Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواری (جمع) يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم هَلْ : کیا يَسْتَطِيْعُ : کرسکتا ہے رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ : کہ وہ يُّنَزِّلَ : اتارے عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان قَالَ : اس نے کہا اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور دیکھو جب حواریوں نے کہا تھا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کیا تمہارا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ آسمانوں سے ہم پر ایک خوان اتار دے ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ، اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو
حواریوں کا سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایک لا یعنی سوال کا ذکر : 259: یہ وہی حواری تھے جو سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے تھے یا ان کے بعد نئے آنے والے لوگ تھے ؟ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا لیکن میرا انشراح اسی میں ہے کہ یہ بعد میں ایمان لانے والے نئے لوگ تھے جو دوسروں کی دیکھا دیکھی اس دعوت کے ساتھ منسلک ہوگئے تھے اور ذہن کے پختہ نہ تھے اس لئے جو ان کے منہ میں آیا انہوں نے کہہ دیا سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی بلکہ سوال کرنے کے شوق میں بڑی سادگی کے ساتھ کہنے لگے کہ ” اے مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کیا تمہارا رب ایسا کرسکتا ہے کہ آسمانوں سے ہم پر ایک خوان اتار دے ؟ “ اگر یہ بات صحیح ہے کہ سوال خود سوال کرنے والے کا پتہ بتا دیتا ہے کہ یہ کس زمرہ کا آدمی ہے تو یقیناً ایسا سوال اٹھانے والوں کی حیثیت بھی یہ سوال خود متعین کررہا ہے کہ یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی ” آیاتہ بینات “ اور ” نشانات نبوت “ دیکھنے والے لوگ نہیں تھے بلکہ یہ ناپختہ ذہن کے لوگ تھے اس لئے وہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے مدنی زندگی میں ایسا سوال کر رہے تھے جو ان حالات میں ان کے کرنے کا نہ تھا بلکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے ” من وسلوی “ نازل کیا اور چونکہ وہ ایک نبی پر ایمان لائے تھے اس لئے ان کے شوق نے ” مائدہ نازل “ ہونے کی اپیل کردی اور ان کو یاد نہ رہا کہ اس کا تعلق بیابان کی زندگی سے ہے جہاں زمین کی پیداوار میں سے اناج وغلہ حاصل ہونے کی کوئی صورت نہ ہو پھر جہاں زندگی کی ساری آسائشیں موجود ہوں وہی دراصل ” مائدہ “ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کا نازل کردہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہا سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہ ” اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ “ گویا جو انہوں نے بات کہی وہ ان کے ایمان کی ناپختگی کی نشانی تھی۔ بلاشبہ اپنی ہر طلب اللہ تعالیٰ سے مانگی جاسکتی ہے بلکہ مانگنی چاہئے لیکن مانگنے کا طریقہ بھی سیکھنا چاہئے یہ کیا ہوا کہ ” اے اللہ ! اگر تو مجھے بخشنا چاہتا ہے تو بخش دے۔ “ ” اے اللہ اگر تو مجھے روزی دینا چاہتا ہے تودے دے۔ “ ” اے اللہ ! اگر تو بھلائی کرسکتا ہے تو میرے کر دے۔ “ ایسے الفاظ کو کون کہے گا کہ یہ طلب کا مانگنا ہے۔ اس کو شک و گمان تو کہہ سکتے ہیں لیکن ایمان و ایقان نہیں کہہ سکتے۔ ہاں ! ایمان کی نفی کرنے کے بجائے ایمان کی ناپختگی کہا جاسکتا ہے چونکہ وہ نئے نئے اس دعوت سے منسلک ہونے والے تھے اس لئے انہوں نے بلا ضرورت سوال کیا اور پھر سوال کرتے وقت انداز سوال بھی صحیح اختیار نہ کرسکے۔ “ کیا تمہارا پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ آسمانوں سے ہم پر ایک خوان اتاردے ؟ “ پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) کے جواب کو انہوں نے سنا تو وہ اس طرح گویا ہوئے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
Top