Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 118
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنْ : اگر تُعَذِّبْهُمْ : تو انہیں عذاب دے فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عِبَادُكَ : تیرے بندے وَاِنْ : اور اگر تَغْفِرْ : تو بخشدے لَهُمْ : ان کو فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اَنْتَ : تو الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اگر تو ان لوگوں کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو توُ سب پر غالب اور حکمت رکھنے والا ہے
عیسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دینے کے بعد اپنی طرف سے دبے لفظوں میں اپیل دائر کردی : 268: جس طرح ہمارے نبی کریم ﷺ رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے پوری کائنات کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے اسی طرح ہر نبی اپنی قوم کے لئے رحمت الٰہی تھا۔ یہی بات سیدنا مسیح (علیہ السلام) سے معرض وجود میں آئی پوری قوم بلکہ دنیائے انسانیت کے سامنے کئے گئے سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب پیش کہ نے کے بعد اس قوم کے لئے جس نے ساری زندگی آپ کو تنگ رکھا اور آپ کو اٹھائے جانے کے بعد الٰہ و معبود بنا لیا۔ ان ساری زیادتیوں کے بعد آپ اللہ تعالیٰ سے اس قوم کے لئے اپیل دائر کرتے نظر آرہے ہیں فرمایا اے خدا ! میں نے جو کچھ قوم کو کہا تھا وہ میں نے تیری بارگاہ میں عرض کردیا اور میرے بعد جو کچھ انہوں نے کیا اس حقیقت حال سے بھی تو اچھی طرح واقف ہے میری گزارش اور میری اپیل تو یہ ہے کہ ” اگر تو ان لوگوں کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں۔ تجھے اختیار ہے اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو سب پر غالب اور حکمت رکھنے والا ہے۔ “ تیرا ارادہ سب پر حاکم و مقتدر لیکن اس کے ساتھ تو ” حکیم “ بھی ہے ۔ تیرا کوئی فیصلہ خلاف حکمت ہو نہیں سکتا تو کرے گا وہی جو تیرے آئین حکمت و مصلحت کے مطابق ہوگا میں ایک بندہ ہو کر اس میں دخل دینے والا کون ہوں ؟ کیا اندزا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کا جو انہوں نے اختیار فرمایا کہ اپنی طرف سے قوم کے لئے اپیل بھی دائر کردی اور اس کے فیصلے پر برضا ورغبت راضی رہنے کا عہد بھی کردیا۔
Top