Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 110
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَ عَلٰى وَ الِدَتِكَ١ۘ اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١۫ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا١ۚ وَ اِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ١ۚ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ١ۚ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْ١ۚ وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
اِذْ قَالَ : جب کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم اذْكُرْ : یاد کر نِعْمَتِيْ : میری نعمت عَلَيْكَ : تجھ ( آپ) پر وَ : اور عَلٰي : پر وَالِدَتِكَ : تیری (اپنی) والدہ اِذْ اَيَّدْتُّكَ : جب میں نے تیری مدد کی بِرُوْحِ الْقُدُسِ : روح پاک تُكَلِّمُ : تو باتیں کرتا تھا النَّاسَ : لوگ فِي الْمَهْدِ : پنگھوڑہ میں وَكَهْلًا : اور بڑھاپا وَاِذْ : اور جب عَلَّمْتُكَ : تجھے سکھائی الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَالتَّوْرٰىةَ : اور توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل وَاِذْ : اور جب تَخْلُقُ : تو بناتا تھا مِنَ : سے الطِّيْنِ : مٹی كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ : پرندہ کی صورت بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے فَتَنْفُخُ فِيْهَا : پھر پھونک مارتا تھا اس میں فَتَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا تھا طَيْرًۢا : اڑنے والا بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَتُبْرِئُ : اور شفا دیتا الْاَكْمَهَ : مادر زاد اندھا وَالْاَبْرَصَ : اور کوڑھی بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَاِذْ : اور جب تُخْرِجُ : نکال کھڑا کرتا الْمَوْتٰى : مردہ بِاِذْنِيْ : میرے حکم سے وَاِذْ : اور جب كَفَفْتُ : میں نے روکا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل عَنْكَ : تجھ سے اِذْ جِئْتَهُمْ : جب تو ان کے پاس آیا بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیوں کے ساتھ فَقَالَ : تو کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) مِنْهُمْ : ان سے اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر (صرف سِحْرٌ : جادو مُّبِيْنٌ : کھلا
اس دن اللہ کہے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) میں نے تم پر اور تمہاری [ ماں پر جو انعام کیے ہیں انہیں یاد کرو ، جب ایسا ہوا تھا کہ میں نے روح القدس سے تمہیں قوت دی تھی ، تم لوگوں سے کلام کرتے تھے چھوٹی عمر میں بھی اور بڑی عمر میں بھی اور جب تم میرے حکم سے مٹی لیتے اور پرند کی شکل جیسی چیز بناتے پھر اس میں پھونک مارتے اور وہ میرے حکم سے ایک پرند ہوجاتی اور جب تم میرے حکم سے اندھے اور برص کے بیمار کو چنگا کردیتے اور جب تم میرے حکم سے بعض (کفر کے) مردوں کو موت کی حالت سے باہر لے آتے اور جب میں نے بنی اسرائیل کا شر جو وہ تمہارے خلاف کر رہے تھے روک دیا تھا ، یہ وہ وقت تھا کہ تم روشن دلیلیں ان کے سامنے لے گئے تھے اور ان میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی وہ بول اٹھے تھے ، یہ تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آشکارا جادوگری ہے
مسیح (علیہ السلام) کی امت کے سامنے میدان حشر میں ان پر کئے گئے احسانات کا ذکر : 250: زیر نظر آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو مخاطب فرما کر ان کی قوم کے سامنے جن میں افراط وتفریط سے کام لینے والے دونوں گروہ موجود ہوں گے ارشاد فرمائے گا کہ ” اے مریم کے بیٹے عیسیٰ میں نے تم پر اور تمہاری ماں پر جو انعام کئے ہیں انہیں یاد کرو۔ “ اس ایک ہی فقرہ میں مسیح (علیہ السلام) کی امت کے افراط سے کام لینے والے لوگوں کو ابطال ہوگیا کہ تم نے جس ” مسیح “ کو ” اللہ “ اللہ کا بیٹا “ اور ” اللہ کا تیسرا حصہ “ قرار دیا تھا وہ تو سوائے اس کے کہ اللہ کا ایک منعم بندہ ہوا اور کچھ بھی نہیں تھا جس کو اس کی والدہ مریم نے جنا اور جو خود ” جنا گیا تھا “ وہ الٰہ اور معبود کیسے ہوگیا ؟ اور اس طرح آپ کی امت کے تفریط سے کام لینے والے یہود کو بھی بتا دیا کہ جس مریم کو تم اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے اور جس مسیح کو تم صحیح النسب انسان ماننے کے لئے بھی تیار نہیں تھے آج تمہاری آنکھوں کے سامنے اللہ نے ان دونوں کو اپنے ” منعم بندے “ قرار دے کر اپنے انعامات کو یاد کرنے کا ذکر کیا جس سے تمہارے جھوٹ کا پول بھی تمہاری آنکھوں کے سامنے کھل گیا کہ بداخلاق و بدکردار انسان کبھی بھی اللہ کے ” منعم بندے “ نہیں ہو سکتے۔ اس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے دونوں گروہوں کے عقیدہ کی جڑ کاٹ کر رکھ دی اور افراط وتفریط سے کام لینے والے دونوں گروہوں کا منہ کالا پڑگیا۔ سبحان اللہ اللہ کے کلام کی کیا خوبی ہے اور کیا حسن بیان ہے کہ ایک ہی فقرہ کہہ کر دریا کو کو زہ میں بند کردیا جس کی روانی نہ رکنے والی تھی ۔ پھر سیدہ مریم رضی ؓ پر کئے گئے احسانات کا بیان قرآن کریم کے صفحات میں بہت سے مقامات پر کیا گیا ہے جن میں سے آپ کے بچین میں ہی سے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی نگرانی اور کفالت کا احسان ہے بلوغت کے بعد دوسری کفالت کا ذکر ہے پھر جوان ہونے کے بعد ان بری سموں کا آپ سے رد کرا دینے کا احسان ہے ۔ بیٹے کی خوشخبری کا احسان ہے اور اس خوشخبری کے مطابق بیٹا پیدا ہونے کا احسان ہونے کے بعد ان بری رسومات کا آپ سے رد کرا دینے کا احسان ہے اور آپ کے بیٹے کو رسول بنا دیئے جانے کا احسان ہے اور ان سارے انعامات و احسانات کا ذکر قرآن کریم میں بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے خصوصاً سورة مریم اور سورة آل عمران دونوں ہی سورتوں کے شروع میں موجود ہے۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر روح القدس سے قوت دینے کا احسان : 251: سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح القدس سے قوت بہم پہنچانے کا احسان و انعام اور اس کی مکمل تفصیل پیچھے گزر چکی ہے ملاحظہ ہو عروۃ الوثقیٰ جلد اول تفسیر سورة البقرہ کی آیات 87 ، 253 ، عروۃ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة النساء آیت 171۔ فائل نمبر 3.5 عیسیٰ (علیہ السلام) پر بچپن اور ادھیڑ عمر میں کلام کرنے کا احسان : 252: عیسیٰ (علیہ السلام) نے بچپنے ہی سے وہ کلام شروع کردیا جس کو سن کر بڑے بڑے عقلمند انگشت بدنداں رہ گئے۔ ان کے کئے گئے سوالات کو کوئی جواب نہ دے سکا اور ان کے دیئے گئے جوابات نے لوگوں کو سکوت میں ڈال دیا جس کے بیانات آج بھی اناجلک بھی موجود ہیں جن کا تذکرہ قرآن کریم نے کیا ہے یہ تو بچپنے کی عمر کا احسان تھا ادھیڑ عمر کے کلام کو احسان اس لئے فرمایا کہ جس شخص کے پیدا ہوتے ہی لوگ اس کے قتل کرنے کے در پے ہوگئے اللہ نے اس کو ایک مدت تک زندہ رکھا اور اس کو اس کی طبعی عمر تک پہنچایا اور پھر یہ وہ کہیں چھپ کر دنیا کے کسی کونہ میں گم سم بھی نہیں پڑا رہا بلکہ مدت دراز تک انہیں قتل کردینے والوں میں رہ کر نبوت کے پیغامات پہنچاتا رہا اور ادھیڑ عمر میں بھی اللہ کا یہ احسان آپ پر ہوا اور آپ اس طرح اٹھا لئے گئے جس طرح دنیا کے باقی انسان طبعی زندگی جو ان کو دی گئی ہو پوری کرنے کے بعد اٹھالئے جاتے ہیں اور آپ کی پیدائش ، زندگی اور موت سب سلامتی میں رہی مخالفین آپ کا بال بھی بیکانہ کرسکے اور اس بچپنے اور ادھیڑ عمر میں یکساں طور پر نبوت کا کلام کرنے کا ذکر پیچھے عروۃ الوثقیٰ دوم تفسیر سورة آل عمران آیت 46 میں تفصیل کے ساتھ گزرچکا ہے وہاں سے ملاحظہ فرمالیں جہاں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت دیتے وقت سیدہ مریم کو اس کے ہونے والے بیٹے کے اوصاف بتائے جانے کا بیان ہے اور آئندہ سورة مریم میں بھی اس کا بیان آئے گا ان شاء اللہ۔ پرند کی مانند ہونے والی چیزوں کو نفخہ نبوت سے اڑا دینے کا احسان : 253: ” ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات “ والی بات معروف ہے جس کو ہر انسان جس میں کچھ بھی بصیرت ہو سمجھ سکتا ہے اور بلاشبہ نبی اس وقت نبی ہی ہوتا ہے جب بھی ابھی ماں کے پیٹ میں ہوا اگرچہ نہ اسکی ماں جانتی ہے اور نہ وہ خود اور اس طرح پیدائش سے عہد طفولیت میں گزرنے تک کسی کو معلوم نہیں ہوتا لیکن علم الٰہی سارے حالات پر محیط ہے وہ اپنے رسول بنائے جانے والے بندہ کی اس طرح حفاظت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنی اولاد کو بھی اس طرح کی حفاظت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اگرچہ یہ سارا معاملہ تکوین کے تحت چلتا ہے جو دوسروں کو محسوس نہیں ہوتا جس طرح ہر نبی و رسول اس دور سے گزرتا ہے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اس دور سے گزرے۔ آپ کے بچپنے کو اناجیل میں اس طرح بیان کیا گیا کہ ” حضرت عیسیٰ کی عمر سات برس کی تھی وہ ایک روز اپنے ہم عمر رفیقوں کے ساتھ جو کھیل رہے تھے اور مٹی کی مختلف صورتیں یعنی گدھے ، بیل ، چڑیاں اور مورتیں بنا رہے تھے۔ ہر بچہ اپنی کاری گری کی تعریف کرتا تھا اور دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا ۔ تب حضرت عیسیٰ نے لڑکوں سے کہا کہ میں ان مورتوں کو جو میں نے بنائی ہیں چلنے کا حکم دوں گا اور وہ فی الفور حرکت کرنے لگیں گی اور جب انہیں واپس آنے کا حکم دوں گا تو وہ واپس آئیں گی۔ انہوں نے پرندوں اور چڑیوں کی مورتیں بھی بنائی تھیں اور جب ان کو اڑنے کا حکم دیا تو وہ اڑنے لگیں اور جب ان کو ٹھہر جانے کا حکم دیا تو وہ ٹھہر گئیں۔ آخر کار جب لڑکے چلے گئے اور ان باتوں کو اپنے والدین سے بیان کیا تو ان کے والدین نے ان سے کہا کہ بچو آئندہ اس کی صحبت سے احتراز کرو کیونکہ وہ جادو گر ہے اس سے بچو اور پرہیز کرو اور اب اس کے ساتھ کبھی نہ کھیلو۔ “ (شرح انجیل اول طاحسن۔ یوسیس ، اتھانیسیس 8 ، 9) اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات بیان کئے جاتے ہیں ۔ ان کی حقیقت آپ کے بچپنے کے خوابات ہیں یا آپ کے پاکیزہ خیالات جن کو کامل انسان کی زندگیوں ہی میں لوگ بیان کرنا شروع کردیتے اور بعد میں ان میں روز افزوں ترقی ہوتی جاتی ہے اور یہی باتیں آگے چل کر حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں اور نبوت کے اجراء تک تائید ایزدی میسر آجاتی تو خیالات سے گزر کر نفحہ نبوت میں داخل ہوجاتی تھیں ۔ علم الٰہی میں یہ سب کچھ موجود تھا لیکن لوگوں کو کب معلوم ہوا ؟ اپنے وقت کے ساتھ ساتھ جب وہ مشاہدہ میں آنے لگا۔ پھر اس کو بیان کرنے کے لئے تمیثلٖ ، استعارہ ، اشارہ ، مجاز ، کنایہ ، محاورہ اور تشبیہ سے کام لیا گیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ انہی صورتوں میں بیسیوں سال کی زندگی کا نچوڑ مختصر سے مختصر الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے جو شخص بھی اپنی روز مرہ زندگی کے حالات و واقعات کو نگاہ میں رکھے وہ اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ نبی کا کام ہی کیا تھا ؟ یہی کہ گذشتہ ہزاروں سالوں کی تاریخ کو چند الفاظ میں بتائید ایزدی قوم کے سامنے پیش کردینا اور یہی کچھ یہاں ہوا ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس ” نفحہ نبوت “ کا بیان پیچھے عروۃ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة آل عمران کی آیت 49 میں تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے وہاں سے ملاحظہ فرمائیں۔ اندھوں اور کوڑھیوں کے چنگا کرنے کے احسان کا ذکر : 254: اندھا ہونے اور کوڑھ کے مرض کو سب جانتے ہیں بلاشبہ اناجیل میں سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایسے بیماروں کو شفاء دینے کا ذکر موجود ہے جو کوڑھ اور برص میں متلا تھے اور ایسے اندھوں کو بینا کرنے کا بیان بھی پایا جاتا ہے مثلاً یہ کہ : ” جب یسوع وہاں سے آگے بڑھا تو اندھے اس کے پیچھے یہ پکارتے ہوئے چلے کہ اے ابن داؤد ہم پر رحم کر۔ جب وہ گھر میں پہنچا تو وہ اندھے اس کے پاس آئے اور یسوع نے ان سے کہا کیا تم کو اعتقاد ہے کہ میں یہ کرسکتا ہوں ؟ انہوں نے اس سے کہا ہاں ! خدا وند ! تب اس نے ان کی آنکھیں چھو کر کہا تمہارے اعتقاد کے موافق تمہارے لئے ہو اور انکی آنکھیں کھل گئیں۔ “ (متی 9 : 27 ، 30) اس طرح کوڑھ کو درست کرنے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے : ” ایک کوڑھی نے اس کے پاس آکر اس سے کہا اے خداوند اگر تو چاہے تو مجھے پاک و صاف کرسکتا ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا اور کہا میں چاہتا ہوں تو پاک وصاف ہوجا وہ فوراً کوڑھ سے پاک صاف ہوگیا۔ یسوع نے اس سے کہا خبردار کسی سے نہ کہنا بلکہ جا کر اپنے تئیں کا ہن کو دکھا اور جو نذر موسیٰ نے مقرر کی ہے اسے گزران تاکہ ان کے لئے گواہی ہو۔ “ (متی 8 : 471) اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ انہی واقعات و حالات کے پیش نظر آج بھی لوگوں نے ” روحانی شفا خانے “ کھول رکھے ہیں کہ نبیوں سے ولیوں ، بزرگوں ، پیروں ، مرشدوں ، سادھوؤں اور فقیروں کونسل بعد نسلاً یہ اختیار منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں اور اس طرح کی ہزاروں کہاوتیں گزشتہ لوگوں کے نام سے آج بھی مسلمانوں اور دوسری قوموں میں موجود ہیں جو ساری قوموں کے اپنے اپنے بزرگوں کے نام سے مشہور ومعروف ہیں لیکن قرآن کریم نے یہ سارے الفاظ انہی تمثیلات واستعارات کے طور پر بیان کئے ہیں جنکا بیان قرآن کریم کے صفحات میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ہم نے چونکہ ان ساری آیات کو عروۃ الوثقیٰ جلد اول تفسیر سورة البقرہ کی آیت 18 پر حاشیہ 39 میں تفصیل کے ساتھ جمع کردیا ہے جو صفحہ 167 سے 174 آٹھ صفحات پر پھیلا ہوا ہے اس لئے وہیں سے ملاحظہ فرمالیں اور تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد دوم میں سورة آل عمران کی آیت 49 کے زیر حاشیہ 116 پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ کفر کی موت مرے ہو وؤں کو اسلامی زندگی بخشنے کے احسان کا ذکر : 255: ” اور جب ایسا ہوا تھا کہ تم میرے حکم سے مردوں کو موت کی حالت سے باہر لے آتے تھے۔ “ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰى بِاِذْنِیْ 1ۚ۔ آیت کے اس حصہ سے بھی عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ” قُمْبِاِذْنِیْ 1ۚ“ کہ کر مردوں کو اٹھادیا کرتے تھے لیکن ہم اس جگہ ” کفر کی موت مرے ہوئے “ ” ایمان کے مردہ لوگ “ ” غیر اسلامی زندگی کی موت مرنے والے “ اور جہاد سے منہ چھپانے کو موت “ سے تعبیر کرتے ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ انبیائے کرام کے آنے کا مقصد یہی حیات بخشنا ہے اور یہ بھی کسی نبی (علیہ السلام) کے اختیار میں اللہ نے نہیں دیا ہاں اللہ کے حکم سے وہ اس طرح کی حیات باشی ضرور کرتے ہیں پھر اللہ کے حکم سے جس کو زندہ ہونا ہوتا ہے ہوجاتا ہے لیکن جس کو زندہ نہیں ہونا ہوتا وہ مردہ ہی رہ جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ” لما بحیکم “ اس جگہ اہل ایمان کو مخاطب کر کے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی تعمیل و اطاعت کا حکم ایک خاص انداز سے دیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ تمہیں جس چیز کی دعوت دیتے ہیں اس میں اللہ اور اس کے رسول کا اپنا کوئی فائدہ نہیں بلکہ سب احکام تمہارے ہی فائدے کے لئے دیئے گئے ہیں۔ وہ ” حیات “ جس کا ذکر اس آیت میں ہے کیا ہے ؟ اس میں کئی احتمال ہیں اسلئے علمائے تفسیر نے مختلف قول اختیار کئے ہیں کہا گیا ہے کہ وہ حیات بخش چیز ” ایمان “ ہے کیونکہ کافر مردہ ہے۔ (سدی) وہ ” قرآن کریم “ ہے جس میں انسان کی دنیا و آخرت کی زندگی اور فلاح مضمر ہے۔ (قتادہ) وہ قول حق ہے۔ (مجاہد) اس سے مراد ” جہاد “ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عزت بخشی۔ (ابن اسحٰق) پھر یہ سب احتمالات اپنی اپنی جگہ بالکل صحیح اور درست ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں اس لئے کہ ” ایمان “ ” کتاب اللہ “ ” قول حق “ اور ” جہاد “ وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کا دل زندہ ہوتا ہے اور دل کی زندگی یہ ہے کہ بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو غفلت وشہوت وغیرہ کے حجابات حائل ہیں وہ راہ سے ہٹ جائیں اور حجابات کی ” ظلمت “ دور ہو کر ” نورمعرفت “ دل میں جگہ پالے اور یہی اصل ” زندگی “ یعنی ” حیات “ ہے ۔ (تھانوی (رح) یعنی حالت موت سے نکال کر زندگی کی حالت میں لاتا تھا۔ (تفہیم القرآن جلد اول) قرآن کریم نے دوسری جگہ ” قصاص “ کو بھی ” زندگی “ یعنی ” حیات “ قرار دیا ۔ (البقرہ 2 (179) قرآن کریم نے ایک جگہ ” اسلام “ کو ” زندگی “ اور ” جاہلیت “ کو ” موت “ قرار دیا ہے۔ (الانفال 8 : 42) قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا کہ وہ شخص بسبب کفر کے مردہ تھا ، ہم نے اسے مؤمن یعنی زندہ بنا دیا۔ (الانعام 6 : 123) قرآن کریم نے ایک جگہ ” قتل ناحق “ سے بچانے کو ” زندگی “ یعنی ” حیات “ قرار دیا ہے۔ (المائدہ 5 : 32) عروۃ الوثقیٰ جلد ہذا اور سورة ہذا کی آیت 32 کی تفسیر ملاحظہ کریں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) سے بنی اسرائیل کے شر کو روکنے کا احسان : 256: ” اور جب ایسا ہوا تھا کہ میں نے بنی اسرائیل کا شر جو وہ تمہارے خلاف کر رہے تھے روک دیا تھا۔ “ بنی اسرائیل کے گروہ یہود نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف کئی قسم کے شر پھیلا رکھے تھے ۔ وہ سیدہ مریم کے ساتھ بہت عقیدت رکھتے تھے لیکن جو نہی انہوں نے بنی اسرائیل کے اسلام کی تقریری اور عملی تردید کی اور خصوصاٍ منذورہ ہونے کے باوجود احکام الٰہی کی حفاظت کرتے ہوئے ” کفالت ثانی “ یعنی عقد کی زندگی اختیار کی تو وہ یکایک خلاف ہوگئے اور انہوں نے سیدہ مریم پر طرح طرح کے الزام لگائے اور کئی ایک طریقوں سے تنگ کرنے کی کوشش کی پھر انہوں نے سیدہ مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” صحیح النسب ‘ ‘ انسان تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ان کا سب سے بڑا شر یہ ہوا کہ وہ آپ کی پیدائش کے وقت سے آپ کے قتل کے درپے ہوگئے اور ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا چناچہ تحریر ہے کہ ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تو اس شب میں فارس کے بادشاہ نے آسمان پر ایک نیا ستارہ روشن دیکھا۔ بادشاہ نے درباریوں ، نجومیوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس ستارہ کا طلوع کسی عظیم الشان ہستی کی پیدائش کی خبر دیتا ہے جو ملک شام میں پیدا ہوئی ہے تب بادشاہ نے خوشبوؤں کے عمدہ تحفے دے کر ایک وفد کو ملک شام روانہ کیا کہ وہ اس بچہ کی ولادت سے متعلق حالات و واقعات معلوم کریں۔ وفد جب شام پہنچا تو اس نے تفتیش حال شروع کی اور یہودیوں سے کہا کہ ہم اس کو بچہ کی ولادت کا حال سناؤ جو مستقبل قریب میں روحانت کا بادشاہ ثابت ہوگا ۔ یہود نے ابن فارس کی زبان سے یہ کلمات سنے تو اپنے بادشاہ ہیرودیس کو خبر کی۔ بادشاہ نے وفد کو دربار میں بلا کر استصواب حال کیا اور ان کی زبانی واقعہ کو سن کر بہت گھبرایا اور پھر وفد کو اجازت دی کہ وہ اس بچہ کے متعلق مزید معلومات حاصل کریں۔ پارسیوں کا یہ وفدبیت المقدس پہنچا اور جب حضرت یسوع (علیہ السلام) کو دیکھا تو اپنے رسم و رواج کے مطابق اول ان کو سجدہ تعظیم کیا اور پھر مختلف قسم کی خوشبوئیں ان پر نثار کیں اور چند روز وہیں قیام کیا ۔ دوران قیام میں وفد کے بعض آدمیوں نے خواب میں دیکھا کہ ہیرودیس اس بچہ کا دشمن ثابت ہوگا اس لئے تم اس کے پاس نہ جاؤ اور بیت اللحم سے سیدھے فارس کو چلے جاؤ صبح کو وفد نے فارس کا ارادہ کرتے وقت حضرت مریم (علیہما السلام) کو اپنا خواب سناتے ہوئے کہا کہ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہودیہ کے بادشاہ ہیرودیس کی نیت خراب ہے اور وہ اس مقدس بچہ کا دشمن ہے اسلئے بہتر یہ ہے کہ تم اسکو ایسی جگہ لے جاؤ جو اس بادشاہ کی دسترس سے باہر ہو ۔ اس مشورہ کے بعد حضرت مریم (علیہ السلام) یسوع مسیح کو اپنے بعض عزیزوں کے پا س مصر لے گئیں اور وہاں سے ناصرہ چلی گئیں اور جب حضرت عیسیٰ کی عمر تیرہ برس کی ہوئی تو ان کو ساتھ لے کر دوبارہ بیت المقدس آئیں۔ (تاریخ ابن کثیر ج 2 ص 77 اور انجیل متی باب 2) یہود کا یہ شر برابر چلتا رہا ، انہوں نے سیدہ مریم اور اس کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے سینکڑوں جتن کئے کہ وہ کسی صورت پکڑے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی خاص حفاظت فرمائی اور ہر طرح سے ان کو اپنی امان میں رکھا تاآنکہ آپ نبی و رسول بنائے گئے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام ایک مدت تک بنی اسرائیل کو پہنچاتے رہے۔ مشکل اوقات میں جنگلوں اور بیابانوں میں بھی وقت گزارا اور اپنی طبعی وفات سے اٹھا لئے جانے تک محفوظ رہے۔ زیر نظر آیت کے اس ٹکڑے میں اس احسان کا ذکر فرمایا تاکہ ساری مخلوقات کے سامنے ان لوگوں کا منہ کالا ہو جنہوں نے یہ بات کہی کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا قرآن کریم نے کہا کہ ” یقیناً یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا۔ “ مزید تفصیل دیکھنے کے لئے عروۃ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة النساء کی آیت 157 کو نگاہ میں رکھیں وہاں اسکی مزید تفصیل مل جائے گی ۔ ان آیات میں مسیح (علیہ السلام) پر کئے گئے انعامات میں سے چھ انعامات و احسانات کا ذکر یہاں کیا گیا۔ بنی اسرائیل نے واضح دلائل و نشانات نبوت دیکھ کر بھی آپ کو جادو گر قراردیا : 257: سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے وہ دلائل و نشانات نبوت جن کا ذکر پچھلی آیات میں گزر چکا جو اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات کی صورت میں بیان ہوئے اور جن کی تفصیل عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی 49 ، 50 آیات میں گذر چکی ان کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ بنی اسرائیل ایمان لے آتے اور آپ کا پیچھا چھوڑ دیتے جو وہ پیدائش کے فوراً بعد ہی سے کر رہے تھے انہوں نے مزید غلط قدم اٹھانے کا تہیہ کیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک ” جادو گر “ قرار دے دیا ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کی نبوت کے یہ نشانات دیکھ کر جو لوگ ایمان لائے تھے وہ ایمان کو ترک کردیں۔ لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اس طرح کی مخالفت کے باوجود کچھ لوگ صحیح معنوں میں ایمان لا کر ان کے ممدو معاون ہوگئے تو اب مخالفین کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیں چناچہ انہوں نے جو شوشہ چھوڑا وہ وہی تھا جو ان کی قوم کے لوگ پچھے سے چھوڑتے چلے آرہے تھے کہ عیسیٰ سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ وہ ایک جادوگر ہے۔ کوئی پوچھے کہ وہ کونسی چیز ہے جس کو تم جادو قرار دیتے ہو ؟ وہی باتیں جن کو قرآن کریم نے ” ایک بینات “ سے تعبیر کیا ہے یعنی روشن دلائل نبوت لیکن ان کی بلا سے جب ان کو ایک چیز تسلیم ہی نہیں کرنا ہے اور نہ ماننے کی جب قسم اٹھالی جائے تو پھر اس کو وہ کچھ کہے ۔ ہاں ! اس معاملہ میں انہوں نے وہی کچھ کہا جو ان کے بزرگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) ، ہاروں (علیہ السلام) ، داؤد (علیہ السلام) ٖ سلیمان (علیہ السلام) اور یونس (علیہ السلام) کے متعلق کہا ہے اور یہ الزام وہ کونسا نبی و رسول ہے جس کو نہیں دیا گیا کہ ” وہ جادور گر ہے “ ” اس پر جادو کیا گیا ہے “ ” اس نے یہ سب کچھ اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے “ ” اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے “ اس کو بزرگوں کی مار لگ گئی ہے “ ” وہ مجنون و پاگل ہے “ ” وہ شاعر ہے “ اور یہ باتیں ایک ہی قبیل کی ہیں اور ایک جیسا مفہوم اپنے اندر رکھتی ہیں ۔ حاشاء للہ کہ کوئی نبی و رسول ایسا ہو۔ کہاں رسالت اور کہاں جادو گری و کہانت مگر نہ ماننے والوں کو جب نہ ماننے کی کوئی دلیل نظر نہ آئے تو آخر الامروہ ایسی بات ہی کرتے ہیں جس کو سن کر لوگ ان سے متنفر ہوں کیونکہ سنی سنائی ہوئی زمانے میں زیادہ چلتی ہے اور عقل و فکر اور سمجھ سوچ سے کام لینے والے بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں۔ پھر جن کو علم دین کا ہیضہ ہوچکا ہو وہ عقل کی گولی کھانے کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتے بلکہ اس کو اپنی موت سمجھتے ہیں اور عقل سے وہ اس طرح بھاگتے ہیں جیسے ” باولا ‘ ‘ پانی سے بھاگتا ہے حالانکہ کتاب و سنت سراسر ” عقل کا مل “ ہے۔
Top