Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 82
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَهُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ
لَتَجِدَنَّ : تم ضرور پاؤگے اَشَدَّ : سب سے زیادہ النَّاسِ : لوگ عَدَاوَةً : دشمنی لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اہل ایمان (مسلمانوں) کے لیے الْيَھُوْدَ : یہود وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا : اور جن لوگوں نے شرک کیا وَلَتَجِدَنَّ : اور البتہ ضرور پاؤگے اَقْرَبَهُمْ : سب سے زیادہ قریب مَّوَدَّةً : دوستی لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ان کے لیے جو ایمان لائے (مسلمان) الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰى : نصاری ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ مِنْهُمْ : ان سے قِسِّيْسِيْنَ : عالم وَرُهْبَانًا : اور درویش وَّاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : تکبر نہیں کرتے
تم ایمان والوں کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہودیوں کو پاؤ گے نیز مشرکوں کو اور ایمان والوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں ہم نصاریٰ ہیں اس لیے کہ ان میں پادری اور رہبان ہیں (یعنی عالم اور تارک دنیا فقیر) اس لیے بھی کہ ان میں گھمنڈ اور خود پرستی نہیں ہے
سچائی کی حدود سے باہر نکل جانے والے لوگ چاہیں جو کہیں وہ مادر پدر آزاد ہیں : 204: دنیا کی ہرچیز کے لئے کچھ حدود مقرر ہیں اور ان سے تجاوز کرنے والے ان کو اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں۔ سچائی کیلئے بھی کچھ حدود متعین ہیں۔ جس چیز کو جس بات کو دل چاہے ” سچ “ کہہ دیا جائے تو اس طرح وہ ” سچ “ نہیں ہوجاتا سچ ہی ہمیشہ سچ ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو بات یہود کے لئے ” سچ “ تھی وہ اہل اسلام کے لئے ” جھوٹ “ ہوجائے یا اہل کتاب کے لئے تو ” جھوٹ “ تھی لیکن اہل اسلام کے لئے وہ ” سچ “ ہوجائے ۔ مادرپدر آزاد لوگ جو کسی ضابطہ کے پابند نہیں چاہے جو کچھ کہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو بات اہل کتاب کے لئے ناجائز تھی اور اس سے ان کو روکا گیا تھا وہ اہل اسلام کے لئے کبھی جائز نہیں ہو سکتی۔ پورا زور لگائیں کبھی ایک بات بھی ایسی نہیں بتاسکیں گے ہاں ! ایسی بات وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خود سچائی کی حدود سے باہر ہوگئے ہوں اور پھر چونکہ ” ساون “ کے اندھے کو ہر اہی ہرا سوجھتا ہے “ اگرچہ ہر یا ول کا نام بھی موجود نہ ہو اور ہرچیز جل بھن رہی ہو اور یہی حال ان کا ہے جو یہ کہہ کر دل بہلا لیتے ہیں کہ یہ حکم تو یہود کے لئے یا بنی اسرائیل کیلئے ہے۔ اہل ایمان کی دشمنی میں پیش پیش وہی لوگ ہیں جو یہودی کہلاتے ہیں : 205: اہل اسلام سے مخالفت وعداوت تو ہر غیر مسلم کو ہے لیکن اس عموم میں مرتبہ خصوص اہل کتاب کے گروہ یہود اور مشرکین ہی کو حاصل ہے کہ وہ شدید ترین دشمنان اسلام ہیں کیوں ؟ اس لئے کہ یہی وہ گروہ ہے جو ” ہم چوما ددیگرے نیست “ کی ڈینگیں مارتا ہے۔ ان کو ناز ہے کہ ہم نبیوں اور بزرگوں کی اولاد ہیں ۔ ہمارا نصب دوسرے لوگوں سے بلند ہے اور حسب و نسب کے لحاظ سے جو بھی اپنے آپ کو بلند سمجھتا ہے وہ لازماً تکبر میں مبتلا ہوتا ہے اور دوسروں کو اپنے مقابلہ میں حقیر جانتا ہے اور ایک وجہ اس کی یہ بھی تھی کہ بنی اسرائیل ، بنی اسماعیل کو ویسے بھی حقیر سمجھتے تھے اور ان کی عداوت ان کی گھٹی میں پلائی گئی تھی۔ وہ روایتاً یہ سمجھتے تھے کہ بنو ہاجرہ کیا ہیں ؟ ایک باندی کی اولاد ہیں ہمارا ان کا مقابلہ کیا ؟ چونکہ نبی اعظم و آخر ﷺ بنی اسماعیل میں سے تھے اسلئے وہ قومی دشمنی بھی ان کے اندر خوب گھر کرچکی تھی وہ ” اہل اسلام “ کے نام ہی سے الرجک تھے۔ ان کا نام سنتے ہی ان کا خون کھول جاتا تھا۔ مشرکین مکہ چونکہ آپ کے اپنے خاندان کے لوگ تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہم ” بی ہاشم “ کے شریک اصل ہیں اور ہر کام میں بنی ہاشم سے آگے نکلنے کی ہم کوشش کرتے تھے اور آگے نکل جاتے تھے ۔ بنی ہاشم کے پاس ” حجاج “ کی دیکھ بھال کے سوا اور کیا ہے ؟ ان کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ جب بنی ہاشم میں سے ایک آدمی نے ” نبوت “ کا دعویٰ کردیا ہے تو اب آخر اس کے مقابلہ کی اور کیا شے ہے جس کو اختیار کر کے ہم ان سے آگے بڑھ سکتے ہیں گویا ان کو بھی وہی رقابت تھی جو بنی اسرائیل کو تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی یہ عداوت پرانی تھی اور مشرکین کی نئی اور تازہ تھی۔ ہاں بنی اسرائیل میں سے نصاریٰ چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے قائل تھے اور یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے نبوت تو ایک بہت بڑا بلند مرتبہ ہے وہ آپ کو صحیح النسب انسان بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے نصاریٰ کے ساتھ ان پہ چشمک موجود تھی یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل میں سے گروہ یہود کو اہل اسلام سے جو عداوت تھی وہی عداوت مشرکین مکہ کو بھی اہل اسلام سے تھی اور ان کے نظریات تقریباً ملتے جلتے تھے۔ پھر نظریاتی میل بھی ان عالمی علامات میں سے ایک علامت ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان یا ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے قریب کردیتی ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز ۔ کبوتر باکبوتر باز باباز اہل اسلام سے محبت میں کوئی دوسراقریب ہوگا تو وہ نصاریٰ ہی میں سے ہوگا : 206: آیت کے اس حصہ سے یہ بات اچھی طرح سمجھنا لینا چاہئے کہ گروہی تقسیم اتنی مضبوط اور پکی تقسیم ہے کہ اس کے مقابلہ میں باقی ساری تقسی میں ہیچ ہیں۔ مثلاً موجودہ حالت کو دیکھ لو کہ اسلام میں پہلی گروہی تقسم شیعہ و سنی کی تھی جو آج بھی ہے اور وہ کتنی مضبوط ہے کہ اس کے سامنے ساری تقسی میں کمزور پڑجاتی ہیں بلکہ کلی طور پر مٹ جاتی ہیں ۔ گجر ، جاٹ ، چوہدری اور میرا ثی کے سارے چر بےمانر پڑجاتے ہیں بلکہ بےنشان ہوجاتے ہیں ۔ غور کرو کہ شیعوں کے سینکڑوں فرقے ہیں اور سنیوں کے بھی بیسیوں سے بہر حال متجاوز ہیں پھر ہر فرقے کے اندر کچھ علاقائی اور خاندانی اور حسبی و نسبی تقسیمات ہیں لیکن یہ سب کچھ اس پہلی گروہ بندی کے سامنے ہوا ہوجاتی ہیں اور ان کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ یہی حال اس وقت تھا کہ ایک تقسیم بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے نام پر تھی اور اس کے بعد دوسری تقسیم یہود ونصاریٰ اور اہل اسلام اور مشرکین کی تھی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد سے چونکہ بنی اسرائیل دو مستقل گروہوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ یعنی یہو ونصاریٰ اور نبی رحمت ﷺ کے آمد سے بنی اسماعیل دو مستقل گروہوں میں تقسیم گروہوں میں تقسیم ہوگئے اہل اسلام اور مشرکین۔ قرآن کریم نے کتنی اصولی بات بتا دی کہ جس طرح بنی اسرائیل کے دوگروہوں میں سے یہود و نصاریٰ تھے اسی طرح بنی اسماعیل کے دو گروہوں میں اسلام اور مشرکین تھے۔ یہوداہل اسلام کے مقابلہ میں مشرکین سے محبت کا اظہار کرتے تھے اسی طرح نصاریٰ کا مشرکین کے مقابلہ میں اہل اسلام سے محبت کرنا فطری تھا اور یہی بیان کیا جا رہا ہے اور اس کو ہماری زبان میں ” ہم آہنگی “ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور اس ” ہم آہنگی “ کو قرآن کریم نے ” مودہ “ کے لفظ سے بیان کیا ہے اور یہ بات اس دلی دوستی اور راز داری کے خلاف نہیں ہے جس کو دوسری جگہ قرآن کریم نے منع فرمایا ہے۔ اسی مخالفت کا اپنا مقام ہے اور اس ہم ” آہنگی “ کا مقام اپنا ہے ۔ وہ کفر اسلام کے مقابلہ کے وقت ہے یہ کفر واسلام سے نیچے اتر کر دنیاوی ” ہم آہنگی “ کے مقابلہ کے وقت ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف ہم نے دوسرے کئی مقامات پر اشارہ کیا ہے کہ اس وقت یہود ونصاریٰ کا گٹھ جوڑ قومی یکجہتی کی بناء پر ہے اور یہ اس سے پہلے بھی کئی بار دیکھنے میں آچکا ہے کیونکہ وہ دونوں بنی اسرائیل سے ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ سارے کا سارا اسی بنیاد پر ہے اور یہود کو نصاریٰ کی ضرورت ہے جس کے تحت یہ اتحاد قائم ہے لیکن یہ فطری بات ہے کہ وہ وقت آئے گا کہ یہودونصاری کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے اور وہ نصاریٰ کو اس مخالفت کی نظر سے دیکھیں گے جس سے وہ پہلے کئی دفعہ دیکھ چکے ہیں اس وقت نصاریٰ کی آنکھ کھلے گی اور وہ اہل اسلام کی طرف ” ہم آہنگی “ کا ہاتھ بڑھائیں گے۔ اس آیت میں اہل اسلام کو بتایا گیا ہے کہ جب وہ ” ہم آہنگی “ کا ہاتھ بڑھائیں تو تم اپنے مقام پر قائم رہتے ہوئے مثبت جواب دینا اس لئے کہ یہی بات اسلام کی شان کے مطابق ہے ۔ رہا یہود کا معاملہ تو وہ جس سے تعلق قائم کرتے ہیں صرف خود غرضی کے لئے کرتے ہیں اس لئے کہ یہ بات ان کی گھٹی میں داخل ہوچکی ہے اور عادت کا بدلنا پہاڑ کا اپنی جگہ سے ٹل جانے سے بھی زیادہ وزنی ہے ۔ وہ جیب کا سانپ ہیں اور اس سے بڑھ کر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مفسرین نے اس جگہ نصاریٰ کے مختلف فرقوں کی عادات وخصائل کا ذکر کیا ہے اور ان کی دینی حالت کا بھی ایک دوسرے سے مقابلہ کیا ہے اور پھر یہ فیصلہ بھی دیا ہے کہ نصاریٰ کا کون کون سا فرقہ ہے جو مسلمانوں کی دوستی کے قابل ہے اور کون سا فرقہ ہے جو دوستی کے قابل نہیں لیکن یہ ساری باتیں قرآن کریں کے مزاج کے خلاف ہیں۔ اس نے جس دوستی سے منع کیا ہے وہ مخالفت آج بھی موجود ہے اور وہ کسی فرقہ سے بھی جائز نہیں اور جس ” ہم آہنگی “ کو جائز و درست قرار دیا ہے وہ ان خاص حالات اور حدود کے اندر سارے نصاریٰ کے فرقوں سے جائز و درست ہے۔ اس لئے بھی کہ قوموں کا عمومی مزاج ایک ہی جیسا ہوتا ہے اور اچھے یا برے انسان ہر قوم کے اندر موجود ہوتے ہیں لیکن وہ اس قومی تقسیم سے الگ نہیں متصور ہوتے۔
Top