Urwatul-Wusqaa - Al-Fath : 3
وَّ یَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِیْزًا
وَّيَنْصُرَكَ : اور آپ کو نصرت دے اللّٰهُ : اللہ نَصْرًا : نصرت عَزِيْزًا : زبردست
اور اللہ آپ کی ایسی مدد فرمائے گا کہ اس میں غلبہ اور عزت ہو
اس صورت حال کو ” اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں “ سے تعبیر کیا جاتا ہے 7 ؎ اس سفر پر جانے والوں نے ان لوگوں کی باتوں کی کوئی پروا نہ کی اور گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اس طرح روکنے والوں کے حصہ میں سوائے بددلی کے کچھ نہ آیا۔ مسلمانوں کے چلے جانے کے بعد بھی وہ اپنی زبان کی حرکتوں کو روک نہ سکے اور اپنے شکوک و شبہات کا بدستور اظہار کرتے رہے اور پھر بحمد اللہ سارے مسلمان جب بخیر و خیریت واپس عمرہ کے ثواب و اجر کے ساتھ لوٹ آئے تو اس وقت بھی ان کی حالت دیدنی تھی اور ان کے چہرے ان کی ساری حالت کو واضح کر رہے تھے یہ تو ان کی دنیا کی حالت تھی اور جس طرح انہوں نے اپنی آخرت کو برباد کیا اس کا حال ان کو آخرت میں پہنچ کر معلوم ہوگا۔ اس طرح ان کے حصے میں اگر کالک ہی ہے تو ان کو وہی حاصل ہوئی اور وہی حاصل ہوگی۔ اللہ رب ذوالجلال والا کرام کا انہوں نے کیا نقصان کیا ؟ اور مسلمانوں کو اس طرح کی اذیت دے کر ان کو کیا حاصل ہوا ؟ اللہ تعالیٰ تو بےناز ہے انہوں نے انسان ہو کر اگر اس طرح کی حرکتیں کی ہیں تو ان کی حرکتوں کا وبال بھی انہیں پر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے لیے اتنی مخلوق ہے کہ اس کو کوئی شمار کرنا چاہے تو بھی شمار نہیں کرسکتا اور اللہ تعالیٰ اپنے ہر کام میں غالب آنیوالا ہے اور وہ حکمل کل ہے۔ اس کے سامنے کسی کی حکمت نہیں چل سکتی کوئی سمجھے یا نہ سمجھے بہرحال آسمان پر تھوکنے والا دراصل اپنے ہی منہ پر تھوکتا ہے۔ یہی الفاظ اوپر آیت 4 میں بھی گزر چکے ہیں اس لیے اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ مضمون کی رفتار کا اثر الفاظ پر کیا پڑتا ہے ؟
Top