہوگئے یہاں تک کہ نبی اعظم و آخر ﷺ ، ابوبکر صدیق ﷺ اور علی ﷺ مردوں میں سے باقی رہ گئے یا عورتیں اور بچے اور پھر ان کے ساتھ وہ کمزور لوگ جو ابھی ایمان کو اپنے اندر ہی چھپا کر بیٹھے ہوئے تھے کہ حالات بدلیں تو ہم ایمان لائیں۔ اس اختصار سے بھی یہ بات بخوبی سمجھی جاسکتی ہے کہ آپ ﷺ کے دل و دماغ میں مخالفین کا ڈر اور خوف دور دور تک موجود نہیں تھا اور نہ ہی آپ ﷺ نے کسی شخص سے کبھی اس کا اظہار فرمایا تھا۔
نبی اعظم و آخر ﷺ کو عام الحزن کے بعد معراج ہوئی
نبی رحمت ﷺ کی دعوت تبلیغ ابھی کامیابی اور ظلم و ستم کے اس درمانی مرحلے سے گزر رہی تھی اور افق کی دور دراز پہنائیوں میں دھندلے تاروں کی جھلک دکھائی دینا شروع ہوچکی تھی کہ اسرا اور معراج کا واقعہ پیش آیا۔ یہ معراج کیا تھی ؟ یہ ایک ایسا خواب تھا جو جاگنے اور سونے کی درمیانی حالت میں دکھایا گیا اور آنے والے حالات کا صحیح صحیح نقشہ اور پروگرام آپ ﷺ کے سامنے رکھ دیا گیا۔ یہ واقعہ کب پیش آیا ؟ ہم نے اوپر اشارہ کردیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے متعلق اہل سیر کے اقوال مختلف ہیں اور ان کا ماحصل اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے :
(1) جس سال آپ ﷺ کو نبوت دی گئی اسی سال معراج بھی واقع ہوئی۔ (طبری ؓ
(2) نبوت کے پانچ سال بعد معراج ہوئی (اما نووی ؓ اور قرطبی ؓ
(3) نبوت کے دسویں سال 27 رجب المرجب کو ہوئی (سید سلیمان منصور پوری ؓ
(4) ہجرت سے صرف سولہ مہینے پہلے یعنی نبوت کے بارہویں سال ماہ رمضان میں ہوئی۔
(5) ہجرت سے ایک سال دو ماہ پہلے یعنی نبوت کے بارہویں سال ماہ رمضان میں ہوئی۔
(6) ہجرت سے ایک سال پہلے یعنی نبوت کے بارہویں سال ماہ ربیع الاول میں ہوئی۔
خود واقعہ معراج سے یہ بات ثابت ہے کہ صلوٰۃ پنج گانہ اس واقعہ معراج میں فرض ہوئی۔ قبل ازیں صلوٰۃ فرض کے طور پر ادا نہیں کی جاتی تھی اور یہ بات بھی محقق ہے کہ صلٰوۃ موقت سیدہ خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد فرض ہوئی لہٰذا یہ بات تو لازم ٹھہری کہ واقعہ معراج کو سیدہ خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد تسلیم کیا جائے اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی وفات 10 نبوی میں ہوئی لہٰذا ضروری ہے کہ اس واقعہ کو دس نبوی کے رمضان کے بعد کا واقعہ تسلیم کیا جائے اس طرح پہلے تین اقوام جو اوپر درج کئے گئے وہ تو اس تنقید کی نذر ہوگئے اور باقی تین اقوام میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ ہاں ! واقعات کا مطالعہ کرنے سے اور ذرا عمیق نظر کے ساتھ دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے بالکل قریب یعنی ایک سال کی مدت کے اندر اندر وقوع پذیر ہوا کیونکہ ہجرت کا پروگرام بھی اس میں شامل کیا گیا تھا اور حالات بھی یہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ہجرت مدینہ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور سوائے چند نفوس کے جن میں خود رسول اللہ ﷺ بھی شامل تھے مکہ میں رہ گئے تھے یا پھر وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں اسلام جم چکا تھا لیکن وہ ابھی تک اظہار نہیں کرسکے تھے ان اقوام کی تفصیل دیکھنا مقصود ہو تو زادالمعادج 2 ص 49 مختصر السیرۃ شیخ عبداللہ ص 148 ، 149 رحمۃ للعالمین جلد اول ص 76 کی طرف مراجعت کریں۔
واقعہ معراج کے متعلق ہم غزوۃ الوثقی جلد پنجم سورة الاسرا اور جلد ہشتم سورة النجم میں وضاحت سے لکھ چکے ہیں وہاں سے بھی آپ دیکھ سکتے ہیں اس جگہ اختصار کے ساتھ ان سب کا ماحصل ایک بار پھر پیش کر رہے ہیں اور اس اختصار میں ہمارا انحصار محض امام ابن قیم (رح) پر ہے لیکن ایک بات کی وضاحت ہم پہلے ہی کردینا چاہتے ہیں کہ کوئی خواب بھی جسم اور روح دونوں کے الحاق کے سوا نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ہی دکھایا جاسکتا ہے لہٰذا خواب کا نام سن کر آپ یہ نتیجہ اخذ نہ کریں کہ شاید ہم جسمانی معراج کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ یہ سمجھ لیں کہ جب ہم نے اس واقعہ کو خواب پر محمول کیا ہے تو ہم اس کے روحانی ہونے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لوگوں نے روحانی اور جسمانی معراج کا خواہ مخواہ ایک موضوع اختراع کرلیا ہے جس کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہے امام ابن قیم (رح) کی تفہیم سے جہاں ہم کو اختلاف ہے اس کے متعلق ہم نے اشارہ کردیا ہے۔
ابن قیم (رح) لکھتے ہیں کہ صحیح قول کے مطابق رسول اللہ ﷺ کو آپ ﷺ کے جسم مبارک سمیت براق پر سوار کرکے حضرت جبریل (علیہ السلام) کی معیت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی پھر آپ ﷺ نے وہاں نزول فرمایا اور انبیا کی امامت فرماتے ہوئے نماز پڑھائی اور براق کو مسجد کے دروازے کے حلقے سے باندھ دیا تھا۔
اس کے بعد اسی رات آپ ﷺ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا تک لے جایا گیا جبریل (علیہ السلام) نے دروازہ کھلوایا آپ ﷺ کے لیے دروازہ کھولا گیا آپ ﷺ نے وہاں انسانوں کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کو دیکھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے آپ ﷺ کو مرحبا کہا ، سلام کو جواب دیا اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا ، اللہ نے آپ ﷺ کو ان کے دائیں جانب سعادت مندوں کی روحیں اور بائیں جانب بدبختوں کی روحیں دکھلائیں۔
پھر آپ ﷺ کو دوسرے آسمان پر لے جایا گیا اور دروازہ کھلوایا گیا آپ ﷺ نے وہاں حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو دیکھا دونوں سے ملاقات کی اور سلام کیا دونوں سلام کا جواب دیا ، مبارکباد دی اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر تیسرے آسمان پر لے جایا گیا ، آپ ﷺ نے وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور سلام کیا انہوں نے جواب دیا ، مبارکباد دی اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر چوتھے آسمان پر لے جایا گیا وہاں آپ ﷺ نے ادریس (علیہ السلام) کو دیکھا اور انہیں سلام کیا ، انہوں نے جواب میں مرحبا کہا اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
پھر پانچویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں آپ ﷺ نے حضرت ہارون بن عمران (علیہ السلام) کو دیکھا اور انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا مبارکباد دی اور اقرار نبوت کیا۔
پھر آپ ﷺ کو چھٹے آسمان پر لے جایا گیا وہاں آپ ﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ بن عمران سے ہوئی آپ ﷺ نے سلام کیا انہوں نے مرحبا کہا اور اقرار نبوت کیا البتہ جب آپ ﷺ وہاں سے آگے بڑھے تو وہ رونے لگے ان سے کہا گیا آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : میں اس لیے رو رہا ہوں کہ ایک نوجوان جو میرے بعد مبعوث کیا گیا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے بہت زیادہ تعداد میں جنت کے اندر داخل ہوں گے۔
اس کے بعد آپ ﷺ کو ساتویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں آپ ﷺ کی ملاقات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہوئی آپ ﷺ نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا مبارکباد دی اور آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا۔
اب کے بعد آپ کو (سدرۃ المنتہٰی) تک لے جایا گیا پھر آپ ﷺ کے لیے بیعت معمور کو ظاہر کیا گیا۔
پھر خدائے جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپ ﷺ اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں اس کے بعد آپ ﷺ واپس ہوئے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپ ﷺ کو کس چیز کا حکم دیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا پچاس نمازوں کا ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔ “ آپ ﷺ نے حضرت جبریل (علیہ السلام) کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں ! اگر آپ ﷺ چاہیں اس کے بعد حضرت جبریل (علیہ السلام) آپ ﷺ کو جبار تبارک تعالیٰ کے حضور لے گئے اور وہ اپنی جگہ تھا… بعض طرق میں صحیح بخاری کا لفظ یہی ہے … اس نے دس نمازیں کم کردیں اور آپ (علیہ السلام) نیچے لاگئے جب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی انہوں نے کہا ” آپ ﷺ اپنے رب کے پاس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے “ اس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ عزوجل کے درمیان آپ ﷺ کی آمدورفت برابر جاری رہی یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں اس کے بعد بھی موسیٰ (علیہ السلام) نے آپ ﷺ کو واپسی اور طلب تخفیف کا مشورہ دیا مگر آپ ﷺ نے فرمایا : اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں “ پھر جب آپ ﷺ مزید کچھ دور تشریف لے گئے تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی ۔ (زاد المعادج 2 ص 48 , 47)
اس کے بعد ابن قیم نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں ؟ پھر امام ابن تیمیہ (رح) کی ایک تحقیق ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس ؓ سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دو قول منقول ہیں ان میں پہلا دوسرے کے منافی نہیں۔ اس کے بعد امام ابن قیم (رح) لکھتے ہیں کہ سورة نجم میں اللہ تعالیٰ کا جو یہ ارشاد ہے :
(ثم دنا فتدلیٰ ) (8:52) ” پھر وہ نزدیک آیا اور قریب تر ہوگیا۔ “
تو یہ اس قربت کے علاوہ ہے جو معراج کے واقعے میں حاصل ہوئی تھی کیونکہ سورة نجم میں جس قربت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) کی قربت و تدلی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ اور ابن مسعود ؓ نے فرمایا ہے ؟ اور سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے اس کے برخلاف حدیث معراج میں جس قربت و تدلی کا ذکر ہے اس کے بارے میں صراحت ہے کہ یہ رب تبارک و تعالیٰ سے قربت و تدلی تھی اور سورة نجم میں اس کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں دوسری بار (سدرۃ المنتہیٰ ) کے پاس دیکھا اور یہ حضرت جبریل (علیہ السلام) تھے انہیں محمد ﷺ نے ان کی اپنی شکل میں دو مرتبہ دیکھا تھا ایک مرتبہ زمین پر ایک مرتبہ (سدرۃ المنتہیٰ ) کے پاس۔ یہ ہمارے بزرگوں کی تفہیم ہے لیکن ہم اس کو صحیح نہیں سمجھتے ہم نے اپنی تفہیم سورة النجم میں بیان کردی ہے۔
اس دفعہ بھی نبی ﷺ کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کئے جانے) کا واقعہ پیش آیا اور آپ ﷺ کو اس سفر کے دوران کئی چیزیں دکھلائی گئیں۔
آپ ﷺ پر دودھ اور شراب پیش کئے گئے آپ ﷺ نے دودھ اختیار فرمایا اس پر آپ ﷺ سے کہا گیا کہ آپ ﷺ کو فطرت کی راہ بتائی گئی یا آپ ﷺ نے فطرت پالی اور یاد رکھیے کہ اگر آپ ﷺ نے شراب لی ہوتی تو آپ ﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
آپ ﷺ نے جنت میں چار نہریں دیکھیں ، دو ظاہری اور دو باطنی ، ظاہری نہیں نیل و فرات تھیں (اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت نیل و فرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی یعنی یہاں کے باشندے نسلاً بعد نسل مسلمان ہوں گے یہ نہیں کہ ان دونوں نہروں کے پانی کا منبع جنت میں ہے۔ واللہ اعلم)
آپ ﷺ نے مالک ، داروغہ جہنم کو بھی دیکھا ، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی ، آپ ﷺ نے جنت و جہنم بھی دیکھی۔
آپ ﷺ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلما کھا جاتے تھے ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹ کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ٹھوسن رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے سے نکل رہے تھے۔
آپ ﷺ نے سود خوروں کو بھی دیکھا ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آل فرعون کو آگ پر پیش کرنے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے۔
آپ ﷺ نے زنا کاروں کو بھی دیکھا ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھچھڑا بھی تھا یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھچھڑا کھا رہے تھے۔
آپ ﷺ نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہروں پر دوسروں کی اولاد داخل کردیتی ہیں یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے آپ ﷺ نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑے بڑے ٹیڑھے کانٹے چبھا کر انہیں آسمان و زمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپ ﷺ نے آتے جاتے ہوئے اہل مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا آپ ﷺ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا اس وقت قافلہ سو رہا تھا پھر آپ ﷺ نے اس یطرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپ ﷺ کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی یہ بھی برابر خواب کا حصہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ابوبکر ؓ کو اسی موقع پر صدیق کا خطاب دیا گیا کیونکہ آپ نے اس واقعے کی اس وقت تصدیق کی جبکہ اور لوگوں نے تکذیب کی تھی۔
معراج کا فائدہ بیان فرماتے ہوئے جو سب سے مختصر اور عظیم بات کہی گئی وہ یہ ہے :
(لنریہ من ایتنا ) (1:17) ” تاکہ ہم (اللہ تعالیٰ ) آپ ﷺ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔ “
اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے ارشاد ہے :
(وکذلک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض ولیکون من الموقنین) (75:6)
” اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمان و زمین کا نظام سلطنت دکھلایا اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو۔ “
اور موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا :
(لنریک من ایتنا الکبریٰ ) (23:20) ” تاکہ ہم تمہیں اپنی کچھ بڑی نشانیاں دکھلائیں۔ “
پھر ان نشانیوں کے دکھلانے کا جو مقصود تھا اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (ولیکون من الموقنین) (تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو) کے ذریعے واضح فرما دیا۔ چناچہ جب انبیاء کرام کے علوم کو اس طرح کے مشاہدات کی سند حاصل ہوجاتی تھی تو انہیں عین الیقین کا وہ مقام حاصل ہوجاتا تھا جس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ ” شنیدہ کے بوہ مانند دیدہ “ اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ کی راہ میں ایسی ایسی مشکلات جھیل لیتے تھے جنہیں کوئی اور جھیل ہی نہیں سکتا درحقیقت ان کی نگاہوں میں دنیا کی ساری قوتیں مل کر بھی مچھر کے پر کے برابر حیثیت نہیں رکھتی تھیں اسی لیے وہ ان قوتوں کی طرف سے ہونے والی سختیوں اور ایذار سانیوں کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔
اس واقعہ معراج کی جزئیات کے پس پردہ مزید جو حکمتیں اور اسرار کار فرما تھے ان کی بحث کا اصل مقام اسرار شریعت کی کتابیں ہیں البتہ چند موٹے موٹے حقائق ایسے ہیں جو اس مبارک سفر کے سرچشموں سے پھوٹ کر سریت نبوی کے گلشن کی طرف رواں دواں ہیں اس لیے یہاں مختصراً انہیں قلمبند کیا جارہا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سورة اسراء میں اسراء کا واقعہ صرف ایک آیت میں ذکر کرکے کلام کا رخ یہود کی سیاہ کاروں اور جرائم کے باین کی جانب موڑ دیا ہے پھر انہیں آگاہ کیا ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھی اور صحیح راہ ہے قرآن پڑھنے والے کو بسا اوقات شبہ ہوتا ہے کہ دونوں باتیں بےبنوڑ ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس اسلوب کے ذریعے یہ اشارہ فرما رہا ہے کہ اب یہود کو نوع انسانی کی قیادت سے معزول کیا جانے والا ہے کیونکہ انہوں نے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن سے ملوث ہونے کے بعد انہیں اس منصب پر باقی نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا اب یہ منصب رسول اللہ ﷺ کو سونپا جائے گا ردعوت ابراہیمی کے دونوں مراکز ان کے ماتحت کردیئے جائیں گے بالفاظ دیگر اب وقت آگیا ہے کہ روحانی قیادت ایک امت سے دوسری امت کو منتقل کردیا جائے یعنی ایک ایسی امت سے جس کی تاریخ غدر وخیانت اور ظلم و بدکاری سے بھری ہوئی ہے یہ قیادت چھین کر ایک ایسی امت کے حوالے کردی جائے جس سے نیکیوں اور بھلائیوں کے چشمے پھوٹیں اور جس کا پیغمبر سب سے زیادہ درست راہ بتانے والے قرآن کی وحی سے بہرہ ور ہے۔
لیکن یہ قیادت منتقل کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس امت کا رسول مکہ پہاڑوں میں لوگوں کے درمیان ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے ؟ اس وقت یہ ایک سوال تھا جو ایک دوسری حقیقت سے پردہ اٹھا رہا تھا اور وہ حقیقت یہ تھی کہ اسلامی دعوت کا ایک دور اپنے خاتمے اور اپنی تکمیل کے قریب آلگا ہے اور اب ایک دوسر ادور شروع ہونے والا ہے جس کا دھارا پہلے سے مختلف ہوگا اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آیات میں مشرکین کو کھلی وارننگ (Warning) اور سخت دھمکی دی گئی ہے۔ ارشاد ہے :
(وازا اردنا ان نھلک قریۃ امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا فحق علیھا القول فدمرنھا تد میرا) (16:17)
” اور جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے اصحاب ثروت کو حکم دیتے ہیں مگر وہ کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں پس اس بستی پر (تباہی کا) قول برحق ہوجاتا ہے اور ہم اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ “
(وکم اھلکنا من القرون من بعد نوح وکفیٰ بربک بذنوب عبادہ خبیرا بصیرا) (17:17)
” اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قوموں کو تباہ کردیا اور تمہارا رب اپنے بندوں کے جرائم کی خبر رکھنے اور دیکھنے کے لیے کافی ہے “۔
پھر ان آیات کے پہلو بہ پہلو کچھ ایسی آیات بھی ہیں جن میں مسلمانوں کو ایسے تمدنی قواعد و ضوابط اور دفعات و مبادی بتلائے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی معاشرے کی تعمیر ہونی تھی گویا اب وہ کسی ایسی سرزمین پر اپنا ٹھکانا بنا چکے ہیں جہاں ہر پہلو سے ان کے معاملات ان کے اپنے ہاتھ میں ہیں اور انہوں نے ایک ایسی وحدت متماس کہ بنالی ہے جس پر سماج کی چکی گھوما کرتی ہے لہٰذا ان آیات میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ عنقریب ایسی جائے پناہ اور امن گاہ پالیں گے جہاں آپ ﷺ کے دین کو استقرار نصیب ہوگا۔
یہ اسراء و معراج کے بابرکت واقعہ کی تہ میں پوشیدہ حکمتوں اور رازہائے سربستہ میں سے ایک ایسا راز اور ایک ایسی حکمت ہے جس کا ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق ہے اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ اسے بیان کردیں اسی طرح کی دو بڑی حکمتوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اسراء کا یہ واقعہ یا تو بیعت عقبہ اولیٰ سے کچھ ہی پہلے کا ہے یا عقبہ کی دونوں بیعتوں کے درمیان کا ہے اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
نبی اعظم و آخر ﷺ کی تعلیمات کا اثر مدینہ پر
مدینہ کا اصل نام یثرب تھا اور وہاں کے رہنے والوں میں سے دو قبیلے زیادہ معروف تھے جن کے نام اوس اور خزرج تھے یہ قبیلے اس شہر میں ایک مدت سے رہ رہتے تھے اور دونوں کا پیشہ کاشتکاری تھا ان کے آس پاس یہودی آباد تھے جو سوداگر اور مہاجن تھے لوگوں کو سود اور پیداوار پر قرض دیتے تھے اور بڑی سختی سے وصول کرتے تھے اور یہ دونوں قبیلے آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے اور اس طرح گویا ان لوگوں پر سرمایہ دار یہود کا طبقہ حکومت کرتا تھا مختصر یہ کہ یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑ لڑ کر اور پھر یہودیوں کے پھندے میں پھنس کر تباہ و برباد ہوگئے تھے اور ہو رہے تھے یہود کی آسمانی کتابوں میں ایک پیغمبر کے آنے کی خبر تھی اور یہود کی اکثر محفلوں میں اس کے پیدا ہونے کی گفتگو رہا کرتی تھی یہ آوازیں اوس اور خزرج کے کانوں میں پڑا کرتی تھیں نبوت کے دسویں سال رجب کے مہینے میں ان دونوں قبیلوں کے کچھ لوگ مکہ آئے آپ ﷺ عقبہ کے مقام پر ان سے ملے اور ان کو اللہ رب کریم کا کلام سنایا ان لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر کہا یہ تو وہی پیغمبر معلوم ہوتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہود ہم پر بازی لے جائیں یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا اور یہ کل چھ آدمی تھے۔
دوسرے سال یثرب سے بارہ آدمی آکر مسلمان ہوئے اور انہوں نے خواہش کی کہ ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجا جائے جو ہم کو اسلام کی باتیں سکھائے اور ہمارے شہر میں جاکر وعظ و نصیحت کا کام سرانجام دے آپ ﷺ نے اس کام کے لیے مصعب بن عمیر ؓ کو چنا یہ عبد مناف کے پوتے اور پرانے مسلمانوں میں سے تھے یہ ان لوگوں کے ساتھ یژب آئے اور یہاں آکر لوگوں کے گھروں میں پھر پھر کر اسلام کا وعظ کرنا شروع کیا اس وعظ کے اثر سے لوگ مسلمان ہونے لگے اور ایک سال کے اندر اندر اس شہر کے اکثر گھرانے مسلمان ہوگئے۔
نبی اعظم و آخر ﷺ اور بیعت عقبہ ثانیہ
نبوت کے تیرھویں سال موسم حج جون 622 ء میں پانچ صد آدمی مدینہ سے حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے اور مصعب بھی ان میں شامل تھا یہ سب مسلمان نہیں تھے بلکہ ان میں صرف 72 یا 74 آدمی مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے اور ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں چاند کی بارہویں شب کو منیٰ میں مدینہ سے آنے والوں کے ساتھ نبی اعظم و آخر ﷺ کی ملاقات ہوئی کیونکہ اس روز منیٰ میں ملاقات کا پروگرام طے ہوا تھا مدینہ کے لوگ ایسی راز داری کے ساتھ ملاقات کی جگہ پہنچے کہ ان کے ساتھ آنے والے غیر مسلمانوں اور ان کے کیمپ میں مقیم لوگوں کو اس کی ہوا تک نہ لگی وہ یکے بعد دیگرے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے اور اسلام لانے کا اقرار کیا اور یہ کہتے ہوئے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی کہ ہم اس طرح آپ ﷺ کا تحفظ کریں گے جس طرح ہم اپنے اہل خانہ کا تحفظ کرتے ہیں خواہ اس کے لیے ہمیں اسود و احمر یعنی ساری دنیا سے جنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے ہم ہر صورت میں آپ ﷺ کا ساتھ دیں گے خواہ آپ ﷺ کے مدمقابل ہمارے رشتہ دار ہوں یا کوئی دوسرا اجنبی۔ پھر انہوں نے آپ ﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت دی انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کے میزبان ہوں گے اور ہر طرح سے ان کی حفاظت کریں گے اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے نہایت دانش مند چچا عباس ؓ بھی تھے اگرچہ وہ اس وقت تک خود بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے مدنی مسلمانوں کو پیش کش کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یقیناً تمہیں ساری دنیا سے جنگ کا سامنا ہوگا اگر تم نے مدینہ جانے کے بع محمد ﷺ کو بےیارو مددگار چھوڑنا ہے تو بہتر ہے کہ انہیں مدعو نہ کرو کیونکہ وہ یہاں اپنے خاندان کی پناہ میں ہیں اس پر مدنی مسلمانوں نے اپنے خلوص کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ رسول خدا کو دعوت دے کر جن خطرات سے دو چار ہوسکتے ہیں ان کا انہیں پوری طرح احساس ہے رسول خدا مدنی مسلمانوں کے اظہار وفاداری سے مطمئن ہوگئے اور فرمایا : ” آج کے بعد تمہارا خون میرا خون ہے تمہارا خون بہنے کا مطلب میرا خون بہنا ہے میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو۔ “
کفار مکہ کو بھی منیٰ کے واقعات کی سن گن ملی مگر وہ اس کی تصدیق نہ کرسکے تاہم انہوں نے محسوس کیا کہ خطرہ بڑھ رہا ہے شمال میں ان کی تجارت کے راستے مدینے سے ہو کر گزرتے تھے جو منقطع ہوسکتے تھے مدنی قبائل کی مدد سے مستقبل میں مکہ پر فوج کشی بھی کی جاسکتی تھی چناچہ کفار مکہ کے چند نمائندے مدنی حجاج کے کیمپ میں آئے اور پوچھ گچھ کرنے لگے اتفاق کی بات ہے کہ انہوں نے مدینہ کے غیر مسلموں سے رابطہ قائم کیا جنہوں نے حلفاً بتایا کہ انہیں کسی ایسے واقعہ کا علم نہیں اور یہ کہ ان کے علم کے بغیر کوئی اجتماع منعقد نہیں ہوسکتا تھا وہ سچے بھی تھے اس پر مکی کفار کے نمائندے مطمئن ہوگئے تاہم بعد میں انہیں مدنی مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان عہدو پیمان کا علم ہوگیا مگر اس وقت تک مدینہ کے مسلمان منیٰ سے جاچکے تھے تاہم ایک مدنی مسلمان ان کے ہتھے چڑھ گیا جسے انہوں نے خوب دق کیا لیکن بعد میں یہ محسوس کرکے اسے چھوڑ دیا کہ اس کی موت کی صورت میں اس کا سارا قبیلہ کفار مکہ کے خلاف سرگرم ہوجائے گا۔
نبی اعظم و آخر ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی عام اجازت دیدی
مکہ کے مسلمان چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں خاموشی سے مدینہ روانہ ہونے لگے جہاں انہیں خوش آمدید کہا جاتا تھا مختصر یہ کہ دو ماہ کے عرصہ میں رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور ان کے اہل خانہ کے سوا کوئی مسلمان مکہ میں نہ رہا البتہ وہ مسلمان مکہ میں موجود تھے جنہیں زبردستی روک لیا گیا یا ان کے خاندان والوں نے انہیں قید کررکھا تھا ان میں کچھ تو نو عمر بچے تھے اور باقی غلام وغیرہ تھے ایک بہت اچھا مسلمان بھی مکہ میں تھا وہ زرگر تھا اور اس نے خاموشی سے اسلام قبول کرلیا تھا وہ اپنی مرضی سے اس شہر میں مقیم رہا اغلباً وہ رسول اللہ ﷺ کے ایجنٹ کی حیثیت سے مکہ میں مقیم تھا تاکہ رسول اللہ ﷺ کو مکہ کے حالات و واقعات سے باخبر رکھ سکے البلاذری کے مطابق وہ مسلمانوں کے لیے خفیہ طور پر کام کرتا تھا مدینہ سے جو خفیہ ایجنٹ مکہ بھیجے جاتے تھے وہ انہیں پناہ دیتا تھا رسول اللہ ﷺ کے چچا عباس ؓ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں تاہم ان کا معاملہ ذرا مختلف ہے وہ مقدس چشمہ زم زم کے محافظ و نگران اور مکہ شہر کی حکمران کونسل کے معزز رکن تھے۔
کفار مکہ نے ہجرت کرکے مدینہ چلے جانے والے مسلمانوں کی املاک ضبط کرلیں انہوں نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی جو تاریخ میں یوم الزحمہ کے نام سے مشہور ہے اس مجلس مشاورت میں ایک قرار داد منظور کی گئی : ” محمد کو قتل کردیاجائے مگر اس قتل میں کوئی ایک یا دو افراد نہیں بلکہ مکہ کے تمام قبائل سے منتخب نوجوان شامل ہوں گے چونکہ قتل کی ذمہ داری لاتعداد قبائل پر عائد ہوگی اس لیے محمد ﷺ کا قبیلہ قاتلوں کے خلاف اعلان جنگ سے باز رہے گا اور خون بہا پر اکتفا کے لیے مجبور ہوجائے گا چناچہ خون بہا مشترکہ فنڈ سے ادا کردیاجائے گا “ کفار کا یہ منصوبہ اتنا خام تھا کہ اسے خفیہ رکھنا ممکن ہی نہ تھا اسک روز رسول اللہ ﷺ کی ایک خالہ بھاگی بھاگی آئیں اور رسول اللہ ﷺ کو سب کچھ بتا دیا… غالباً اس نے یہ سب اپنے شوہر کے خاندان والوں سے سنا تھا… کہ رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت قتل کرنے کی سازش تیار کرلی گئی ہے۔
یہ دوپہر کا وقت تھا رسول اللہ ﷺ اسی وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس گئے اور انہیں بھی اس سازش سے آگاہ کیا دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کریں گے یہ ربیع الاول کے ابتدائی دن تھے اور راتیں چاند کی روشنی سے منور نہیں ہوتی تھیں فیصلہ کے مطابق دونوں کو رات کے اندھیرے میں مکہ سے نکل کر ایک نواحی پہاڑی کے غار (غار ثور) تک جانا تھا وہاں رات بسر کرنے کے بعد اس وقت مدینہ کو روانہ ہونا تھا جب مکہ میں ان کی تلاش کی مہم سرد پڑجائے ابوبکر ؓ نے سواری اور راہنما کا انتظام اپنے ذمہ لے لیا رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا زاد بھائی اور لے پالک بیٹے علی ؓ کو حکم دیا کہ وہ رات کے وقت ان کے بستر پر سوجائیں رسول اللہ ﷺ نے وہ تمام امانتیں بھی حضرت علی ؓ کو سونپ دیں جو مکہ کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع کرا رکھی تھیں تاکہ یہ اصل مالکوں تک پہنچائی جاسکیں حضرت علی ؓ نے یہ فرض ادا کرنے کے بعد مدینہ پہنچنا تھا ان انتظاما ات کے بعد رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر ؓ کے گھر آگئے کافی رات گئے وہ مکان کے عقبی حصہ میں ایک کھڑکی کے ذریعہ باہر نکلے اور کوہ ثور پر چڑھنے لگے راستے میں ابوبکر ؓ کو ایک دوست نے پہچان لیا مگر وہ کوئی شبہ پیدا کیے بغیر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوگئے روایات کے مطابق جب وہ دونوں غار ثور کے دہانے پر پہنچے تو صدیق اکبر ؓ پہلے غار میں داخل ہوئے تاکہ غار کو صاف کرسکیں۔
مکہ سے نکلتے وقت یہ انتظم کیا گیا تھا کہ حضرت ابوبکر ؓ کی ایک صاحبزادی غار میں روزانہ کھانا پہنچائیں گی اور ان کا ایک بیٹا روزانہ رات کو انہیں مکہ کی صورت حال سے آگاہ کریں گا رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کی روپوشی سے ان کے اہل خانہ کو کچھ پریشانی تو ضرور ہوئی مگر کوئی سنگین واقعہ رونما نہیں ہوا کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی جگہ ان کے اہل بیت کو سزا دینے سے گریز کیا دلچسپ بات یہ ہے کہ جو نوجوان پیغمبر ﷺ کے قتل پر مامور کیے گئے تھے وہ تمام رات ان کے گھر کے باہر کھڑے رہے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے حالانکہ ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی ان کا خیال تھا کہ علی الصبح جب رسول اللہ ﷺ نماز فجر کی ادائیگی کے لیے کعبتہ اللہ جائیں گے تو وہ ان پر حملہ کرکے انہیں تہ تیغ کردیں گے غالباً عرب کے رواج یا توہم پرستی کی وجہ سے انہیں آپ ﷺ کے گھر میں داخل ہونے کی جرات نہیں ہوئی۔
قریش مہ کو جب یقین ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی گرفتاری کے لیے انعام مقرر کردیا مگر اس کے بعد نگرانی نرم ہوگئی جب رسول اللہ ﷺ نے غار کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو دو اونٹ اور ایک رہنما جس کا انتظام حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا تھا آگئے اور یوں یہ ننھا سا قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا قافلہ کا رہنما جان بوجھ کر معروف راستوں سے ہٹ کر چلتا رہا جن پر کفار مکہ کے حلیفوں سے مڈبھیڑ کا امکان تھا تاہم سراقہ بن مالک مدلجی نے انہیں دیکھ لیا اور انہیں پہچان لیا دراصل وہ اس انعام کے لالچ میں آگیا جس کا اعلان کفار مکہ نے کررکھا تھا وہ ایک توہم پرست شخص تھا اور رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفیق کو نقصان پہنچانے کی سوچنے سے قبل تیر سے فال نکالی تو فال نفی میں تھی چناچہ انعام و اکرام کے لالچ کے باوجود وہ اس قافلے کی راہ روکنے سے گریزاں رہا پھر جب وہ گھوڑے کے ریت میں ٹھوکر کھانے کے سبب گر گیا تو اس نے نہ صرف رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفیق کی راہ روکنے کا خیال کلی طور پر ترک کردیا بلکہ ان سے معافی مانگی اور انہیں اپنا مہمان بنانا چاہا مگر اس سکی پیش کش شکریہ کے ساتھ مسترد کردی گئی رسول اللہ ﷺ اور صدیق اکبر ؓ کو آٹھ دن تک طویل سفر کرنا پڑا کسی روز انہیں اپنے زاد سفر سے بہتر کھانے پینے کو مل جاتا راستے میں ایک معمر خاتون ام معبد کے خیمے میں انہوں نے ایک بکری دیکھی جو چلنے سے بھی معذور تھی اور چراگاہ تک بھی نہیں جاسکتی تھی اس روز معجزانہ طور پر اس بکری نے اتنا دودھ دیا جو رسول اللہ ﷺ کے قافلہ کے علاوہ معمر خاتون کے خاندان کے لیی بھی کافی تھا اثنائے راہ میں ایک اور واقعہ رونما ہوا : ینبوع کے قریب نو اسلم کے لوگوں نے قافلہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی اس وقت رسول اللہ ﷺ بنو اسلم کے علاقہ سے گزر رہے تھے مگر قبیلہ کا سردار قرآن حکیم کی دلکش آیات سنتے ہی مسلمان ہوگیا جس کے بعد اس نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفقا کو آج کی زبان میں ” گارڈ آف آنر “ پیش کیا قبیلہ کے محافظ اس قافلہ کو اپنی حدود کے آخر تک چھوڑ آئے۔
رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کی اطلاع مدینہ پہنچ چکی تھی شہر کے لوگ بےچینی سے ہادی برحق کے منتظر تھے وہ روزانہ مدینہ کے جنوب میں قبا کے قریب ایک بلند پہاڑی پر جسے ثنیات الوداع کہا جاتا ہے جمع ہوتے اور تمام دن انتظار کرتے ایک روز 8 ربیع الاول 14 نبوی ا ھ مطابق 23 ستمبر 622 ء جب لوگ مایوس ہو کر پہاڑی سے واپس جاچکے تھے تو شہر میں ایک بلند مینار سے کسی نے دور سے ایک مختصر قافلہ شہر کی سمت بڑھتے دیکھا چناچہ لوگ دوبارہ رسول اللہ ﷺ کے استقبال کے لیے جمع ہوئے انہوں نے اپنا بہترین لباس زیب تن کررکھا تھا اور وہ پوری طرح مسلح تھے لڑکوں اور لڑکیوں نے دفیں سنبھالیں وہ بھی ایسی مسرت اور خلوص سے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہم آہنگ ہو کر ایک استقبالیہ نظم گا رہے تھے ؎
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا ما دعا للہ داع
ایھا المبعوث فینا جئت بالامر المطاع
(چودہویں کا چاند ہمارے سامنے نکلا ثنیات الوداع سے جب تک اللہ سے دعائیں کی جاتیں رہیں اس وقت تک اس کا شکر ادا کرنا ہم پر فرض ہے اے ! کہ اللہ نے تمہیں ہمارے لیے بھیجا تو ایسے احکام بالا لایا جن کی اطاعت فرض ہے)
قبا کے قریب پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے کھجوروں کے ایک جھنڈ میں کچھ دیر آرام کیا یہاں ایک کے بعد لوگوں کا دوسرا گروہ آتا ترہا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سلام نیاز پیش کرکے ان کا خیر مقدم کرتا رہا فوراً ہی رسول اللہ ﷺ نے دوسرے لوگوں سے مل کر یہاں ایک جھونپڑی تعمیر کی جو مسجد کا کام دیتی تھی رسول اللہ ﷺ پانچوں وقت نماز کی امامت فرماتے اپنا باقی وقت وہ تبلیغ اسلام میں صرف کرتے لوگوں کو نیکی اور احسان کی تلقین فرماتے اور عام لوگوں کے جن میں مدینہ کے انصار اور مکہ کے مہاجر شامل تھے مسائل حل کرنے کی سعف فرماتے مکی مہاجرین کے پاس روز گار کا کوئی ذریعہ نہ تھا چند روز بعد رسول اللہ ﷺ قبا کے نزدیک اپنے عاضری مستقر سے نکلے تاکہ اپنے مستقل قیام کا انتظام کرسکیں وہ ناقہ پر سوار تھے ہر قدم پر ایک وفد آتا اور رسول اللہ ﷺ سے اپنے ہاں قیام کی استدعا کرتا وہ ایک ہی جواب دیتے : ” میری ناقہ میرے قیام کے لیے جگہ کا انتخاب کرے گی ، اسے نہ روکو ، وہ اپنے مالک کے حکم سے جس جگہ چاہے گی بیٹھ جائے گی “ ناقہ چلتی رہی اور کئی کلو میٹر سفر کے بعد ایک کھلی جگہ پر بیٹھ گئی اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ کو اپنے نبی ﷺ کے قیام کے لیے پسند فرما لیا جس جگہ اونٹنی بیٹھی تھی زمین کا وہ ٹکڑا تھا جسے رسول اللہ ﷺ کو اپنے لیے منتخب کرنا تھا چناچہ انہوں نے یہ قطعہ زمین خرید لیا تاکہ وہاں ایک مسجد اور چند کمرے بنائے جاسکیں جن میں رسول اللہ ﷺ اور ان کے اہل بیت رہ سکیں اس قطعہ زمین کے قریب ایوب سلطان (ابو ایوب انصاری ؓ جو اب استنبول میں ابدی نیند سو رہے ہیں) کا امکان تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کی والدہ کے قبیلہ میں سے تھے۔ اس غیر متوقع اور اللہ کے فرستادہ مہمان کی آمد پر ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا وہ رسول اللہ ﷺ کا سامان اپنے گھر لے گئے اور اپنے گھر کی تعمیر تک رسول اللہ ﷺ ابو ایوب انصاری ؓ کے مہمان رہے۔
نبی اعظم و آخر ﷺ اور مہاجرین کی آباد کاری
سینکڑوں مکی مسلمان مدینہ میں پناہ لے چکے تھے ان کی یہاں کوئی جائیداد وغیرہ نہ تھی انہیں مقام معیشت میں کھپانا وقت کی اشد ضرورت تھی خود رسول اللہ ﷺ کو ایک حد تک یہی مسئلہ درپیش تھا وہ مکہ سے کچھ رقم لائے جس سے انہوں نے متعدد اونٹنیاں اور بکریاں خریدیں جن سے ان کے اہل بیت اور گھر میں آنے والے مہمانوں کی ضروریات بخوبی پوری ہونے لگیں : کھانے کے وقت جو شخص بھی موجود ہوتا رسول اللہ ﷺ اسے کھانے میں شریک کرلیتے متعدد مدنی مسلمانوں نے اپنے اپنے باغ میں ایک ایک کھجور کا پھل حضور ﷺ کی خدمت کے لیے وقف کردیا بعد میں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ ، خیبر اور فدک میں زرعی زمینیں خریدیں یہ زمینیں مسلم ریاست کی ملکیت تھیں ان کی پیداوار سے رسول اللہ ﷺ اپنی اور اپنے اہل بیت کی ضروریات پوری کرتے اور جو کچھ بچ جاتا وہ بیت المال کے سپرد کردیتے تاکہ نادار اور ضرورت مند مسلمانوں کی حاجت پوری کی جاسکے مدینہ کا ایک خاندان رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے اپنا دس سالہ بیٹا انس رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بطور ملازم پیش کیا یہ خاندان اپنے اس فرزند پر فخر کرتا تھا کیونکہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں لکھ پڑھ سکتا تھا۔
مکی مہاجرین کی فلاح و بہبود کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ نے ایک اجلاس عام طلب کیا انہوں نے تجویز کیا کہ مدینہ کے باوسیلہ اور متمول مسلمان ایک ایک مکی کو اپنا بھائی بنالیں دونوں بھائیوں کے خاندان مل کر کمائیں اور کھائیں یہاں تک وہ ایک دوسرے کے ترکہ میں بھی حصہ دار ہوں رسول اللہ ﷺ کی اس تجویز کے ساتھ سب نے اتفاق کیا انہوں نے خود انفرادی خوبیوں کی بنا پر ایک ایک مکی اور ایک ایک مدنی کا انتخاب کرکے انہیں بھائی بھائی بنا دیا یہ انتظام کچھ عرصہ تک جاری رہا مکی مسلمان طفیلی بن کر رہنے کے خواہش مند نہیں تھے جب انہوں نے محنت سے کافی دولت پیدا کرلی تو انہوں نے اپنے مدنی بھائیوں کی املاک ان کے سپرد کردیں ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر آزادانہ زندگی بسر کرنا شروع کردی۔
چند مثالیں ملاحظہ کیجیے : حضرت عمر ؓ نے اپنے مدنی بھائی سے کہا ” ایک دن میں آپ کے باغ کو سینچنے کا کام کروں گا اور آپ دربار رسالت میں حاضری دیں اس روز جو آیات قرآنی نازل ہوں ، سیاسی اور معاشرتی فیصلے کئے جائیں اور جو کچھ بھی پیش آئے شام کو مجھے سب کچھ بتائیں اگلے روز آپ باغ میں کام کریں اور میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہوں اور جو کچھ گزرے آپ کو بتائوں ایک اور مکی عبدالرحمن بن عوف کو اس کے مدنی بھائی نے کہا : ” یہ میری جائیداد ہے اس کا نصف آپ کی ملک ہے میری دو بیویاں ہیں ان سے آپ ایک کا انتخاب کرلیں میں اسے طلاق دے دوں گا اور آپ اس سے شادی کرلیں…“ اس پر ابن عوف نے کہا ” خدا آپ کو آپ کی املاک اور اہل خانہ مبارک کرے مجھے صرف مقامی منڈی کا راستہ بتا دو …“ عبدالرحن ابن عوف منڈی میں گئے انہوں نے کچھ اشیا ادھار خریدیں اور اسی وقت فروخت کردیں انہوں نے دن میں یہ عمل کئی بار دہرایا شام تک کی خریدو فروخت کے بعد انہوں نے اتنا کما لیا کہ نہ صرف دکانداروں کا تمام قرضہ بےباک کردیا بلکہ ان کے پاس رات کے کھانے کے لیے کافی پیسے بچ گئے چند روز بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے نیا قیمتی لباس زیب تن کررکھا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے نئی نئی شادی کی ہے جلد ہی عبدالرحمن بن عوف کا شمار مدینہ کے متمول ترین تاجروں میں ہونے لگا وہ بڑے مخیر اور غریب پرور تھے اور اسلام کی سربلندی کے ہر کام میں پیش پیش رہتے تھے۔
نبی اعظم و آخر ﷺ کی ہجرت کے بعد مکہ والوں کا ردعمل
کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ کے یوں بچ کر مدینہ چلے جانے کا بہت برا منایا انہوں نے ایک وفد مدینہ بھیجا اور مطالبہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو مدینہ سے نکال دیاجائے یان کے سپرد کیا جائے انہوں نے دھمکی دی کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مدینہ والوں کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے کفار مکہ کا یہ وفد بےنیل مرام واپس گیا مگر ہر شخص محسوس کررہا تھا کہ اب کچھ ہو کر رہے گا اور ہمیں اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں اس واقعہ کے دو اہم اور دور رس نتائج نکلے : مدنی ریاست کا آئین مرتب ہوا اور مدینہ کے ارد گرد ایک بفرسٹیٹ کا قیام عمل میں آیا۔
نبی اعظم و آخر ﷺ مدینہ کے ایک اجلاس میں
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کا ایک عام اجلاس طلب کیا یہ اجلاس رسول اللہ ﷺ کے ذاتی ملازم انس ؓ کے والد کے گھر پر ہوا امام بخاری (رح) کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس اجلاس میں تجویز پیش کی کہ مدینہ کے لوگوں میں باہمی تنازعات کے خاتمہ اور کسی بیرونی حملہ آور کی حوصلہ شکنی کے لیے مدینہ کی ایک ریاست قائم کی جائے یہ ریاست ایک کنفیڈریشن ہو جس کے تمام یونٹوں کو بڑی حد تک خود مختاری حاصل ہو کسی جرم کے بارے میں سزا کے خلاف ریاست کے سربراہ سے اپیل کی جاسکے گی سربراہ مملکت کو جنگ یا امن کے دنوں میں کسی مہم کے لیے افراد کے قطعی انتخاب کا اختیار ہوگا سماجی تحفظ کے لیے بھی ایک مضبوط نظام قائم کیا گیا خون بہا کی صورت میں بھاری رقم متعین کی گئی جو اس صورت میں ادا کرنا ضروری تھی جب قتل کے مجرم کو سزائے موت نہ دی جائے دشمن سے جنگی قیدیوں کی رہائی کیلئے فدیہ بھی مقرر کردیا گیا۔
معاہدے کی تمام دفعات پر اتفاق رائے کے بعد انہیں ضبط تحریر میں لایا گیا یہ معاہدہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے جو کسی سربراہ مملکت نے جاری اور نافذ کیا ہے اس تاریخی دستاویز کی تفصیل درج ذیل ہے جو ” میثاق النبی “ کے عنوان سے معروف ہے۔
نبی اعظم و آخر ﷺ اور میثاق النبی
دنیا کے پہلے تحریر دستور یا آئین کی حیثیت سے یہ معاہدہ جسے ” میثاق النبی “ بھی کہا جاتا ہے بیحد اہم دستاویز ہے جو ہم تک لفظ بلفظ پہنچی ہے اس معاہدہ کا متن (علامہ محمد حمید اللہ ، فرانس) کی عربی کتاب ” مجموعہ الوثاثق السیاسیہ فی العھد النبوی والخلافۃ راشدہ “ جس کا اردو ترجمہ ” سیاسی وثیق جات ازعہد نبوی تابہ خلافت راشدہ “ کے نام سے مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کیا ہے میں دیکھا جاسکتا ہے۔
بسم اللہ الحمٰن الرحیم
یہ تحریری معاہدہ مدینہ کے مندرجہ ذیل طبقوں کے درمیان ہے :
(ا) محمد رسول اللہ ﷺ ۔ (ب) مسلمان قریش مکہ ازساکنین شہر مدینہ۔ (ج) مدینہ کے مسلمان۔ (د) مدینہ کے یہودی۔ (ہ) مدینہ کے نصرانی۔ (و) مدینہ کے غیرمسلم۔
دفعہ اول
متذکرہ الصدور ہر شش گروہ سیاسی طور پر ایک جماعت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دفعہ دوم
ان میں سے ہر ایک گروہ فرداً فرداً مندرجہ ذیل امور کا ذمہ دار ہے اور اس دفعہ میں مدینہ کے مندرجہ ذیل گروہ بھی شامل ہیں :
(1) بنو عوف (2) بنو حارث از قبیلہ خزرج (3) بنو ساعدہ (4) بنو جشم (5) بنو نجار (6) بنو عمرو بن عوف (7) بنو نبی ت (8) بنی اوس۔
دفعہ سوم
(1) کوئی گروہ دیت کی مقررہ حدود میں تخفیف کی راہ پیدا نہ کرے۔
(2) کوئی مسلمان کسی مسلمان کے مظلوم حلیف ( موالی) کے مقابلے میں اپنے حلیف (موالی) کی ناحق حمایت نہ کرے۔
(3) جو شخص باہم ادائے دیت میں سفارش کی راہ پیدا کرنے کی سعی کرے اس شخص کے خلاف دوسرے مسلمانوں کو ورثائے قتیل کی مناسب طرفداری کرنا ہوگی۔
(4) جو مسلمان خود یا اس کا بیٹا جماعت میں فساد اور تفرقہ پیدا کرنے میں ساعی ہو ، اس کے خلاف تمام مسلمانوں کو یکجا ہو کر یہ فتنہ فرو کرنا ہوگا۔
(5) اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے کافر مارا جائے تو دوسرے مسلمان کا کافر کی حمایت میں مسلمان پر جور وتعدی کرنا خلاف معاہدہ ہوگا۔
(6) اگر کافر مسلمان کے درپے ہو تو کسی مسلمان کو ایسے کافر کی حمایت نہ کرنا ہوگی۔
(7) مسلمانوں کا ہر فرد یکساں طور پر اللہ کی پناہ میں ہے اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے دوستدار ہیں۔
دفعہ چہارم
(1) مسلمان کے لیے کسی یہودی کے ایسے معاملہ میں مدد کرنے کا کوئی حرج نہیں جس سے وہ یہودی مسلمان کے انصاف پر اطمینان حاصل کرسکے۔
(2) مسلمان کے لڑائی میں شہید ہونے کے بعد کسی دوسرے مسلمان پر اس کی ذمہ داری عائد نہ کی جائے گی۔
(3) تمام مسلمان اسلام کے احسن اور اقوم طریق پر ثابت قدم رہیں گے۔
(4) کوئی مسلمان کسی مشرک کو مسلمان کے خلاف پناہ نہ دے گا ، نہ کسی ایسے مال کا ضامن ہوگا جو مشرک نے ناجائز طور سے مسلمان کے مال سے حاصل کیا ہو اور نہ کوئی مسلمان مشرک کی حمایت میں مسلمان کے درپے ہوگا۔
(5) مومن کے قتل ناحق پر اگر ورثائے قتیل رضا مندی سے دیت لینے پر مائل نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
(6) جو مسلمان اس معاہدہ میں شامل ہے اور وہ دل سے اللہ تعالیٰ اور روزہ محشر پر ایمان لاچکا ہے تو اسے کسی مفسد کی حمایت نہ کرنا ہوگی مفسد کو پناہ دینا بھی اس کی حمایت میں شامل ہے ایسے بےانصاف مسلمان پر دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کی لعنت اور عذاب ہے ، جس عذاب کے بدلے میں اس سے کوئی بدل قبول نہ کیا جائے گا۔
ذیلی دفعہ (نمبر 7) بلا استثناء تمام مسلمانوں پر لاگو ہے۔
(7) مسلمان اپنے باہمی تنازعات میں اللہ اور محمد (رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرنے کے پابند ہوں گے۔
یہود شرکائے معاہدہ کے لیے
(1) مسلمانوں کی جنگوں میں ان کی مالی اعانت کرنا ہر یہودی پر واجب ہوگا۔
(2) قبیلہ عوف کے تمام یہود کو مسلمانوں کے ساتھ ایک فریق کی حتثی سے مل کر رہنا ہوگا مسلمان اور یہودی دونوں اپنے اپنے مذہب کے پابند ہوں گے۔
(3) یہ ذمہ داری بنو عوف کے غلاموں پر بھی ان کے آقائوں کی مانند عائد ہوگی اور عدم پابندی کی صورت میں ان کے آقا ان کی طرف سے جوابدہ ہوں سرکشی کی صورت میں نہ صرف بنو عوف کے مرد بلکہ ان کے بچوں پر بھی مواخذہ کیا جاسکتا ہے۔
(4) اس دفعہ میں مدینہ کے مندرجہ ذیل یہود بھی شامل ہیں :
1 ۔ بنو نجار۔ 2 ۔ بنو حارث ۔ 3 ۔ بنو ساعدہ ۔ 4 ۔ بنو ثعلبہ اور ان کے حلیف۔ 5 ۔ بنو جشم۔ 6 ۔ جفنہ جو بنو ثعلبہ کی شاخ ہے ۔ 7 ۔ بنو شطبیہ
الغرض یہ دفعہ ہر یہودی قبیلہ کے حلیفوں پر لاگو ہے۔
(5) ان میں سے کوئی فرد یا شاخ یا قبیلہ اس دفعہ سے محمد ﷺ کی اجازت کے بغیر مستثنیٰ قرار نہیں پاسکتا۔
(6) نہ ان میں سے کوئی فرد یا جماعت کسی کو مجروح کرنے پر مواخذہ سے بری الذمہ قرار پاسکتان ہے۔
(7) ان میں سے جو فرد یا جماعت قتل ناحق کا ارتکاب کرے اس کا وبال اس کی ذات اور اہل و عیال سب پر آسکتا ہے۔
(8) ان (یہود) میں سے کسی پر ناحق تہمت پر اس کا ناصر اور حامی خدا ہے۔
(9) مسلمان اور یہود دونوں اپنے مصارف زندگی کے خود کفیل ہوں گے۔
(10) دونوں میں سے جو فرد اس قرارداد سے منحرف ہوگا دوسرا فریق اس باغی پر قابو حاصل کرنے میں پہلے فریق کا معاون ہوگا۔
(11) یہود اور مسلمان دونوں ایک دوسرے گروہ اور فرد کے ساتھ صلح اور نصیحت پر عامل رہیں گے اور صلح و نصیحت میں کسی قسم کی رخنہ اندازی درمیان میں نہ آنے دیں گے۔
(12) فریقین میں سے کوئی فرد یا جماعت دوسرے فریق کی حق تلفی گوارا نہ کرے گی لابتہ ایک دوسرے گروہ کے مظلوم کی حمایت کرنا اس کا فرض ہوگا۔
(13) مسلمان جب تک اپنے دشمنوں سے صروف پیکار ہیں یہود ان کی مالی اعانت کرتے رہیں گے۔
(14) شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کیساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔
(15) ہر فرد اپنے ہمسائے کی طرف داری اپنے نفس کی مانند کرتا رہے گا۔
(16) اس معاہدہ کے پابند افراد اور گروہ باہمی اختلاف اور تنازعہ کا مقدمہ اللہ اور اس کے رسول محمد ﷺ کے سامنے پیش کریں گے۔
(17) شرکائے معاہدہ میں سے کوئی فرد یا جماعت قریش مکہ کو اپنے ہاں پناہ نہ دے گی اور نہ قریش مکہ کے کسی حلیف کی حمایت کرے گی۔
(18) مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں شرکائے معاہدہ میں سے ہر فرد اور جماعت حملہ آور کی مداخلت کے خلاف دوسرے فریق کی حمایتی ہوگی۔
(19) شرکائے قرارداد کسی جماعت کی طرف سے دشمن کے ساتھ مصالحت میں دوسرے گروہ میں شریک نہ ہوں گے۔
(20) دشمن سے صلح کی صورت میں اگر کسی نوع کی منفعت ہوگی تو مسلمانوں کی مانند دوسرے شرکائے قرار داد بھی اس سے نفع اندوز ہوں گے۔
(21) البتہ جو شخص اپنے دین سے منحرف ہوجائے اس کے لیے یہ دروازہ بند رہے گا۔
(22) جنگی حالت میں فریق معاہدہ کے ہر فرد کو مالی اعانت میں اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔
(23) قبیلہ اوس کے یہود اور ان (یہود) کے موالی (حلیف) بھی اس قرار داد کے اسی طرح پابند ہیں جس طرح وہ قبائل جن کا نام بنام ذکر اوپر آچکا ہے۔
حرف آخر
(1) اس معاہدہ کی خلاف ورزی ظالم اور مفسد کے سوا اور کوئی شخص نہیں کرسکتا۔
(2) جو شخص مدینہ میں خلوص اور امن کے ساتھ سکونت رکھے اور وہ شخص جو مدینہ سے خلوص اور امن کے ساتھ کسی اور جگہ نقل مکانی کرنا چاہے ان دونوں پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن فساد اور شرارت کرنے کے لیے قیام مدینہ اور یہاں سے ترک اقامت دونوں پر گرفت ہے۔
(3) جو شخص دوسروں کے ساتھ بھلائی کا طلبگار ہے اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ ﷺ بھی اس کے خیر اندیش ہیں۔
نبی اعظم و آخر ﷺ اور دفاعی معاہدے
داخلی امن مستحکم ہوجانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے باہر قباائل سے رابطہ پیدا کیا پیغمبر ﷺ نے ان قبائل سے خصا طور پر تعلق پیدا کیا جن کے علاقوں سے قریش مکہ کے تجارتی قافلے گزر کر عراق ، شام یا مصر کی طرف آتے جاتے تھے رسول اللہ ﷺ ان قبائل کے ساتھ بیرونی حملہ کے خلاف باہمی فوجی امداد کی بنیاد پر دفاعی معاہدے کرنے میں کامیاب رہے۔ معاہدہ کے مطابق مسلمانوں کے فوجی دستے ان قبائل کے علاقوں میں گشت کرنے کے مجاز تھے مگر کافروں کو ایسا کرنے کی اجازت نہ تھی۔
جن قبائل کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے معاہدے کیے ان میں ضمرہ ، جہینہ اور مزینہ نامی قبائل شامل تھے یہ قبائل علی الترتیب مدینہ کے جنوب ، شمال اور مغرب میں آباد تھے بڑے شہر عموماً آس پاس آباد خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش قبائل کی مصنوعات اور پیداوار کی منڈیاں ہوتے ہیں مدینہ کے اردگرد رہنے والے ان قبائل کی معیشت کا انحصار بھی مدینہ کی منڈی پر تھا اور ان کے سامنے اس کا کوئی متبادل بھی نہ تھا ممکن ہے زمانہ قبل از اسلام کے دوران اہل مدینہ اور بعض نواحی قبائل کے درمیان بھی معاہدے موجود رہے ہوں جیسا کہ قبیلہ جہینہ کے سردار کے ایک واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک فوجی دستہ اس کے علاقہ میں گیا تاکہ قریش مکہ کے تجارتی قافلہ کی راہ روک سکے مگر علاقہ کے قبائلی سردار مجدی ابن عمرو نے جو دونوں فریقوں کا دفاعی حلیف تھا مداخلت کی اور مسلمانوں کا فوجی دستہ کارروائی کیے بغری ہی واپس مدینہ آگیا۔
ایسے دفاعی معاہدوں کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے ” اسلامی ریاست “ کی سلامتی اور دفاع کو روز افزوں مضبوط بنانا شروع کردیا معاہدوں کی وجہ سے پرامن طور پر کام کرنے کی راہ ہموار ہوگئی اور دین اسلام ان قبائل میں سریت کرنے لگا جن سے رسول اللہ ﷺ نے دفاعی معاہدے کیے تھے جلد ہی بنو ضمرہ میں اسلام کو بہترین سفیر میسر آیا یہ عمر بن امیہ الضمری تھے وہ رسول اللہ ﷺ کے اس قدر وفادار تھے کہ ابھی انہوں نے اسلام بھی قبول نہیں کیا تھا جب رسول اللہ ﷺ نذے جنگ بدر کے بعد انہیں اپنا سفیر بنا کر حبشہ کے شاہ نجاشی کے دربار میں بھیجا تاکہ وہاں اسلام کے خلاف کفار مکہ جو سازشیں کر رہے ہیں ان کا توڑ کیا جائے۔
جب مدینہ کے آس پاس کے قبائل سے دفاعی اور دوستانہ معاہدے مکمل ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کفار مکہ پر اقتصادی دبائو ڈالنے کا فیصلہ کیا قریش مکہ کے تجارتی قافلے شمال کی طرف سفر کرتے وقت انہی علاقوں سے گزرتے تھے جن علاقوں کے قبائل سے مسلمانوں نے معاہدے کر رکھے تھے رسول اللہ ﷺ کا یہ اقدام اخلاقی اعتبار سے بالکل درست تھا کفار مکہ نے ہجرت کرکے مدینہ آنے والے مسلمانوں کی املاک ضبط کرلی تھیں فریقین حالت جنگ میں تھے دنیا بھر میں یہی دستور ہے کہ وہ ہمسایہ ملکوں میں یا تو معاہدہ امن ہو یا دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کیا جائے یا قتل کیا جائے کفار مکہ مسلمانوں کی ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھے وہ معاہدہ کیا کرتے بلکہ وہ مدینہ کے مسلمانوں کو زندہ تک دیکھنا نہ چاہتے تھے ایسے حالات میں اس کے سوا کیا کیا جاسکتا تھا ؟ یہی کہ کسی طریقہ سے ان کو باور کرایا جاسکے کہ امن سے رہو اور امن سے رہنے دو اور اگر وہ خرابی کریں تو انہی انارکی پھیلانے کا جواب ان کو صحیح طور پر ملے تاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئیں۔
نبی اعظم و آخر ﷺ کی ہجرت کے بعد مکہ والوں کا حال
مکہ کے لوگوں نے نبی اعظم وآخر ﷺ کی مخالفت برابر تیرہ سال تک جاری رکھی جو روز بروز ترقی ہی کرتی چلی گئی جس کے نتیجہ میں آپ ﷺ کو ہجرت کرنا پڑی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب آپ ﷺ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر آئے تو اب مکہ کے لوگوں کی دعائوں کا نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہوگیا مکہ والوں کی دعائوں کا نتیجہ کیا مطلب ؟ مطلب یہ ہے کہ مکہ کے لوگوں کی مخالفت کی حد یہ تھی کہ انہوں نے جب اللہ سے دعا مانگی تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ سے حق کے قبول کرنے اور حق پر قائم رہنے کی دعا نہیں کی بلکہ کہا تو یہ کہا کہ ” اے اللہ ! اگر یہ بات (قرآن کریم ) تیری جانب سے امر حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے یا ہمیں عذاب درد ناک میں مبتلا کردے “ (34:8) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا ” اللہ ایسا کرنے والا نہیں ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! تو ان کے درمیان ہو اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب میں مبتلا کردے اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو معافی مانگ رہے ہوں لیکن جوں ہی انہوں نے رحمت الٰہی کو دھکے دے دے کر مکہ سے نکال دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو فوراً متنبہ کردیا کہ ” اب کون سی بات رہ گئی ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہ دے حالانکہ وہ مسجد حرام سے مسلمانوں کو روک رہے ہیں ؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے متوفی ہونے کے لائق نہیں ، اس کے متولی اگر ہوسکتے ہیں تو ایسے ہی لوگ ہوسکتے ہیں جو متقی اور پرہیز گار ہوں لیکن ان میں سے اکثروں کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے “ اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ اب جب کہ تم نے پیغمبر اسلام ﷺ کو ہجرت پر مجبور کردیا اور تمہاری سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ ہی کی عبادت گاہ سے جبراً روکنے لگے تو کوئی وجہ نہیں کہ اب پاداش عمل کی نمود میں تاخیر ہو چناچہ یہی کچھ ہوا اور قریش مکہ کے جماعتی اقبال کا چاند بھی ساتھ ہی غروب ہوگیا۔ کیوں ؟ اس لیے کہ دونوں مانع عذاب رفع ہوگئے نہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں رہے اور نہ ہی استغفار کرنے والے لوگ مکہ میں باقی رہ گے اور عذاب الٰہی کا سلسلہ تو اسی وقت شروع ہوگیا جب نبی کریم ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے کہ مکہ والوں کو ایک طرف تو قحط سالی نے آدبایا اور دوسری طرف نہتے اور گنتی کے مسلمانوں سے ان کی جمعیت کو تہ تیغ کرا دیا اور جو بچے وہ تتر بتر ہوگئے اور پھر یہ سلسلہ مسلسل چھ سال تک چلتا رہا تا آنکہ بات صلح حدیبیہ اور اس کے بعد فتح مکہ پر آکر ختم ہوئی اور اس طرح نہ تو مکہ کے مخالفین باقی رہے اور نہ ہی ان کی مخالفت دونوں کا بیک وقت خاتمہ ہوگیا۔
نبی اعظم و آخر ﷺ کی مدنی زندگی کے تین مرحلے اور صحابہ ؓ کا حال
گزشتہ انبیاء کرام اور سل عظام (علیہ السلام) کے جو تذکار اور سرگزشتیں ہم نے بیان کیں وہ بھی ان کی ہجرت تک ہی تھیں اور ان کی بعد کی زندگی کو ہم نے بیان نہیں کیا کیونکہ جو نصیحتیں اور اسباق ان کی زندگی سے مقصود تھے وہ مخالفین کی مخالفت تک ہی محدود تھے لیکن آپ ﷺ کی ہجرت سے بعد کی زندگی میں بھی انسانی زندگی کے لیے بیشمار اسباق ہیں اور ان گنت نصیحتیں لیکن چونکہ ان کا ذکر اکثر زیر نظر تفسیر عروۃ الوثقیٰ ، میں ہم بیان کرتے چلے آرہے ہیں اس لیے قارئین سے التماس ہے کہ وہ وہیں سے استفادہ کریں ہم جو کچھ بیان کرنا چاہتے ہیں اس کے اشارات اور ان کے جواب مختصر طور پر اس جگہ بیان کریں گے اور وہ وہی باتیں ہیں جن کے متعلقا پنوں نے سادگی اور مخالفین نے شرارت سے بطور الزام آپ ﷺ کی طرف منسوب کی ہیں اور ان میں سے بھی جو ہم نے اپنی تفسیر میں بیان کردی ہیں ان کی طرف اشارہ دیں گے تاکہ وہ تفسیر میں دیکھی جاسکیں اور آخر میں آپ ﷺ کے مرض الموت اور وفات کا مختصر ذکر کریں گے اور ایک باب میں یہ دکھائیں گے کہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ خصوصاً اصحاب ثلاثہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروق ؓ اور عثمان غنی ؓ کے تعلقات سیدنا علی ؓ سے کیسے رہے ؟ اور خصوصاً اہل بت اور اصحاب ثلاثہ میں کیا کیا رشتہ داریاں رہیں اور وہ کب تک بدستور قائم رہیں تاکہ منافقین کی اس زہر افشانی کا قارئین اندازہ لگا سکیں جو انہوں نے اسلام اور بانی اسلام خاتم النبین ﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام میں ملانے کی کوشش کی جس کا اثر آج تک بدستور اسلام اور اہل اسلام میں قائم چلا آرہا ہے حالانکہ ان میں بحمد اللہ قطعاً کوئی مناقشت نہیں تھی اگر اس طرح کی کسی بات کا کوئی شائبہ بھی وہاں موجود ہوتا تو ان میں آپس کی رشتہ دریاں قطعاً نہ ہوتیں قرآن کریم نے ان کی جو پہچان دنیا والوں کو کرائی ہے اس کے خلاف منافقت نے یہ زہر اگلنے کی کوشش کی ہے لیکن سادہ لوح مسلمانوں نے اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ور آپس میں بہت حیم و کریم ہیں تم جب دیکھو گے تو انہیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پائو گے اور سجدے کے اثرات ان کے چہروں ہی سے عیاں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں “ (29:48)
ہاں ! آپ ﷺ کی مدنی زندگی کو آپ تین مرحلوں میں تقسیم کرلیں تو اس کا مطالعہ آپ کے لیے آسان ہوجائے گا اور اس کے لیے سیرۃ ابن ہشام ، ابن اسحاق ، سیرۃ النبی از سید سلیمان ندوی یا شبلی نعمانی ، سیرۃ النبی ازسید سلیمان منصور پوری ، سیرۃ النبی للشیخ عبداللہ وغیرہ میں سے کسی کو انتخاب کرکے اس کو زیر مطالعہ رکھیں اور اس سلسلہ میں نئی پیش کش ” الرحیق المختوم “ بھی ایک کارآمد کتاب ہے رہے یہ تین مرحلے تو ان میں سے (1) پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں فتنے اور اضطرابات بپا کیے گئے اندر سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور باہر سے دشمنوں نے مدینہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے چڑھائیاں کیں اور یہ مرحلہ حدیبیہ قعدہ 2 ھ پر ختم ہوا (2) دوسرا مرحلہ جس میں بت پرست قیادت کے ساتھ صلح ہوئی اور یہ مرحلہ فتح مکہ رمضان 8 ھ پر منہتی ہوتا ہے اور یہی مرحلہ شاہان عالم کو دعوت دین پیش کرنے کا بھی ہے (3) تیسرا مرحلہ جس میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق دین اسلام میں فوج در فوج داخل ہئی یہی مرحلہ مدینہ میں قوموں اور قبیلوں کے وفود کی آمد کا بھی مرحلہ ہے اور یہ مرحلہ نبی اعظم وآخر ﷺ کی حیات مبارکہ کے اخیر یعنی ربیع الاول 11 ھ تک محیط ہے اور اس کے بعد خلفاء راشدین کا دور شروع ہوجاتا ہے اور یہ دور بھی اسلام میں ایک سنہری دور تھا۔
(1) نبی اعظم و آخر ﷺ کی زندگی قبل از نبوت بھی ہمارے لیے نمونہ ہے
انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہیں یہ حال تو سارے نبیوں اور رسولوں کا ہے اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی پوری زندگی ہمارے لیے اسوہ حسنہ پیش کرتی ہے خواہ وہ نبوت سے پہلے کی ہو یا نبوت کے بعد کسی چیز کو آپ ﷺ نے نبوت آنے کے بعد حرام اور ناجائز قرار دیا لاریب وہ وحی الٰہی کے ذریعہ سے تھا لیکن آپ ﷺ نے وہ کام کبھی نبوت آنے سے پہلے بھی نہیں کیا ہاں ! بعض ایسی مخصوص باتیں ہوئیں جو نبوت و رسالت کے لیے مخصوص تھیں اور امت کیلیے وہ ناجائز اور حرام قرار دی گیئیں قرآن کریم نے آپ ﷺ کی پہلی زندگی کو بھی اہل اسلام کے لیے نمونہ قرار دیا ہے اور یہ اسی لیے ہے اور اس سے بھی آپ ﷺ کی معصومیت کا درس ملتا ہے خیال رہے کہ انبیا کرام اور رسل مقام (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی شخص بھی اسلام عقائد کے مطابق معصوم نہیں ہے خواہ وہ کوئی ہو ، کہاں ہو اور کون ہو ، نبی اعظم و آخر ﷺ کی زندگی قبل از نبوت اہل اسلام کے لیے جو اسوہ حسنہ قرار دی گئی اس کی وضاحت کے لیے عروہ الوثقیٰ جلد چہارم سورة یونس کی آیت 16 کی تفسیر ، جلد ششم سورة القصص کی آیت 68 کی تفسیر اور جلد ہشتم سورة الشوریٰ کی آیت 52 کی تفسیر ملاحظہ کریں نیز خصائص کبریٰ ج اول ص 89 ، فتح الباری پارہ 15 ص 425 ملاحظہ کریں۔