Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور جب میں نے حواریوں (مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والی جماعت) پر الہام کیا تھا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ انہوں نے کہا تھا ہم ایمان لائے اور اے اللہ ! تو گواہ رہیو کہ ہم مسلم ہیں
عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کو فطری الہام کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ : 258: نبی و رسول بلاشبہ ملہم ہوتا ہے لیکن ہر ملہم نبی و رسول نہیں ہوتا ۔ یہ اس طرح ہے جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ دودھ بلاشبہ سفید ہوتا ہے لیکن ہر سفید چیز دودھ نہیں ہوتی۔ وحی والہام کی کئی اقسام ہیں جن میں سے بعض اصناف انبیائے کرام اور رسل عظام کیلئے خاص تھیں لیکن بعض وہ بھی ہیں جو جانوروں ، پرندوں ، چرندوں ، درندوں ، حیوانوں اور شہد کی مکھیوں تک کے لئے خاص ہیں۔ انہی میں سے وہ فطری الہام بھی ہے جو نباتات و جمادات تک کو ہوتا ہے ۔ پھر یہ فطری الہام آخر انسانوں کو کیوں نہیں ہو سکتا ؟ یقیناً ہوتا رہا ہے ، ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا اس طرز کا وہ الہام تھا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں کو ہوا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کے ذریعہ سے جو باتیں ان لوگوں تک پہنچائی گئیں انہیں کو اس جگہ الہام سے موسوم کیا گیا ہو۔ بعض مفسرین نے ان حواریوں کو نبی بھی تسلیم کیا ہے لیکن اس تفہیم کا مدار اسلامی روایات کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کا ماخذ کچھ اور ہی ہوگا۔ یہ خواہ کون تھے ؟ اور ان کو حواری کیوں کہا گیا ؟ حواری ” حور “ سے ہے جس کے معنی لغت میں سفیدی کے ہیں اصطلاح میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخلص ساتھیوں کو ان کے اخلاص اور صفائی قلب کی بناء پر کہا گیا ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ سفید کپڑے پہنتے تھے اس لئے ان کو حواری کے لفظ سے یاد کیا گیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ کپڑے دھونے والی دھوبی یا مچھلیاں پکڑنے والے مچھیرے تھے اور ازیں بعد یہ لفظ مطلق مددگار کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کا کوئی حواری یعنی مخلص ساتھی ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ؓ ہیں۔ (تفسیر قرطبی) مختصر یہ کہ لوگ وہی تھے جنہوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پر لبیک کہا بلاشبہ وہ قوم بنی اسرائیل ہی کے آدمی تھے جو بعد میں نصاریٰ کہلائے پیشہ کے لحاظ سے وہ کسی پیشہ سے منسلک ہوں یا مختلف پیشوں کے لوگ ان کی تعداد کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ 12 تھے۔ عجیب اتفاق ہے کہ چار ، تین ، پانچ ، سات گیارہ اور بارہ کے اعداد وہ ہیں جوہر قوم میں کسی نہ کسی رنگ میں موجود رہے اور آج بھی یہ غدار قوم مسلم میں اپیی ایک حیثیت رکھتے ہیں جو مختلف مکاتب ہائے فکر میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اگرچہ کوئی عدد زیادہ استعمال ہوتا ہے اور کوئی کم۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا یا ان حواریوں کو فطری الہام ہوا جس کی نسبت دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاسکتی ہے فرمایا ان کو ایمان کی دعوت پیش کی گئی ہے تو انہوں نے کہا تھا ” ہم ایمان لائے اور اے اللہ ! تو گواہ رہیو کہ ہم مسلم ہیں۔ “ اس سے یہ معلوم ہوا کہ تمام انبیائے کرام کا دین جس کا وہ دعوت دیتے رہے وہ ” اسلام “ ہی تھا ۔ یہ کوئی نیا دین نہیں ہے جو پہلے دینوں سے الگ ہو بلکہ انہیں کی ایک کامل ، توانا اور حسین صورت ہے۔ جس کی تکمیل نبی اعظم و آخر ﷺ پر کی گئی ۔ مزید تفصیل دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة آل عمران کی آیت 54 ، 55 ملاحظہ فرمائیں۔ اس جگہ دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں ایک یہ کہ ان حواریوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن مریم “ ہی کی کنیت سے یاد کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ یہود کی دشمنی کا اصل سبب اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے اس لئے یہود کے منہ پر طمانچہ لگاتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ” ابن اللہ “ ” اللہ “ یا ” اللہ کا تیسرا حصہ “ کے ناموں سے نہیں بلایا جاتا تھا بلکہ یہ ان کے بہت بعد میں نام رکھے گئے جو یہود کی ضد میں نصاریٰ نے رکھے تھے اور یہی ان کی اصل میں ” افراط “ تھی جس کا ذکر جگہ جگہ قرآن کریم میں کیا گیا۔
Top