Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى
: البتہ تحقیق اس نے دیکھیں
مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ
: اپنے رب کی نشانیوں میں سے
الْكُبْرٰى
: بڑی بڑی
یقینا اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
یقینا آپ ﷺ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں 18 ؎ نبی اعظم و آخر ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ اس رات میں آپ ﷺ کا سفر مکہ سے شروع اور پلک زون سے پہلے مسجد اقصیٰ میں تھے۔ آپ ﷺ کا یہ سفر براق پر تھا۔ بیت المقدس سے آپ ﷺ آسمان اول ‘ دوم ‘ سوم ‘ چہارم ‘ پنجم ‘ ششم اور ہفتم پر پہنچے۔ یہ سفر جبریل علہم السلام کی معیت میں کیا گیا۔ آسمان اول سے ہفتم تک ہر آسمان پر قدم رکھنے سے پہلے پوچھا گیا کہ کون ؟ پوچھنے والوں کو محمد رسول اللہ ﷺ کا نام لے کر بتایا گیا۔ کیا آپ ﷺ بلائے گئے ؟ اس کی تصدیق ہر بار کی گئی کہ ہاں ! بلائے گئے ہیں۔ آسمانوں پر گزشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) میں سے بعض سے آپ ﷺ کی ملاقات کرائی گئی۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) سے علیک سلیک اور سلام دعا ہوئی۔ آپ ﷺ عرش بریں کے قریب تک گئے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی قران کریم اترتا ہوا دکھایا گیا۔ یہ مقام وہ آخری مقام تھا جہاں تک انسان کے علم کی رسائی ممکن ہے اس کو افق اعلیٰ کا نام دیا گیا۔ پھر قرب اور بڑھا اتنا کہ آپ ﷺ اس طرح قریب ہوگئے کہ تجلی الٰہی نے آپ ﷺ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر وہاں جو پروگرام پیش کرنے کے لئے یہ بحفاظت سفر کرایا گیا وہ پروگرام رب ذوالجلال والاکرام نے پیش کیا اور آپ ﷺ نے اس کو وصول کیا۔ اللہ رب کریم کی ذات دیکھی جانے والی نہیں ہے اس لئے جس نے اللہ کے دیکھنے کا کہا اس کی تفہیم صحیح نہ ہوئی لیکن آپ ﷺ نے یہ تمام نشانیاں ان مرئی آنکھوں سے دیکھیں پھر (سدرۃ المنتہیٰ ) کو دیکھا اور اس کے بالکل قریب (جنت الماویٰ ) آپ ﷺ کو دکھائی گئی۔ جنت دکھائی گئی۔ دوزخ دکھائی گئی ‘ جنتی لوگ دکھائے گئے۔ دوزخیوں کو مختلف عذابوں میں مبتلا آپ ﷺ نے دیکھا۔ جو دیکھا بہت غور سے دیکھا۔ ہر مقام پر آپ ﷺ چاک و چوبند رہے ‘ کسی مقام پر بھی آپ ﷺ کو کوئی گھبراہٹ نہ ہوئی۔ پھر جو کچھ دیکھا اور جو پروگرام آپ ﷺ کو دیا گیا سب آپ ﷺ نے من و عن یاد رکھا اور اس میں کسی طرح کی کوئی کمی بیشی نہ ہوئی۔ آپ ﷺ کو وہاں دودھ اور شراب پیش کئے گئے آپ ﷺ نے دودھ کو پسند کیا اس میں گویا آپ ﷺ نے فطرت کو پسند کیا۔ آپ ﷺ نے وہاں چار نہریں دیکھیں جن میں دو ظاہری اور دو باطنی تھیں۔ ظاہری نہریں نیل و فرات تھے اس طرح گویا آپ ﷺ کو اشارہ دے دیا گیا کہ ان دونوں دریائوں کے درمیان آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پھیلے گی اور لوگ نسلاً بعد نسبل مسلمان ہوں گے۔ آپ ﷺ نے داروغہ جہنم کو بھی دیکھا جس کا نام غالباً مالک ہے جس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت کے آثار بالکل نہیں تھے۔ آپ ﷺ کو وہ لوگ بھی دکھائے گئے جنہوں نے یتیموں کا مال ہڑپ کیا ‘ جن کے ہونٹ ہونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان کے مونہوں میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگارے ڈالے جا رہے تھے جو دوسری طرف سے اسی طرح نکلتے بھی دکھائے گئے ۔ آپ ﷺ نے سود کھانے والوں کو بھی دیکھا کہ ان کے پیٹ اتنے اتنے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ فرعون کے لوگ بھی آگ میں دکھائے گئے۔ آپ ﷺ نے زناکاروں کو اور ان کی سزا کو بھی دیکھا کہ ان کے پاس تازہ اور فربہ گوشت تھا اور دوسری طرف سڑے ہوئے چھپھڑے تھے لیکن وہ فربہ گوشت کو چھوڑ کر چھچھڑوں کو کھا رہے تھے۔ آپ ﷺ نے ان عورتوں کو بھی دیکھا جو بدکاری سے نسل کو خراب کرنے والی تھیں۔ ان کے جسموں میں بڑے بڑے لوہے کے تکے کانٹوں کی طرح چبھوئے جا رہے تھے۔ خیال رہے کہ یہ بحث کہ یہ سفر جسمانی تھا یا روحانی اس میں بہت کچھ کہا سنا گیا ہے لیکن صاف سیدھی اور سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بحث قطعاً غلط ہے اس لئے کہ رئویاء میں جسم بالکل ساتھ ہوتا ہے اور وہ اجسام ہی ہوتے ہیں جو دکھائے جاتے ہیں اور وہ آنکھیں جسم کی آنکھیں ہوتی ہیں جو یہ سب کچھ دیکھتی ہیں اگرچہ وہ جسم مثالی جسم ہوتا ہے جو ہر ایک انسان کا موجود ہے اور ہر انسان کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں لیکن انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جو کچھ پیش آتا ہے یہ ان کی خصوصیات سے ہوتا ہے جو لاریب حق ہوتا ہے اور اس میں ایک ذرہ برابر بھی ذہنی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ بحث بالکل ناکارہ بحث ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے جو کچھ دیکھا اس کے استعارات و اشارات قرآن کریم میں بیان کئے گئے ان کی وضاحت احادیث میں موجود ہے جب رسول اللہ ﷺ نے صبح کی اور اپنی قوم کو ان بڑی بڑی نشانیوں کو ان الفاظ میں خبر دی جن الفاظ کا ذکر سورة النجم کی ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے تو قوم کے لوگوں نے ان باتوں کو تکذیب کی اور آپ ﷺ کی اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو اذیت اور ضرر رسانی میں مزید اضافہ کردیا کہ دیکھو جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ کس قدر صحیح نکلا اور ہم نے جو کہا تھا کہ محمد ﷺ کو جنون ہوگیا ہے کیا اب کسی کو کوئی شک رہ گیا۔ دیکھو اب تو وہ زمین کی باتیں نہیں بلکہ آسمان کی باتیں کرنے لگا۔ اگر اس کو آسمانوں پر چڑھنا آتا ہے تو ہمارے سامنے آسمانوں پر چڑھے تاکہ ہم بھی اس کو چڑھتا دیکھیں اور پھر یہاں سے خالی ہاتھ جائے اور وہاں سے ایک لکھی ہوئی کتاب لے آئے جس کو ہم پڑھ لیں یا پڑھوالیں تو ہم مان لیں گے کہ ہاں ! واقعی وہ اللہ کا نبی و رسول ہے اور یہ جو اس نے آسمانوں پر جانے اور وہاں بہت کچھ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے اس کو بھی تسلیم کرلیں گے اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر مان لینا چاہئے کہ جو کچھ ہم نے کہا وہ بالکل صحیح ہے اور واقعی محمد ﷺ بہک گیا ہے اور اس کو ہمارے بزرگوں میں سے کسی کی مار لگ گئی ہے۔ یہ نشانیاں جن کا ذکر اس سورة النجم کی آیات میں کیا گیا وہ نشانیاں ہیں جن کو ان اشارات و استعارات ہی میں بیان کیا جاسکتا تھا کیونکہ ان کا تعلق عالم دنیا کے ساتھ ظاہری طور پر اس وقت بالکل نظر نہ آتا تھا اور یہ وہ اس اسرار الٰہی تھے جن کو رہتی دنیا تک استشاد میں آنا تھا اور اس وقت چودہ سو سال گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ انسانیت ان کی طرف بڑھنے لگی ہے اور ان شاء اللہ العزیز ایک وقت آئے گا کہ ان میں سے ایک ایک اشارہ اور استعارہ ظاہر ہوگا اور حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوگی کیونکہ جب دنیا کا نظام قائم ہے اب کوئی نیا یا پرانا نبی و رسول نہیں آئے گا اور آپ ﷺ ہی کے دور نبوت پر دنیا کا نظام ختم ہوگا اور (اوحی ما اوحی) (علمہ شدید القوی) اور (سدرۃ المنتہیٰ ) کی وضاحت اس طرح ہوگی کہ عالم انسانیت کی آنکھیں ان کو دیکھیں گی اور لوگ ان حقیقتوں کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو کر رہ جائیں گے۔ اس وقت حیرت زدہ چیزیں جو ظاہر ہو رہی ہیں یہ سب ابھی ابتدائی چیزیں ہیں کہ انسان اپنی جگہ سے اپنے مقام ‘ اپنی کرسی یا اپنے بستر پر بیٹھ کر انٹرنیٹ پر پوری دنیا میں جہاں چاہتا ہے ہم کلام ہوتا ہے ‘ شکل دیکھتا ہے ‘ ہدایات دیتا ہے ‘ راہنمائی حاصل کرتا ہے ‘ اپنے کاروبار کے راز اور طریقے حاصل کر رہا ہے لیکن ابھی آسمان کی ان حدود تک پہنچنا باقی ہے جن حدود کی راہنمائی ان استعارات و اشارات میں کی گئی ہے جب اس دھرتی اور ران دھرتیوں کا آپس میں جوڑ قائم ہوا اور اس مخلوق اور اس مخلوق کی سماعت شروع ہوئی اور ایک دوسرے کو ملنے کا شوق پیدا ہوا اور پھر آمدورفت شروع ہوئی اور اپنے اپنے مقام پر بیٹھ کر آنکھ جھپکنے میں ایک دوسرے سے رابطہ قائم ہوگیا اور پھدر صرف رابطہ ہی نہ قائم ہوا بلکہ ایک دوسرے کو ان مرئی آنکھوں سے دیکھا بھی گیا تو اس وقت یہ راز کھلیں گے۔ ابھی تو اس معاملہ میں وہ لوگ کوشاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو ماننے سے بھی انکاری ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کو ایک وہمی مفروضہ جانتے ہیں لیکن ان بدبختوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم تو انہی کو ماننے کے عملی ثبوت پیش کرنے کی طرف رواں دواں ہیں اور اہل اسلام کے علمائے کرام نے اس طرف سے بالکل آنکھیں بند کر رکھی ہیں لیکن قدرت خداوندی کا یہ تماشا اس سے قبل نہیں دیکھا گیا کہ یہ لوگ اس وقت نبی کریم ﷺ کا مذاق اڑاتے تھے ان ہی میں وہ لوگ پوشیدہ بیٹھے تھے جنہوں نے دین اسلام کی بہت بڑی بڑی خدمات انجام دیں اور آج انہیں کی مرہون منت ہم اسلام کی حقیقت کو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں اگر یہ بات صحیح ہے تو یقینا ان لوگوں کے اندر بھی ایسے لوگ پوشیدہ ہیں جو ظاہر ہو کر ان پوشیدہ رازوں کو کھولیں گے اور ان کی تصدیق بھی کریں گے اور جس طرح ان کافروں میں سے مسلمان پیدا ہوگئے تھے ان کافروں اور مشرکوں ہی سے پکے اور سچے مسلمان بھی پیدا ہوں گے جو ان رازوں کو ‘ ان استعاروں کو ‘ ان اشاروں کو کھول کھول کر لوگوں کے سامنے رکھیں گے اس طرح ظاہری طور پر جو کفر بڑھ رہا ہے پوشیدہ طور پر اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کے قریب دنیا پہنچ رہی ہے اور جس طرح ضدین کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور معا ایک ضد ختم ہوتی ہے تو دوسری شروع ہوتی ہے ان شاء اللہ یہی صورت واقع ہوگی مثلاً رات اور دن دونوں آپس میں ضد ہیں۔ رات ‘ رات ہے اور دن ‘ دن لیکن کتنی دیر لگتی ہے جب کہ ہماری آنکھ دیکھتی ہے کہ ابھی رات تھی اور ابھی دن ہوگیا کہ ایک آدمی کھانا کھانے کے لئے بیٹھا تھا اور پانی کا ایک گلاس ہی اس کو پینا ہے جو چند سیکنڈ کی بات ہے تو دوسرا بولتا ہے کہ جلدی کرلو فجر ہونے والی ہے اور یہ فجر کیا ہے ؟ دن ہی تو ہے۔ سن لو اور یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو مسلمان ہوتے بہت دیر لگتی ہے لیکن ایک کافر کو مسلمان ہوتے کچھ بھی دیر نہیں لگتی۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے مشاہدات عام اس وقت مادی واقعات نہ تھے جن کی روایات صحابہ کرام ﷺ یا روایت و سماعت سے کرسکتے بلکہ وہ واقعات سے اس قدر جان سکتے تھے جن کو نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان اقدس سے کبھی کبھی ظاہر فرمایا۔ یہ بالکل صحیح کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد کھرے کے ساتھ کھونا ملانے والوں نے بطور سازش ایسا کیا لیکن جب کھرا اور کھوٹا مل جائے تو صاحب عقل و دانش اس کو نہیں کہتے تھے جو کھرے کو بھی چھوڑ دے اور بالکل خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جائے بلکہ عقل و فکر کا تقاضا یہی ہے کہ وہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز پیدا کرنے کی سرتوڑ کوشش کری اور پھر کھوٹے کو الگ کر کے رکھ دی اور کھرے کا استعمال نہ چھوڑے اور اس کے لئے قرآن کریم کو کسوٹی بنائے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس کسوٹی موجود ہو لیکن وہ اس پر کسی چیز کو پرکھنے کے لئے تیار نہ ہو تو آپ اس کو کیا کہیں گے ؟ بہرحال ایسے احمقوں کی بھی کوئی کمی نہیں کہ جن کے پاس کسوٹی موجود ہے لیکن وہ اس کو سنبھالے پھرتے ہیں اور اس پر کسی چیز کو رکھ کر پرکھنے کے لئے تیار ہی نہیں اور ان سے جب بھی بات کرو تو وہ جواب دیں گے کہ بس صاحب ! قرآن کریم ہمارے پاس ہے ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ پھر قرآن کریم ان کے پاس ہی رہتا ہے اور وہ زندگی میں ہر طرح کی بد اعتدالیاں کرتے ہیں یا یہ کہ وہ بد اعتدالیوں کے مرتکب ہوتے ہیں اس لئے ہم نے ان کو احمق کہنے کی جسارت کی ہے ورنہ ہم کو ان کی نیت پر کوئی شک نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی نیت پر شک کرنا جائز اور درست ہے کیونکہ نیت کا تعلق اللہ اور بندہ کا ہے۔ بہرحال مشاہدات نبوی ﷺ کی فہرست میں سب سے پہلی چیز روح القدس یا روح الامین یا جبریل نامی فرشتہ ہے۔ ہم اس کی حیثیت ‘ کیفیت اور کمیت پر کوئی بحث نہیں کرتے نہ کرسکتے ہیں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ ہمارے مشاہدہ کی یز نہیں ہے۔ یہ فرشتہ آپ ﷺ کو غار حرا میں نظر آیا اور جو نقشہ اس نے آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا اس کا ذکر آپ ﷺ کئی ایک مقامات پر پڑھ آئے اور آئندہ بھی ان شاء الل آئے گا خصوصاً سورة علق ہیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک وہ آپ ﷺ کی نگاہ سے اوجھل رہا۔ (بخاری و مسلم باب بدء الوجی) اور آپ ﷺ کو جب طلب و جستجو ہوئی اور جس طرح کسی کی طلب اور جستجو کے باوجود مطلب حاصل نہ ہو تو تکلیف ہوتی ہے وہ آپ ﷺ کو بھی ہوئی۔ چناچہ صحیح مسلم میں ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ مکہ میں پہلی وحی کے بعد کچھ عرصہ ایسا گزرا کہ آپ ﷺ کو صرف غیب کی آوازیں سنائی دیا کرتیں اور روشنی دکھائی دیتی اور خوابات کے سوا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ (صحیح مسلم باب کم امام النبی ﷺ بمکۃ) غالباً اس کو فترۃ والوحی کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ یہ زمانہ ختم ہوا ‘ کیسے ؟ ایسے کہ ایک دن آپ ﷺ نے اوپر سے آواز سنی ‘ نظر اٹھا کر دیکھا تو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر وہی فرشتہ بیٹھا ہوا نظر آیا۔ صحیح مسلم باب بدء الوحی اس کے بعد فرشتہ آپ ﷺ کو اکثر انسان کی شکل میں نظر آیا۔ ایک بار آپ ﷺ نے جبریل (علیہ السلام) کو چھ سو فرشتوں کی معیت میں بھی اترتے دیکھا لیکن اہل اسلام نے اکثر ان چھ سو (فرشتوں کی معیت میں اترنے کی بجائے چھ سو بازوئوں پر محمول کیا ہے اور بعض نے بازوئوں سے مراد ہاتھ لئے ہیں اور بعض نے پرندوں کی طرح کے پر قرار دیئے ہیں اور ہم نے ان کو پروں اور بازوئوں کی بجائے فرشتوں ہی پر محمول کیا۔ آپ ﷺ نے اس وقت دیکھا کہ ان فرشتوں نے گویا پورے افق کو گھیر لیا ہے۔ (صحیح بخاری بدء الخلق و تفسیر سورة النجم ‘ صحیح مسلم باب الاسراء) جیسا کہ اوپر ہم نے ذکر کیا ہے کہ حدیث میں جناح کا لفظ ہے جس سے مترمظمین نے بازو یا پر مراد لئے ہیں لیکن ہم نے دوسرے فرشتے ہی مراد لئے ہیں جس کی وضاحت ہم پیچھے غزوہ الوثقی جلد سوم سورة الانفال آیت 61 میں جلد پنجم سورة الحجر کی آیت 88 ‘ سورة الاسراء کی آیت 24 ‘ جلد ششم سورة الشعراء کی آیت 215 میں بیان کر آئے ہیں۔ جبریل (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے فرشتے بھی بارگاہ نبوت میں آیا کرتے تھے جس کی تفصیل ہم جلد چہارم سورة الانفال کی آیت 9 میں اور جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 124 ‘ 124 میں کرچکے ہیں۔ جنت و دوزخ لاریب دوسرے عالم کی چیزیں ہیں لیکن نگاہوں سے پردہ اٹھ جائے تو سامنے آجائیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا۔ آپ ﷺ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قرأت رکوع اور سجدہ میں مصروف رہے۔ آپ ﷺ قیام میں قرأت کر رہے تھے کہ صحابہ کرام ؓ نے دیکھا کہ آپ ﷺ آگے کو بڑھے یا آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جیسا کہ کسی چیز کو پکڑنے لگے پھر آپ ﷺ پیچھے ہٹے۔ نماز کے بعد لوگوں نے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت میرے سامنے کچھ چیزیں پیش کی گئیں جن کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ میں نے بہشت کو دیکھا کہ اس میں انگور کے خوشے لٹک رہے ہیں بےساختہ آگے بڑھ گیا کہ کچھ توڑ لوں لیکن نہ توڑ سکا اور نہ ہی توڑ سکتا تھا اگر میں یہ توڑ سکتا تو تم تا قیامت اس کو کھا سکتے۔ پھر میں نے دوزخ کو دیکھا اور اس سے زیادہ بھیانک چیز میں نے آج تک نہیں دیکھی لیکن میں نے اس میں زیادہ تر عورتوں کو پایا۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ ایسا کیوں ؟ فرمایا کہ اپنے خاوندوں کی ناشکری کے باعث۔ اگر ایک عورت پر خاوند زندگی بھر احسان کرتا رہے اور وہ ایک دفعہ اس کے کسی فعل سے آزردہ ہوجائے تو وہ کہے گی کہ میں نے کبھی تمہارا اچھا برتائو نہیں دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے دوزخ میں اس چور کو دیکھا جو حاجیوں کے مال و اسباب چرایا کرتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا جس پر اس لئے عذاب ہو رہا تھا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ دیا تھا لیکن نہ تو اس کو کچھ کھانے کے لئے دیتی تھی اور نہ چھوڑتی تھی کہ وہ حشرات الارض کو اپنی خوراک بنائے اور آخر اسی بھوک میں اس نے جان دے دی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم باب صلوٰۃ الکسوف ‘ صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب رفع البصر و باب التعوذ من الغفن) ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” میں جب جنت میں گیا تو دیکھا کہ یہاں کے باشندوں میں بڑی تعداد ان کی ہے جو دنیا میں غریب تھے اور دوزخ کی طرف گیا تو وہاں دیکھا تو ان میں بڑی تعداد عورتوں کی پائی “۔ (صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ) عمر کے آخری حصہ میں ایک بار آپ ﷺ شہدائے احد کی قبروں کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں سے واپس آ کر آپ ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا تو اسی دوران میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” میں حوض کوثر کو یہیں سے دیکھ رہا ہوں اور مجھ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں حوالہ کی گئیں۔ اے لوگو ! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم اس دنیا کی دولت میں پڑ کر آپس میں رشک و حسد نہ کرنے لگو “۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز) آپ ﷺ نے فرمایا : میرے گھر اور منبر کے درمیان میں جنت کی کیا ریوں میں سے ایک کیا ری ہے اور میرا منبر مر کے حوض پر رکھا ہے “۔ (صحیح بخاری کتاب الحوض) ان احادیث کی تشریح میں محدثین نے مختلف پہلوئوں سے بات کی ہے لیکن ہمارے نزدیک یہی سب سے بہتر اور افضل ہے کہ آپ ﷺ کو اس کا مشاہدہ کیا گیا۔ اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن آپ ﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے اور ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا : اے لوگو ! جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ تم دیکھ رہے ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ ﷺ ! پھر آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہارے گھروں کے درمیان فتنوں کو بارش کی طرح برستے دیکھ رہا ہوں “۔ (صحیح بخاری کتاب لفتن و صحیح مسلم کتاب الفتن) اور آپ پڑھ آئے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے حوالے کی گئی ہیں اس پر لوگوں نے طرح طرح کے حاشیے چڑھائے اور طرح طرح کی باتیں بنائیں لیکن حقیقت کو سمجھنے کی بہت کم کوشش کی گئی۔ زمین کے خزانوں کی کنجیاں آپ ﷺ کو دی جانے کا مقصد و مطلب بالکل واضح ہے کہ آپ ﷺ ہی کی نبوت کے دوران زمین کے خزانے اور دفینے نکلنے شروع ہوئے جو آج تک نکلتے ہی چلے جا رہے ہیں اور ابھی اس زمین کے اندر بہت کچھ پوشیدہ ہے جو یقینا نکلے گا اور قا مت تک نہ معلوم کتنے دفینے ابھی مزید روشنی میں آئیں گے۔ اگر یہ احادیث اور اس جیسی دوسری احادیث نہ ہوتیں تو شاید اس سلسلہ میں بہت کم ہی کوشش کی جاتی۔ اپنوں نے اگرچہ منہ پھیر دیا لیکن نہ ماننے والوں کے دلوں کے اندر اس بات کا یقین موجود ہے کہ جو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کوئی نہ کوئی اس کی تعبیر ضرور ہے اور اس طرح جب انہوں نے مختلف طریقوں سے آپ ﷺ کی باتوں کی جانچ کی تو ایک سے بڑھ کر ایک درست پائی۔ اس لئے انہوں نے تندہی سے کام شروع کیا اور وہ بہت حد تک کامیاب ہوئے اور ابھی محنت و کوشش کرنے والوں کو مزید کامیابیاں ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔ اللہ کے کام کبھی نہیں بند ہوتے اس لئے ان میں سے جن کو ہونا ہے بہرحال ہونا ہے کوئی مان کر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہو یا کوئی نہ مان کر عمل کرنا شروع کر دے۔ گزشتہ انبیاء کرام کی تمثیلیں اکثر آپ ﷺ کو دکھائی گئی ہیں اور معراج اور عالم رئویا کے علاوہ بیداری کے عالم میں وہ وہ مشاہدے ہوئے ہیں اور اس طرح کے مشاہدے ذہن و دماغ کے اندر فٹ ہوجاتے ہیں جو کبھی نہیں بھول سکتے۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ سفر پر جا رہے تھے کہ وادی ارزاق سے آپ ﷺ گزرے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ وادی ارزق ہے۔ فرمایا گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) گھاٹی سے اتر رہے ہیں اور ان کی زبان پر تلبیہ جاری ہے۔ اس کے بعد ہر شاکی گھاٹی آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کون سی گھاٹی ہے ؟ آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ یہ ہر شاکی گھاٹی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا : گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ متی کے بیٹے یونس سرخ اونٹنی پر سوار ہیں اور کمبل کا جبہ زیب تن ہے اور اونٹنی کی نکیل کھجور کی چھال کی ہے اور وہ لبیک اللھم لبیک کہتے چلے جا رہے ہیں۔ (صحیح مسلم باب الاسراء) وہ نشانات جو آپ ﷺ کو معراج میں عطا کئے گئے ان کا تذکرہ سورة بنی اسرائیل کی آیت 22 سے آیت 48 تک مسلسل کیا گیا ہے اس کے دہرانے کی اس جگہ ضرورت نہیں۔ غزوہ لوثقی جلد پنجم کو اٹھائیں اور ان آیات کی تفسیر پر ایک نظر کرلیں۔ ہاں ! ہم اختصار کے ساتھ ان کا خلاصہ نقل کر رہے ہیں کہ اس میں آپ ﷺ کو پیش کئے گئے پروگرام کی ایک بار پھر نئے سرے سے تصدیق ہوجائے کہ ہمارے رسول ﷺ نے جو پروگرام پیش کیا ہے وہ بالکل حق ہے اور بعض باتیں آنے والے پروگرام کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ان آیات کریمات میں جو احکام مذکور ہیں وہ تعداد کے لحاظ سے بارہ ہیں اور یہی دروازہ احکام درحقیقت دنیا کے تمام خیر و شر کی بنیاد و اساس ہیں۔ کوئی اخلاق کی تفصیل پر دفتر سیاہ کر ڈالے تاہم ان دوازدہ احکام کے حلقہ سے باہر نہ نکل سکے گا۔ آپ اخلاق کی کسی کتاب کو اٹھا لیں اور اس کا بغور مطالعہ کریں اور ساتھ ہی ان احکام دوازدہ کو ذہن میں رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ ان احکام دوازدہ سے باہر نہیں ہے بلکہ اس کی تفصیل کی گئی ہے اور ان واقعات کو انہی بارہ احکام میں سے کسی ایک حکم کے ساتھ جوڑا جاسکے گا۔ لہٰذا مختصر اور سادہ عبارت میں یہ احکام مندرجہ ذیل ہیں۔ (1) شرک مت کرو۔ (2) ماں باپ کی عزت و احترام اور اطاعت و فرمانبرداری کرو۔ (3) حق داروں کا حق ادا کرو۔ (4) اسراف مت کرو اور افراط وتفریط کے پیج میں میانہ روی کی راہ چلو۔ (5) اپنی اولاد کو مت قتل کرو۔ (6) زنا کے قریب بھی مت جائو۔ (7) ناحق کسی شخص کی جان مت مارو۔ (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو۔ (9) اپنا عہد پورا کرو کہ تم سے اس کی پوچھ گچھ ہوگی یعنی اس کے متعلق تم سے سوال کیا جائے گا۔ (10) ناپ تول میں پیمانہ اور ترازو کو پورا رکھو یعنی کمی مت کرو۔ (11) نامعلوم بات کی پیروی مت کرو یعنی اس کے پیچھے مت پڑو۔ (12) زمین پر مغرور بن کر مت رہو عاجزی و انکساری سے کام لو۔ یہ گویا انہی احکام عشرہ کا نقش ثانی ہے یا یوں کہو کہ تکملہ ہے جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور کی معراج میں عطا کئے گئے تھے جن کا ذکر تو رات سفر استثناء باب 5 میں مذکور ہے اور ان کا اختصار اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے کہ۔ (1) میرے آگے اور معبودوں کو نہ ماننا۔ (2) تو خداوند اپنے خدا کا نام بےقاعدہ نہ لینا۔ (3) سبت کے دن کو یاد کر کے پاک ماننا۔ (4) اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا۔ (5) تو خون نہ کرنا۔ (6) تو زنانہ کرنا۔ (7) تو چوری نہ کرنا۔ (8) تو اپنے پڑوسی پر جھوٹی گواہی نہ دینا۔ (9) تو اپنے پڑوسی کی بیوی کا مت لالچ کرنا۔ (10) تو اپنے ہمسایہ کے کسی مال کا لالچ مت کرنا۔ معراج کے گزشتہ نشانات پر ایک بار مختصر نظر کرلو اور ان احکامات و بشارات اور نماز پنج گانہ کے علاوہ نبی اعظم و آخر ﷺ کو دو اور خاص عطیے عنایت کئے گئے ان کا حال بھی سنتے جائو۔ ایک یہ بشارت کہ امت محمدیہ میں سے جو شخص شرک کا مرتکب نہ ہوگا دامن مغفرت کے سایہ میں اس کو پناہ مل سکے گا اور دوسرے یہ کہ سورة البقرۃ کا آخری رکوع بارگاہ رب ذوالجلال والاکرام سے فرمان خاص کے طور پر آپ ﷺ کو مرحمت ہوا۔ (صحیح مسلم باب السراء ) سورة الاسراء میں صرف اس طرح ارشاد فرمایا کہ : (لنریہ من ایتنا) ( 17 : 1) اور سورة النجم میں بھی صرف اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا۔ (لقد رای من آیات ربہ الکبری) (53 : 18) یہ نشانیاں کیا تھیں ؟ کیا ان کی تفصیل کے لئے عاجز و درماندہ انسان کی زبان میں کچھ الفاظ ہیں ؟ ہاں ہیں مگر ناتمام ‘ ہماری فہم ‘ ہمارا علم ‘ ہمارا خیال ‘ ہمارا قیاس غرض جو کچھ ہمارے پاس ہے اس کا دائرہ ہمارے محسوسات اور ہمارے تعقلات سے آغے نہیں بڑھ سکتا اور ہمارے ذخیرہ لغت میں صرف انہی کے لئے کچھ الفاظ ہیں اس بناء پر وہ معانی جو نہ عام محسوسات انسانی کی حدود میں داخل ہیں اور نہ تعقل و صور کے احاطہ کے اندر ہیں وہ ان الفاظ و کلمات میں کیونکر سما سکتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے کمال قدرت سے ان کو حروف و کلمات کا جامہ پنہا بھی دے تو دماغ انسانی ان کے فہم و تحمل کی قدرت کہاں سے لائے گا ؟ (وما اوتیتم الا قلیلا) (17 : 85) “ اور تمہیں جو کچھ علم دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے۔ “ اس لئے زیر نظر سورة النجم میں جہاں ان اسرار کے چہرہ سے کچھ پردہ ہٹایا گیا ہے یہ ایسی تفصیل ہے جو تمام تر اجمال ہی اجمال ہے اور یہ ایسی توضیح ہے جو سرتاپا ابہام ہے۔ غور کرو کہ یہ صرف دو دو لفظوں کے فقرے ہیں۔ ضمیریں ہیں اور وہ بھی اکثر محذوف ہیں۔ فاعل کا ذکر ہے مفہول کا نہیں۔ مفعول کا بیان ہے تو فاعل کا کچھ پتہ نہیں چلتا اس طرح اکثر متعلقات فعل کی تشریح نہیں اور ضمائر کے مرجعوں کی تعیین نہیں ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ اس مقام کا مقتضا یہی ہے کہ ان دیکھی ‘ ان سمجھی ‘ ان سنی باتوں کے اشارات و استعارات ہیں اور محاورات ہی محاورات ہیں۔ ع ” عبارت از سخنداں ہم نہ گنجد “۔ سورۃ النجم کی آیات ایک سے 18 تک کی تلاوت کرو : والنجم اذا ھوی ‘ ما ضل صاحبکم و ما غویٰ ‘ وما ینطق عن الھویٰ ‘ ان ھو الا وحی یوحی ‘ علمہ شدید القویٰ ‘ ذومرۃ فاسعویٰ ‘ وھو ابالفق الاعلیٰ ‘ لم دعنا تدعلی ‘ فکان قاب قوسین او ادنیٰ ‘ فاوحی الی عبدہ ما اوحی ‘ ما کذب الفواد مارای ‘ افتمرونہ علی ما یریٰ ‘ ولقد راہ نزلہ اخریٰ ‘ عند سدرۃ المنتہیٰ ‘ عندھا جنتہ الماویٰ ‘ اذیغشی السدرۃ یا یغشی ‘ ما راع البصر وما طھی ‘ لقد رای من ایت ربہ الکبریٰ ۔ ” قسم ہے ستاروں کے رب کی جب وہ غروب ہوں۔ تمہارا رفیق نہ بہکا اور نہ راہ سے بےراہ ہوا۔ وہ تو اپنی خواہشات سے بات ہی نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اس کی طرف سے نازل ہونے والی وحی الٰہی ہے۔ اس کو زبردست قوت والے نے سکھایا ہے۔ جو بڑا زور آور قائم رہنے والا ہے اور وہ افق اعلیٰ پر تھا۔ پھر قریب ہوا اور مزید آگے بڑھا ۔ پھر دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ پھر اپنے بندہ کی طرف جو وحی کرنا چاہی وہ کی۔ نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں ذرا بھی جھوٹ نہ ملایا۔ کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے دیکھا اور اس کو تو اس نے ایک بار اور بھی دیکھا۔ سدرۃ ’ المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔ اس وقت سدرۃ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا نہ تو اس کی نگاہ چندھیائی اور نہ ہی حد سے آگے بڑھی۔ یقینا آپ ﷺ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ “ یہ سب کیا ہے ؟ وہی کچھ جس کا ذکر ہم نے اوپر کردیا ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے جب معراج کے روحانی مشاہدات و مناظر ان اشارت و استعارات کی صورت میں قریش کے سامنے تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو راہ حق سے دیدہ دانستہ (غوایت) یا نادانستہ (ضلالت ) میں بھٹک گیا ہے یا اپنے دل سے بنا کر یہ جھوٹی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ یہ انہوں نے کیوں کہا ؟ اس لئے کہ وہ روحانی جلوئوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی طاقت و سکت نہ رکھتے تھے اور صوت سرمدی کے سننے کی ان کے کانوں میں ہمت نہ تھی۔ اسرار ملکوتی کے سمجھنے کے لئے ان کے سینوں میں دل نہ تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تھا اور جو کچھ معلوم ہوا یہ بڑی طاقت و قوت اور قدرت اور علم و عقل والی ہستی کی جلوہ انگیزیاں تھیں۔ وہ کبھی اتنا دور تھا کہ آسمان کے کناروں میں اس کی تجلیات دیکھی گئیں اور کبھی اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں کے فاصلے سے بھی زیادہ قریب تر تھا۔ غور کرو کہ کون جھکا ؟ کون قریب آیا ؟ کس کے قریب آیا ؟ کیسے قریب اور کتنا قریب آیا ؟ کون دو کمانوں کے فاصلہ تک آ کر رہ گیا ؟ کیا وہ اللہ تھا ؟ اللہ کی صفت تجلی تھی ؟ کیا وہ جبریل تھا ؟ وہ تو معیت میں ساتھ تھا ‘ لے جانے والا تھا ‘ آخر وہ کون تھا ؟ کس نے باتیں کیں ؟ معلوم نہیں ! کیا باتیں کیں ؟ واضح نہیں۔ صرف اشارات و استعارات و محاورات ہی محاورات ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ کیا ہے ؟ انسانی فہم و ادراک کی سرحد کے اخیر پر ایک درخت جو بطور نشان ہے۔ کیا اس کو شون وصفات الٰہی کی نیرنگی سے ڈھانک لیا جیسا کہ بخاری میں ہے کہ ۔ غشبھا من امر اللہ ماغشی) یعنی جلوہ الٰہی اس پر چھا گیا۔ کیا انسانی فہم و ادراک کی اخیر سرحد کا درخت صرف شون وصفات کی نیرنگی کا مظہر ہے ؟ نبی اعظم و آخر ﷺ نے دل کی آنکھوں سے کیا دیکھا ؟ دیدہ چشم سے کیا نظر آیا ؟ آپ ﷺ کو اس سفر میں آیات ربانی دکھائی گئیں مگر یہ مشاہدہ قلب تھا یا معائنہ چشم تھا ؟ آپ بلا جھجھک کہہ دیں کہ ع ” راز ایں پردہ نہاں است و نہاں خواہد بود “ ہم کچھ نہیں کہتے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ صرف مان سکتے ہیں ‘ مان رہے ہیں اور مانتے رہیں گے۔ ہاں مفسرین اور سیرت نگاروں نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ یہ استعارات و اشارت کی دنیا کی سیر تو آپ ﷺ کو کرائی گئی لیکن معراج کب واقع ہوئی ؟ جس کا ماحصل اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ : (1) جس سال نبی اعظم و آخر ﷺ کو نبوت دی گئی اس سال معراج بھی واقع ہوئی جیسا کہ امام طبریٰ ؓ کا بیان ہے۔ (2) نبوت کے پانچویں سال کے بعد معراج ہوئی جیسا کہ امام نووی اور قرطبی ؓ نے اشارہ کیا ہے۔ (3) نبوت کے دسویں سال 27 رجب کو معراج ہوئی جیسا کہ عام طور پر لوگوں میں معروف چلا آ رہا ہے۔ (4) ہجرت سے سولہ مہینے پہلے یعنی آپ ﷺ کی نبوت کے بارہویں سال ماہ رمضان میں ہوئی۔ (5) ہجرت سے ایک سال دو ماہ پہلے یعنی نبوت کے تیرہویں سال محرم میں ہوئی۔ (6) ہجرت سے صرف ایک سال پہلے یعنی نبوت کے تیرہویں سال ماہ ربیع الاول میں۔ اس اختلاف کا باعث کیا ہوا لوگوں نے اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ ہم نے ان میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت سورة الاسراء میں کردی ہے اور وہاں ہم نے بخاری و مسلم اور دوسری کتب صحاح کی احادیث بھی جماع کردی ہیں اگر تفصیل دیکھنا مقصود ہو تو وہاں سے ملاحظہ کریں اور وہیں ہم نے ان غیر مستند روایات کا ذکر بھی کردیا ہے جو عوام و خواص میں بہت شہرت رکھتی ہیں اگرچہ ان کی کوئی اصل موجود نہ ہے۔ اس جگہ ہم صرف شاہ ولی اللہ ؓ کی توجیہات جو انہوں نے مختلف طریقوں سے پیش کی ہیں ان کا ذکر مع ترجمہ کریں گے جس سے ہمارا مقصد فقط یہ ہے کہ کسی بھی استعارہ و اشارہ کا مفہوم اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اس کی وسعت کو کسی پیمانہ سے ماپا نہیں جاسکتا اور اس وسعت میں اس کی ساری اہمیت پوشیدہ رکھی جاتی ہے جس کو وقت کے ساتھ ساتھ وسعت ملتی رہتی ہے اور اس کا مفہوم وسیع سے وسیع تر ہوتا رہتا ہے جس کی مثال ایک بیج سے دی جاسکتی ہے کہ بیج کے اندر پورے درخت کی قوت نمو موجود ہوتی ہے لیکن جب تک اس کو وہ ماحول میسر نہیں آتا وہ قوت مستور رہتی ہے لیکن جونہی اس کو ماحول میسر آگیا تو درخت پھوٹ نکلا لیکن پھر جوں جوں اس کو اچھا اور مناسب ماحول میسر آتا گیا تو وہ پھیلتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ اب اس بیج میں جس سے اس نے نشو ونما حاصل کی اور اس درخت میں کوئی نسبت ہی قائم نہ رہتی اور ماشاء اللہ یہ بڑھتے بڑھتے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اب شاہ صاحب ؓ کی عبارت آپ ملاحظہ کریں : اعلم انہ دلت احادیث کثیرہ علی ان فی الوجود عالما غیر عنصری یتمثل فیہ المعانی باجسام مناسبۃ لھا فی الصفۃ و یتحقق ھنالک الاشیاء قبل وجود ھا فی الارض نحوا من التحقق واذا وجدت کانتھی ھی بعمنی من معانی ھو ھو وان کثیرا من الاشیاء ممالاجسم لھا عندالعامۃ تنقل و تنزل ولا یراھا جمعیا لناس قال النبی ﷺ لما خلق اللہ الرحم قامت فقالت ھذا مقام العائذبک من القطیعۃ و قال ان البقرۃ وال عمران تاثیان یوم القیامۃ کانھما غمامتان او غیابتان او فرقان من طیر صواف تحاجان من اھلھا وقال تحی الاعمال یوم القیمۃ فتحی الصلوٰۃ ثم تحی الصدقۃ ثم تحی الصیام الحدیث قال ان المعروف والمنکر لخلیقتان تنصیان للناس یوم القیمۃ فاما المعروف فبشر اھلہ واما المنکر فیقول الیکم ولا یستطیعون لہ الالزوما و قال ان اللہ تعالیٰ یبعت الایام یوم القیمۃ کھبا تھا و یبعت الحمدعۃ زھراء منیرۃ و قال یوتی بالدنیا یوم القیمۃ فی صورۃ عجوز ستمطاء زرقاء اینابھا مشوہ خلقھا و قال ھل ترون ماتریٰ فانی لاری مواقع الفتن خلال بیوتکم کمواقع القطر و قال فی حدیث الاسراء فانا اربعۃ انھار تہران باطنان و تہران ظاہران فقلت ماھذایا جبریل قال اما البطانان ففی الجنتہ واما الظاران فالثیل والراجت و قال فی حدیث صلوٰۃ الکسوف صورت لی الجنۃ والنار و فی لفظ بینی و بین جداء ال قبلہ و فیہ انہ بسط یدہ لیتناول عنقونا من الجنتہ وانہ تکمکع من النار و نفخ من حرما ۔ وربی فیھا سارق الححیجع والامراۃ التی وبطت الھرۃ حتی مات ورای فی الجنتہ امراہ مومسۃ سقت الکلب و معلوم ان تلک المسافۃ لا تسح للجنتہ والنار باحسادھما المعلومۃ عنہ العامہ و قال حفت الجنتہ بالمکارہ و حفت النار بالشوت ثم امر جبریل ان ینظر الیھما۔ وقال ینزل البلاء فیعا لحھا الدعاء ۔ و قال خلق اللہ العقل فقال لہ اقبل فاقبل و قال لہ ادبر فادبر۔ وقال ھذان کتابان من رب العلمین الحدیث۔ و قابل یوتی بالموت کانہ کہانی فیلیح بین الجنتہ والنار۔ وقال تعالیٰ فارسلنا الیھار روحنا فتمثل لھا بشرا سویا۔ واستفاد فی الحدیث ان جبریل کان یظھر للنبی ﷺ و برا ابی لہ فیکلمہ ولا براہ سائر الناس۔ وان القبر یفسح سبعین ذراعاً فی سبعین او یضم حتی تختلف اضلاع المقبور وان الملئکتہ تنزل علی المقبور فتسالہ وان عملہ یتمثل لہ وان المکئکتہ تنزل الی المحتضر بایدھیم الحرایرا وسلم ع وان الملئکتہ تضرب القبور بمطرقۃ من حدید فیصبع صیحتہ یسمعھا مابین المشرق و المغرب۔ و قال النبی ﷺ لیسلط علی ال کافر فی قبرہ لتسعہ و تسعون تنینا تنھسہ وتلدغہ حتی تقوما الساعۃ۔ وقال اذا دخل المیت القبر مثلث لہ الشمس عند غروبھا فیجلس یمسع عینیہ و یقول دعوتی اصلی۔ وانتقاض فی الحدیث ان اللہ تعالیٰ یتجلی بصور کثیرۃ لاھل الموقف وان النبی ﷺ یدخل علی ربہ و ھو علی کرسیہ وان اللہ تعالیٰ یکلم ابن ادم شفاھا الی غیر ذلک مما لا یحصی کثرۃ۔ والناظر فی ھذا الاحدیث بین احدی ٹلث اما ان یقر بظاہر ھا فیضطر الی اثبات عالم ذ کرنا شانہ و ھذہھی التی یقصنیھا قاعدہ اھل الحدیث۔ نبہ علی ذالک السیوطی (رح) تعالیٰ و بما اقوال و الیھا اذھب او یقون ان ھذہ الواقع تترایٰ لرجس الرائی و تتمثل لہ فی بصرہ وان لم تکن خارج حسہ و قال بینظیر ذلک عبداللہ بن مسعود فی قولہ تعالیٰ یوم تاثی السماء بدخان مبین انھم اصابھم حدب فکان احدھم ینظر الی السماء فیری کھیثتہ الدخان من الحوع ۔ ویذکر عن ابن الماحشون ان کل حدیث جاء فی التفقل والرویتہ فی المحسر فعتاہ انہ یغیر ابصار خلقہ فیرنہ نازلا متحلیا وینا حی خلقہ و یخاطبھم و ھو غیر متغیر عن عظمتہ ولا منتقل لیعلوم ان اللہ علی کل شی قدیر۔ او یحعلھا تمثیلا لتقفھم معاون اخری۔ جاننا چاہئے کہ بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عالم موجودات میں ایک ایسا عالم بھی ہے جو غیر عنصری ہے اور جس میں معانی ان اجسام کی صورت میں متشکل ہوتے ہیں جو اوصاف کے لحاظ سے ان کے مناسب ہیں پہلے اس عالم میں اشیاء کا ایک گونہ وجود ہو لیتا ہے تب دنیا میں بھی وجود ہوتا ہے اور یہ دنیاوی وجود ایک اعتبار سے بالکل اس عالم مثال کے وجود کے مطابق ہوتا ہے اکثر وہ اشیاء جو عوام کے نزدیک جسم نہیں رکھتیں اس عالم میں منتقل ہوتی ہیں اور اترتی ہیں اور عام لوگ ان کو نہیں دیکھتے ‘ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب خدا نے رحم کو پیدا کیا تو وہ کھڑی ہو کر بولی کہ یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحم سے پناہ مانگ کر تیرے پاس پناہ ڈھونڈتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سورة بقرہ اور آل عمران قیامت میں بادل یا سائبان یا صف بستہ پرندوں کی شکل میں آئیں گے اور ان لوگوں کی طرف سے وکالت کریں گی جنہوں نے ان کی تلاوت کی ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیام میں اعمال حاضر ہوں گے تو پہلے نماز آئے گی ‘ پھر خیرات ‘ پھر روزہ۔ الخ۔ اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نیکی اور بدی دو مخلوق ہیں جو قیامت میں لوگوں کے سامنے کھڑی کی جائیں گی ‘ سو نیکی ‘ نیکی والوں کو بشارت دے گی اور برائی برائی والوں کو کہے گی کہ ہٹو ہٹو لیکن وہ لوگ اس سے چمٹے ہی رہیں گے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت میں اور جتنے دن ہیں وہ معمولی صورت میں حاضر ہوں گے لیکن جمعہ کا دن چمکتا دمکتا ہوا آئے گا اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت میں دنیا ایک بڑھیا کی صورت میں لائی جائے گی جس کے بال کھچڑی ‘ دانت نیلے اور صورت بدنما ہوگی اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو میں دیکھتا ہوں کیا تم بھی دیکھتے ہو ؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح بادل کے قطرے اور آنحضرت ﷺ نے معراج کی حدیث میں فرمایا کہ اچانک چار نہریں نظر آئیں ‘ دو نہریں اندر تھیں اور دو باہر۔ میں نے جبریل (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ بولے اندر کی نہریں تو جنت کی ہیں اور باہر کی نیل اور فرات ہیں اور آنحضرت ﷺ نے کسوف کی نماز کے متعلق فرمایا کہ بہشت اور دوزخ میرے سامنے مجسم کر کے لائی گئیں اور ایک روایت میں ہے کہ میرے اور قبلہ کی دیواروں کے بیچ میں بہشت و دماغ مجسم ہو کر آئیں۔ میں نے ہاتھ پھیلائے کہ بہشت میں سے انگور کا ایک خوشہ توڑ لوں لیکن دوزخ کی گرمی کی لپیٹ سے رک گیا اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حاجیوں کے چور کو اور ایک عورت کو دوزخ میں دیکھا جس نے ایک بلی کو باندھ کر مار ڈالا تھا اور ایک فاحشہ عورت کو بہشت میں دیکھا جس نے کتے کو پانی پلایا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دزخ کی وسعت جو عام لوگوں کے خیال میں ہے وہ اس قدر مسافت (یعنی کعبہ کی چار دیواری) میں نہیں سما سکتی اور حدیث میں ہے کہ بہشت کو مکروہات اور دوزخ کو شہوات نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ‘ پھر جبریل (علیہ السلام) کو خدا نے حکم دیا کہ دونوں کو دیکھیں اور حدیث میں ہے کہ بلا اترتی ہے تو دعا اس کا توڑ کرتی ہے اور حدیث میں ہے کہ خدا نے عقل کو پیدا کیا اور اس سے کہا کہ آگے آ تو وہ آگے آئی پھر کہا کہ پیچھے ہٹ تو ہٹ گئی اور حدیث میں ہے کہ یہ دونوں کتابیں پروردگار عالم کی طرف سے ہیں۔ الخ۔ اور حدیث میں ہے کہ موت ایک مڈنکھے کی شکل میں لائی جائے گی ‘ پھر دوزک اور بہشت کے درمیان ذبح کردی جائے گی۔ اور خدا نے فرمایا کہ ہم نے روح مریم کے پاس بھیجی تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی کی شکل بن کر آئی اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جبریل (علیہ السلام) آنحضرت ﷺ کے سامنے آتے تھے اور آپ ﷺ سے باتیں کرتیں تھے اور کون ان کو نہیں دیکھتا تھا اور حدیث میں ہے کہ قبر ہفتاد در ہفتاد گز چوڑی ہوجاتی ہے یا اس قدر سمٹ آتی ہے کہ مردہ کی پسلیاں بھرکس ہوجاتی ہیں اور حدیث میں ہے کہ فرشتے قبر میں آتے ہیں اور مردہ سے سوال کرتے ہیں اور مردہ کا عمل مجسم ہو کر اس کے سامنے آتا ہے اور نزع کی حالت میں فرشتے حریر یا گزی کا کپڑا لے کر آتے ہیں اور فرشتے مردہ کو لوہے کے گرز سے مارتے ہیں ‘ مردہ شور کرتا ہے اور اس کے شور کی آواز مشرق سے مغرب تک کی چیزیں سنتی ہیں اور حدیث میں ہے کہ قبر میں کافر کے اوپر ننانوے (99) اژدھے مسلط ہوجاتے ہیں جو اس کو کاٹتے ہیں تابہ قیامت اور حدیث میں ہے کہ جب مردہ قبر میں آتا ہے تو اس کو نظر آتا ہے کہ آفتاب غروب ہو رہا ہے وہ اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹھہرو میں نماز پڑھ لوں اور حدیث میں اکثر جگہ آیا ہے کہ قیامت میں خدا بہت سی مختلف صورتوں میں لوگوں کے سامنے جلوہ گر ہوگا اور آنحضرت ﷺ خدا کے پاس اس حالت میں جائیں گے کہ خدا اپنی کرسی پر بیٹھا ہوگا اور یہ کہ خدا انسانوں سے بالمشافہ بات چیت کرے گا۔ اس قسم کی اور بہت سی احادیث ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ان حدیثوں کو جو شخص دیکھے گا ‘ تین باتوں میں سے ایک نہ ایک بات اس کو ماننی پڑے گی یا تو ظاہری معنی مراد لے اور اس صورت میں اس کو ایک ایسے عالم کا قائل ہونا پڑے گا جس کی کیفیت ہم بیان کرچکے ہیں (یعنی عالم مثال) اور یہ صورت وہ ہے جو اہل حدیث کے قاعدے کے مطابق ہے۔ چناچہ سیوطی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور خود میری بھی یہی رائے اور یہی مذہب ہے یا اس بات کا قائل ہو کہ دیکھنے والے کے حاسہ میں واقعات کی یہی شکل ہوگی اور (اس کی نظر میں وہ اسی طرح جلوہ گر ہوں گے گو اس کے حاسہ کے باہران کا وجود نہ ہو چناچہ قرآن مجید میں جو آیا ہے کہ آسمان اس دن صاف و دھواں بن کر آئے گا ‘ اس کے معنی حضرت عبداللہ بن مسعود نے اسی کے قریب قریب لئے ہیں یعنی یہ کہ لوگوں پر قحط پڑا تھا تو جب کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تھا تو اس کو بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں سا معلوم ہوتا تھا ‘ ابن ماحبشوں (مشہور محدث تھے) سے مروی ہے کہ جن حدیثوں میں خدا کے اترنے اور مرئی ہونے کا ذکر ہے ان کے معنی یہ ہیں کہ خدا مخلوقات کی نظر میں ایسا تغیر پیدا کردی گا کہ وہ خدا کو ایسی حالت میں دیکھیں گے کہ وہ اتر رہا ہے اور تجلی کر رہا ہے اور اپنے بندوں سے گفتگو اور خطاب کر رہا ہے حالانکہ خدا کی جو شان ہے نہ اس میں تغیر ہوگا نہ خدا منتقل ہوگا اور یہ اس لئے ہوگا کہ لوگ جان لیں کہ خدا ہرچیز پر قادر ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ یہ سب باتیں بطور تمثیل کے بیان کی گئی ہیں اور مطالب کا ذہن نشین کرنا مقصود ہے۔
Top