Urwatul-Wusqaa - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ اللہ آپ کی اگلی اور پچھلی (آپ پر لگائی گئی) تمام لغزشوں کو ڈھانپ دے اور (اللہ چاہتا ہے کہ) آپ پر اپنے تمام انعامات کی تکمیل کر دے (اور آپ کی راہ کی تمام رکاوٹیں دور کر دے) اور آپ کو سیدھے راستہ پر لے چلے
اے پیغمبر اسلام ! اس فتح مبین نے آپ ﷺ کے پہلے اور پچھلے الزامات حرف غلط کی طرح مٹا دیئے 2 ؎ { ذنب } کیا ہے ؟ اس کے متعلق گزشتہ سورة محمد کی آیت 19 میں ہم پوری وضاحت کرچکے ہیں اس لیے وہیں سے دیکھ لیں۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ گزشتہ آیت میں نبی اعظم و آخر ﷺ کو فتح مبین کی بشارت دینے کے معاً بعد یہ ارشاد فرمایا کہ { لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک و ماتاخر } جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح مبین کا نتیجہ بتایا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کے ذہنوں اور دماغوں میں یہ صلح دب کر اور جھک کر کی گئی ہے جب اس کے نتائج ظاہر ہوں گے تو ان سب کو خود بخود تسلیم کرنا پڑے گا کہ فی الواقع صلح حدیبیہ ایک عظیم فتح تھی جس کے فتح ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک اور ابہام نہیں رہا۔ لیکن اس وقت جب یہ صلح ہو رہی تھی اور اس کی شرطیں طے ہو رہی تھیں اور پھر اس وقت جب اس صلح نامہ پر دستخط کیے جا رہا تھے بلکہ جب یہ سب کچھ ہوچکا تھا تو بہت کم لوگ تھے جن کے دلوں میں یہ شک و ابہام نہ ہو کہ جس طرح ہم نے دب کر اور جھک کر یہ صلح کی ہے اس قدر دب کر اور جھک کر صلح کرنا ہمارے لیے صحیح نہیں تھا۔ آپ ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ جب سیدنا عمر ؓ جیسے لوگ آپ ﷺ سے یہ سوال کر رہے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ ﷺ پیغمبر برحق نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہاں ! ہوں “ پھر عمر ؓ گویا ہوئے کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں ! حق پر ہیں۔ “ پھر عمر ؓ نے فرمایا : کہ پھر ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتا ، اللہ میری مدد کرے گا۔ “ حضرت عمر ؓ نے کہا : کیا آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے ؟ آپ ﷺ نے اس کا جواب دیا کہ ” لیکن میں نے تو نہیں کہا تھا کہ اس سال کریں گے۔ “ (صحیح بخاری کتاب الشروط) صلح ہوگئی ، شرائط طے ہوگئیں ، فریقین کے دستخط ہوگئے ایک فریق مجلس چھوڑ کر نکل گیا تو آپ ﷺ نے اپنے جانثاروں کو حکم دیا کہ ” اٹھو اور اپنے اپنے جانور قربان کر دو “ پھر کیا ہوا ؟ یہی کہ سب کے سب لوگ خاموش اور گنگ تھے اور ان میں سے ایک بھی نہ اٹھ سکا اور سب پر سکتہ طاری رہا۔ پھر آپ ﷺ خود اٹھے اور اپنے جانور کو خود ذبح کیا اور اپنے حجام کو بلا کر کہا کہ میری حجامت کرو تب کہیں جا کر سب باری باری اور جلدی جلدی اٹھے اور خاموشی کے ساتھ جو جانور قربانی کے تھے وہ قربان کردیئے اور حجامت بنوانے لگے۔ آپ ﷺ نے جب وہ میدان چھوڑا تو سارے قافلہ نے چھوڑ دیا اور واپس مدینہ کو چل پڑے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ان سب لوگوں کے دلوں میں شک اور اباہم نہیں تھا ؟ ضرور تھا۔ کیا شک اور ابہام ہی کو زیر نظر آیت میں (ذنب) نہیں کہا گیا ؟ لاریب یہی وہ (ذنب) تھا جو اپنوں اور خاص لوگوں کی طرف سے لگایا گیا اور جو غیروں کے (ذنب) لگائے گئے تھے وہ تو پہلے ہی ان گنت اور لاتعداد تھے اور اس کی بھی یہی حیثیت تھی جو اس (ذنب) کی تھی اور اسی طرح کے الزامات جو آپ ﷺ پر لگائے گئے تھے ان سب کا ازالہ اس فتح مبین کے نیجہر نے کیا اور زیادہ دیر نہ لگی تھی کہ انہی لوگوں نے اس پر تاسف اور افسوس کا اظہار کیا کہ ہم سے کیا غلطی سرزد ہوئی اور ہم کس گناہ کے مرتکب ہوگئے۔ افسوس کہ ہمارے مفسرین نے اس بات کی طرف دھیان نہ دیا اور نبی اعظم و آخر ﷺ کے لیے گناہ تلاش کرنے لگے اور پھر جب اس طرح بات نہ بنی تو طرح طرح سے اس کی توجیہہ شروع کردی۔ کسی نے فرمایا کہ اس جگہ گناہ سے مراد گناہ صغیرہ ہیں۔ کسی نے فرمایا اس جگہ گناہ سے مراد خلافِ اولیٰ ہیں لیکن حضور ﷺ کی نگاہ عمال میں وہ نہیں جچتے تھے اس لیے آپ ﷺ کے مقام رفیع کے باعث ان کو (ذنب) یعنی گناہ کہا گیا۔ یہ اور اسی طرح کی بعض اور بھی تاویلیں کی گئیں لکن حقیقت کی طرف نگاہ بہت کم لوگوں کی گئی۔ ان جوابات پر غور کرو اور جو بات ہم نے اوپر عرض کی ہے اس کو دیکھو تو ثابت ہوجائے گا کہ ایسے ہی مقامات انبیاء کرام اور رسل عظام کی زندگیوں میں آئے تھے جن سے نبی و رسول اور دوسرے آدمیوں میں امتیاز قائم ہوجاتا تھا کہ نبی و رسول کی زندگی اور دوسرے انسانوں کی زندگیوں میں کتنا بڑا فرق ہوتا تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاں جا کر واضح ہوجاتا ہے کہ نبی و رسول کے سوا کوئی شخص بھی معصوم کہلانے کا حقدار نہیں ہوتا خواہ وہ کوئی ہو ، کون ہو اور کہاں ہو۔ زیرنظر آیت کی تفسیر کے ساتھ گزشتہ سورة محمد کی آیت 19 کی تفسیر کو بھی ملا لیں تو ان شاء اللہ بات مزید واضح ہوجائے گی اور حقیقت آپ پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی اور پھر جہاں بھی قرآن کریم میں اس طرح کی کوئی نسبت نبی اعظم و آخر ﷺ کی طرف آپ دیکھیں گے تو ان شاء اللہ اس کی لم اور حقیقت تک پہنچ جائیں گے اور کسی طرح کا کوئی ابہام نہیں رہے گا اور خصوصاً آپ ﷺ پر جو الزامات غیروں کی طرف سے لگائیگئے وہ اس صلح سے پہلے ہی تھے اور اپنوں کی طرف سے جو لگائے گئے اگرچہ وہ وقتی تھے تاہم وہ اس صلح کے بعد ہی کے شمار ہوتے تھے۔ غیروں کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی فہرست اگرچہ بہت طویل ہے اور ان میں بعض بہت ہی خطرناک قسم کے تھے تاہم جن الزامات سے خاص وعام واقف ہیں وہ اس طرح تھے کہ : یہ شخص مفتری ہے ، کاہن ہے ، مجنون ہے ، شاعر ہے ، سحر زدہ ہے اور یہ کہ وہ ساحر ہے ، قوم میں انتشار ڈالنے والا ہے ، جنگ کی آگ بھڑکانے والا ہے ، بزرگوں کا گستاخ ہے ، بےدین اور لامذہب ہے ، اولاد کو ماں باپ سے جدا کرنے والا ہے ، غیروں سے محبت اور اپنوں سے بیر کرنے والا ہے۔ اب ان سارے الزامات کو نگاہ میں رکھیں اور غور کریں کہ اس صلح نے کس طرح ان میں سے ایک ایک الزام کو صاف کردیا اور وہ لوگ جو اس تحریک سے پہلے ” الامین “ اور ” الصادق “ کے الفاظ سے آپ ﷺ کو یاد کرنے والے تھے یہ سارے الزامات لگا کر پھر آپ ﷺ کو پہلے سے بھی زیادہ دل کی حاضری سے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ” الامین “ اور ” الصادق “ کہنے لگے اور اس طرح آپ ﷺ کو ان سارے الزامات سے بری کردیا جو آپ ﷺ کی طرف منسوب کیے جاتے تھے۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ اب ایک بار زیر نظر ساتھ پوری آیت کو ملا کر پڑھیں جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ (ویتم نعمتہ علیک ویہدیک صراطا مستقیما) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ پر اپنی نعمت کو کس طرح پورا کیا کہ الزام لگانے والوں نے تسلیم کرلیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ فی الحقیقت اللہ کے رسول ہیں نہ تو وہ کاہن ہیں اور نہ ہی شاعر ، مجنون ، مفتری اور کذاب ہیں بلکہ صادق الصدوق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیغامات کو لوگوں تک پہنچانے والے ہیں ۔ گویا الزام لگانے والوں نے خود ہی ان الزامات سے آپ ﷺ کو پاک کردیا جو وہ آپ ﷺ پر لگایا کرتے تھے۔
Top