Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 61
وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْتُمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب جَآءُوْكُمْ : تمہارے پاس آئیں قَالُوْٓا : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَقَدْ دَّخَلُوْا : حالانکہ وہ داخل ہوئے ( آئے) بِالْكُفْرِ : کفر کی حالت میں وَهُمْ : اور وہ قَدْ خَرَجُوْا : نکلے چلے گئے بِهٖ : اس (کفر) کے ساتھ وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو كَانُوْا : تھے يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور دیکھو جب یہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لیے ہوئے آئے تھے اور کفر لیے ہوئے واپس گئے اور وہ جو کچھ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اللہ اسے بہتر جاننے والا ہے
یہود کا مخصوص گروہ جو ایمان کا دعویٰ کرکے کفر کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں : 169: چونکہ یہ لوگ اپنی خواہش کے بندے ہیں اسلئے ان کو اپنا مؤقف بدلتے کوئی دیر نہیں لگتی۔ ان کو آپ ﷺ کے پاس فائدہ نظر آئے گا تو ایمان کا دعویٰ لے کر وہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوجائیں گے اور اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں کریں گے کہ گویا وہ آپ ﷺ کے شیدائی ہیں۔ فرمایا یہ ایک مخصوص قسم کا گروہ ہے یہ جب آپ ﷺ کی مجلسوں میں آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مومن تو ہم بھی ہیں خدا اور اس کے رسول اور کتاب پر ایمان ہے پھر آپ لوگ ہمیں مومن تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ یہ باتیں وہ اس ذہنی تحفظ کے ساتھ کہتے کہ اگر ہم محمد (a) اور ان کی پیش کردہ کتاب (قرآن کریم) کو نہیں مانتے تو اس سے کیا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے پیغمبر اور ہماری کتاب بھی تو اللہ ہی کے بھیجے ہوئے ہیں اور یہ ان کی شرارت تھی کہ کہتے کچھ تھے اور سمجھتے کچھ۔ عام مسلمان اس کی اس طرح کی باتوں سے دھوکے میں پڑتے اور ان سے ایک قسم کے حسن ظن میں مبتلا ہوجاتے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ان کی اس بات کو ” مخادعت “ سے تعبیر کیا ہے اور مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ دراصل وہ تمہارے پاس آئے تھے تو ان کے دلوں میں کفر چھپا تھا وہ تو صرف وقتی فائدہ تم سے حاصل کرنا چاہتے تھے وہ آئے تو کفر لے کر اور گئے تو کفر لے کر پھر جو کچھ ان کے دلوں کی تہ میں چھپا ہے تم اس کو نہیں جانتے لیکن اللہ اس کو اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ تم ان سے دھوکے مت کھاؤ اور ان کی باتوں میں نہ آؤ ۔ بلاشبہ یہ یہود کے ایک خاص گروہ کے اوصاف بیان کئے جا رہے ہیں اور قرآن کریم نے ان کی حالت کو کھول کھول کر اپنے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی امت کے سامنے رکھا ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ آپ ﷺ کی امت کے لوگ ان اوصاف سے پرہیز کریں اور اپنے اندر کسی اسے وصف کی بودباس آئے تو اس کو فوراً باہر نکال کر پھینکیں کیونکہ یہ وصف جس انسان میں بھی پایا جائے وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے کا حق دار نہیں ہوتا اگرچہ اس کی بظاہر شکل و صورت انسان کی سی نظر آئے لیکن اندر سے وہ انسان نہیں بلکہ حیوان ہی ہوں گے اور پھر حیوانوں میں سے بھی وہ حیوان جو بدتر اور بدتمیز ہیں۔ لیکن ہمارے علمائے کرام کی اکثریت نے یہود کے اس گروہ مخصوص کو بندر اور سور بنا کر تیسرے روز سب کو مار دیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اور لوگوں کو یہ باور کر ادیا کہ وہ یہود کا گروہ تھا جن کو بندر اور سوربنا کر تیسرے روز اللہ نے مار دیا تھا تاکہ ان کی نسلی باقی نہ رہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر اللہ نے یہ خاص رحمت فر مائی کہ ان کی امت کے لوگوں کی اب شکلیں مسخ نہ ہوں گی چاہے وہ اوصاف و کردار کے لحاظ سے یہود سے بھی بدتر کیوں نہ ہوجائیں۔ اگر وہ اوصاف کے بدلنے کو تسلیم کرلیتے تو چونکہ وصف کے لحاظ سے وہ خود بھی وہی کچھ ہوچکے تھے جو یہود ہوگئے تھے اس لئے وہ اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکتے تھے لہٰذا انہوں نے خود بدلنے کی بجائے قرآن کریم کے مفہوم کو بدل کر رکھ دیا اور حقیقت پر اس طرح پردہ ڈالا کہ اب جو اس سے پردہ اٹھائے گا وہ خود مطعون ہوگا۔
Top