Tafseer-e-Saadi - Ash-Shu'araa : 83
اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ وَ لَكُمُ الْبَنُوْنَؕ
اَمْ لَهُ الْبَنٰتُ : یا اس کے لیے ہیں بیٹیاں وَلَكُمُ الْبَنُوْنَ : اور تمہارے لیے ہیں بیٹے
کیا اس (اللہ) کیلئے بیٹیاں ہیں اور تمہارے لیے بیٹے ؟
کیا اللہ کے لئے بیٹیاں اور تمہارے لئے بیٹے ہیں ؟ یہ بات بھی تم نے آسمان ہی سے سنی ہے۔ 39۔ اہل مکہ نے قومی نظریہ کے طور پر یہ تسلیم کر رکھا تھا کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور چونکہ بیٹی کی سفارش کو ان کے معاشرہ میں بھی آج کل کے معاشرہ کی طرح بہت ہی اہمیت دی جاتی تھی اس لئے ان کے اس نظریہ کا ماحصل بھی یہی تھا کہ جب اللہ تعالیٰ کی یہ بیٹیاں ہماری سفارش ٹھہریں تو پھر نجات یافتہ نہ ہونے کا کیا سوال پیدا ہو سکتا ہے جب ہم انسانوں کے ہاں بیٹی کی سفارش کی اتنی اہمیت ہے تو وہ بذاتہ رب اور الہ ہے اس کی بیٹی کی سفارش تو اور بھی متاثر ہوگی اور اس طرح ہمارا کام بن جائے گا اور ہم نے اس دنیا میں خواہ کچھ ہی کیوں نہ کیا ہوگا وہ سب کا سب ہوا ہوجائے گا۔ ان پر قرآن کریم میں بار بار اظہار تعجب کیا گیا ہے اور ان کو شرم و عار بھی دلائی گئی ہے کہ تم عجیب لوگ ہو کہ اگر تم کو بیٹی کی خبر مل جائے تو تمہارا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور تم لوگوں سے چھپتے پھرتے ہو کہ کہیں ہم کو دیکھ نہ لیں اور تمہاری شرمندگی کا یہ عالم ہے کہ اس حالت سے بچنے کیلئے تم اپنے ہاتھوں اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے ہو اور تب تم کو چین آتا ہے لیکن جب اللہ کے ذمہ تم نے اولاد لگائی ہے تو وہ بھی بیٹیاں ہی لگائی ہیں گویا جو چیز تم کو ناپسند ہے وہی اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور ان کو اس طرح مخاطب کر کے دراصل ان کو بغیر دلیل بات کنے کے باعث ملامت کی جا رہی ہے کہ کتنے ڈھیٹ ہو کہ تم کو بات کرتے وقت بھی ذرا شرم نہیں آئی۔ اس کی وضاحت غزوہ قوتی جلد پنجم سورة النحل کی آیت 57 اور جلد ششم سورة الصافات کی آیت 149 ‘ 152 میں کردی گئی ہے وہاں سے ملاحظہ کریں۔
Top