Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 60
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِهِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ۠   ۧ
فَوَيْلٌ : پس ہلاکت ہے لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا مِنْ يَّوْمِهِمُ : ان کے اس دن سے الَّذِيْ : وہ جو يُوْعَدُوْنَ : وہ وعدہ کیے جاتے ہیں
پس منکرین حق کے لیے بڑی ہی خرابی ہوگی اس دن جس (دن) کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے
تعارف سورة (الطور) نام سورت اس سورت کا نام سورة الطور ہے اور یہ لفظ اس سورت کی پہلی آیت یا پہلا لفظ ہے یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اس لئے مکی کہلاتی ہے اس سورت میں 2 رکوع اور 49 آیات کریمات بیان کی گئی ہیں۔ سورت کا نزول نمبر 76 ہے۔ اور تریب موجودہ میں اس کا نمبر 52۔ اس سورت میں 312 کلمات اور 1500 حروف بیان کئے گئے ہیں لیکن جیسا کہ ہم پہلے کئی بار کہہ چکے ان کو ہم نے خود شمار نہیں کیا بلکہ گزشتہ تحریرات پر انحصار کیا ہے۔ یہ سورت سورة الذاریات سے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی تاہم مکی ہونے کے باعث اس کے مضامین مکی سورتوں ہی سے ملتے جلتے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ مکی سورتوں میں توحید الٰہی کا بیان ہے اور اس کے ساتھ منکرین قیامت کو قیامت کے دن کی یقین دہانی کرائی گئی ہے اور اس موضوع پر ان کو دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ موضوع سورت جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ کفار مکہ قیامت کا نہایت سختی سے انکار کرتے تھے اور نبی اعظم و آخر ﷺ کو اس معاملہ میں جھٹلاتے تھے اور اس طرح چونکہ قرآن کریم میں اس کے اثبات کے دلائل تھے لہٰذا وہ قرآن کریم پر معترض تھے اور برملا کہتے تھے یہ محمد ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے اور یہ اللہ کا کلام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کی دلائل سے تردید کی ہے اور ساتھ ہی نبی اعظم و آخر ﷺ کو تاکید کی ہے کہ یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ان کو کہنے دیں اور آپ ﷺ اپنا کام ثابت قدمی سے جاری رکھیں اور سمجھ لیں کہ ان کی یہ باتیں ہم اچھی طرح سن رہے ہیں اور اس سورت کا خلاصہ مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ : آیت اسے آیت 28 تک بتایا گیا ہے کہ قیامت آئے گی اور اس بات کو قسم سے موکد کیا گیا ہے جیسا کہ گزشتہ سورت الذاریات میں موکد کیا گیا تھا اور ان کو کہا گیا ہے کہ قیامت آئے گی اور تم لوگوں کو ہزار ہا سال گزرنے کے بعد بھی اسی طرح اٹھا کر کھڑا کردیا جائے گا جیسے تم لوگ ابھی سوئے ہی تھے اور پھر تم کو میدان حشر میں لا کر کھڑا کردیا جائے گا اور اس جگہ ان کی دنیوی زندگی کے متعلق دریافت کیا جائے گا اور پھر ان سے استغفار بھی کیا جائے گا کہ کیا یہ وہی دن نہیں ہے جس کا تم کو وعدہ دیا جاتا تھا اور تم اس کا مسلسل انکار کرتے جاتے تھے ؟ اگر کوئی شخص کسی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو کیا وہ حقیقت حقیقت نہیں رہتی ؟ تم اگر ایک سچائی کو قبول نہ کرو تو تمہارے قبول نہ کرنے کے باعث وہ حقیقت جھوٹ میں بدل جائے گی ؟ پھر منکرین اور متبعین کو جو قیامت کے روز پیش آنے والا ہے اس کی وضاحت بیان کی گئی ہے تاکہ اگر کوئی غور و فکر کرنا چاہتا ہے تو کرلے کہ ابھی ان کے لئے مہلت باقی ہے۔ آیت 21 میں ایک پختہ اصول کا اعلان کیا گیا ہے کہ اچھی طرح سن لو اور یاد رکھو کہ جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے۔ جو بوئو گے وہی کاٹو گے۔ پھر آیت 29 سے آیت 49 تک نبی اعظم و آخر ﷺ کی رسالت کے منکرین اور اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں کو مخاطب کیا گیا ہے وار ان کو وعیدیں سنائی گئی ہیں اور ان کے جھٹلانے کے انجام سے ان کو خبردار کیا گیا ہے ۔ کفار سے کہا گیا ہے کہ جب تم کو توحید الٰہی کے دلائل دیئے جاتے ہیں تو ان کو سننے کی بجائے تم شورو غوغا شروع کردیتے ہو اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا تمہارا کوئی خالق نہیں ؟ کیا تم پیدا ہی نہیں کئے گئے ؟ کیا اس آسمان و زمین میں تمہارا اور تمہارے وڈیروں کا کوئی حصہ ہے اور اس کے بعد نبی اعظم و آخر ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ لا علاج مریض ہیں تاہم آپ ان کا علاج کرتے چلیں کون ان میں صحت یاب ہوتا ہے اور کون ابدی نیند سو کر جہنم واصل ہوجاتا ہے اور اسی پر سورت کا مضمون ختم کردیا گیا ہے۔
Top