Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 4
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
تم بھی ذرا لاۃ و عزیٰ کا حال سناؤ (کہ وہ کیا ہیں ؟ )
تم بھی ذرا الات و عزیٰ کا حال سنائو کہ وہ کیا ہیں ؟ 19 ؎ (اللات) کیا ہے ؟ دور جاہلیت میں قبیلہ ثقیف یا بنی معتب (بقول ابن اسحق) کا ایک چوگوشہ پتھر طائف میں تھا جو معبود سمجھا جاتا تھا اور ایک مندر بھی اس کے نام کا بنا دیا گیا تھا۔ قریش اور دوسرے قبائل عرب اس کی پوجا کرتے تھے۔ وجہ تسمیہ کے متعلق ابن عربی نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ایک عجیب روایت بیان کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : زشتہ زمانہ میں ایک آدمی قبیلہ ثقیف کے محلہ میں کسی پتھر پر بیٹھ کر حاجیوں کے ہاتھوں گھی بیچتا تھا اور حاجی ستوئوں میں گھی ملا کر کھاتے تھے۔ (لغت میں لت کے معنی ہیں ملانا یا آمیز کرنا لت سے لات اسم فاعل کا صیغہ ہے یعنی ستوں میں گھی ملانے والا کچھ مدت کے بعد وہ آدمی مر گیا جب چند لوگوں نے پتھر پر اس کو نہ دیکھا تو ایک دوسرے سے معلوم کیا۔ عمرو بن لحی بولا وہ تمہارا رب (پالنے والا) تھا مرا نہیں بلکہ اس پتھر کے نیچے غائب ہوگیا ہے۔ یہ سن کر لوگوں نے اس پتھر کی پوجا شروع کردی اور اس کا نام لات رکھ دیا اور الف لام داخل کرنے کے بعد لات ‘ اللات ہوگیا اور کثرت استعمال کی وجہ سے تا کی تشدید بھی ساقط ہوگئی اور (اللات) بن گیا۔ اسلامی دور میں جب بت پرستی کی ممانعت ہوئی تو نبیا عظم و آخر ﷺ نے ابوسفیان اور مغیرہ بن شعبہ کو حضرت خالد بن ولید کی زیر سیادت لات کو توڑنے اور مندر کو ڈھا دینے پر مامور فرمایا۔ خالد ؓ نے جا کر مغیرہ بن شعبہ کو حضرت خالد بن ولید کی زیر سیادت لات کو توڑنے اور مندر کو ڈھا دینے پر مامور فرمایا۔ خالد ؓ نے جا کر بت کو توڑ کر مندر کو ڈھا دیا اور آگ لگا دی۔ سونا ‘ چاندی اور جو کچھ مندر میں زیور ‘ کپڑا وغیرہ تھا سب لا کر خدمت گرامی میں حاضر کیا اور آپ ﷺ نے اسی روز اس کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ بنو ثقیف کی عورتوں کو معلوم ہوا تو وہ روتی پیٹتی ہوئی برہنہ سر باہر نکل آئیں۔ شداد بن عارض جثمی شاعر نے قبیلہ ثقیف کو لات کی دوبارہ پرستش سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ ؎ لا تنصروا اللات ان اللہ مھلکھا و کیف نصرکم من لیس ینتصر ان التی حرقت بالنار فاشتعلت ولم تقاتل لدی احجارھا ھدر لات کی حمایت نہ کرو حقیقت میں اللہ تعالیٰ اس کو غارت کرنے والا ہے جو خود اپنی مدد نہیں کرسکتا وہ تمہاری مدد کیسے کرسکتا ہے۔ جس بت کو آگ میں جلا دیا گیا اور وہ بھڑک اٹھا اور اپنے پتھروں کے پاس نہ لڑ سکا اس کی بربادی ناقابل معاوضہ ہے۔ عربوں نے اس کے نام پر عبداللات ‘ تیم اللات ‘ زید اللات وغیرہ نام رکھ لئے تھے اور اس کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا یہ سب عربی تصریحات تھیں۔ لیکن عربی تاریخ کے یورپین مبصرین کی زد سے کچھ اور ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے کہ لات بطی تھا۔ اقوام بابل کی دیویوں میں سے یہ ایک دیوی تھی۔ رب الارباب یعنی خدا خدائیگاں کی بہن یا بیٹیاں یہاں مامتا ٹولو (مناۃ) اور استار تھیں وہاں لات بھی ایک بہن یا بیٹی تھی۔ دوسری دیویوں کی طرح مختلف زبانوں میں لات پر بھی مختلف تغیرات آئے۔ سوریہ (شام) میں جب لات پہنچی تو وہاں بارش کے دیوتا مداد کی بیوی بن گئی اور اس کا نام بار بارجینس ہوگیا پھر اس کو بطی قوم لے گئی اور ربۃ البیت (گھر کی مالکہ) نام رکھا۔ ایفانیوس کا قول ہے کہ اس دیوتا کی شکل جس کو ذوالشریٰ کہا جاتا تھا لات دیوی کی مورتیوں میں سے کسی مورتی کی ہم شکل تھی۔ اس قول کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ دلہن کی یہ صراحت کہ لات سورج کی دیوی تھی صحیح ہے اس کی تائید استرابو کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں بیان کیا جاتا ہے کہ بطی لوگ سورج کی پوجا کرتے تھے۔ (الاساطر العربیتہ قبل الاسلام) (غریٰ ) بھی ایک بت ہی کا نام تھا۔ (الغریٰ ) کے متعلق یہ تو ظاہر ہے کہ عز سے مشتق ہے جس کے معنی غلبہ کے ہیں۔ ” عز “ کا اسم تفصیل مونث (عزیٰ ) ہے یعنی بہت غالب آنے والا۔ وہیں عجب نہیں کہ یہ قریش اور ان کے ہم نسب قبائل کی دیبی ہو اور غالباً یہی سبب ہے کہ جنگ احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی اور وہ کوہ احد پر چڑھ گئے تو ابو سفیان نے دامن کوہ میں کھڑے ہو کر مسلمانوں کو خطاب کر کے (عزیٰ ) کی جے پکاری تھی کہ لنا العزیٰ ولا عزیٰ لکم کہ ہماری طرف عزیٰ ہے اور تمہاری طرف کوئی عزیٰ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے عمر فاروق ؓ سے فرمایا تھا کہ تم اس کے جواب میں فرمایا اللہ مولانا ولا مولالکم اللہ ہمارا آقا ہے اور تمہارا کوئی آقا نہیں۔ (صحیح بخاری غزوہ احد بحوالہ ارض القرآن سیدنا سلیمان ندوی ؓ پھر سید صاحب ؓ نے سیرۃ النبی میں فرمایا ہے کہ (عزیٰ ) ایک دخت تھا اس کے پاس ایک بت تھا اور یہ قبیلہ خلفان کا بت تھا لیکن قریش بھی اس کی نہایت عزت کرتے تھے اور اس کی زیارت کو جاتے تھے اور قریش جب کعبہ کا طواف کرتے تھے تو تلبیہ اس طرح پڑھا کرتے تھے۔ الات و العزیٰ و مناۃ الثالثۃ الاخریٰ انھن الغراتیق العلی وان شفاعتھن لترتہی (نجم البلدان لفظ الات و کتاب الاصنام للکلبی مطبوعہ دارالکتب المصربہ 1324 ء ص 19) ۔ ” این سیدہ سے منقول ہے کہ (عربی) ” اعزا “ کی تانیث ہے جیسے کہ فضلی افضل کی اس صورت میں (العزیٰ ) کا الف لام زائد نہیں بلکہ الحارث اور العباس کی طرح ہے اور قاعدہ کے لحاظ سے نہ زائد ہونا چاہئے کیونکہ جس طرح الصغریٰ اور الکبریٰ کا استعمال صفات کے سلسلہ میں سنا ہے اس طرح العزیٰ کا نہیں سنا۔ (تاج العروس) مشرکین اپنے دیوتائوں کے نام زیادہ تر مونث رکھتے تھے چناچہ لات ‘ عزیٰ ‘ اور مناۃ تینوں مونث ہیں وہ ان کو العیاذ باللہ ‘ اللہ رب العزت کی بیٹیاں سمجھ کر پوجتے تھے۔ امام محمد بن جریر طبریٰ المتوفی 310 ھ جو بہت مشہور مفسر اور مورخ گزرے ہیں۔ (غریٰ ) کے متعلق مفسرین سلف سے حب ذیل اقوال نقل کرتے ہیں ‘ یہ ایک درخت تھا۔ (مجاہد) یہ ایک سفید پتھر تھا۔ (سعید بن جبیر) یہ طائف کا ایک مٹھ تھا۔ (ابن زید) یہ بطن نخلہ میں تھا۔ (قتادہ) (تفسیر ابن جریر ج 27 ص 32) (عزیٰ ) ایک کیکر کا درخت تھا جس کی قبیلہ خلفان پوجا کیا کرتا تھا۔ ظالم بن اسعد نے سب سے پہلے اس کی پرستش شروع کی تھی۔ یہ ذات عرق سے اوپر بستان کی طرف نو میل پر تھا اور علامہ ابو حیان اندلسی نے ابوعبیدہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ (عزیٰ ) اور مناۃ کعبہ میں تھا اور پھر علامہ موصوف نے ان سب اقوال میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ یہ ممکن ہے کہ طائف ‘ بطن نخلہ اور کعبہ شریف تینوں میں اس کی مورتیاں رکھی ہوں اور ہر ایک نے اپنے علم میں اس نام کا بت جہاں رکھا تھا اس کو بنایا ہو۔ (البحرا المحیط ج 8 ص 211 طبع مصر 1328 ھ) حافظ ابن کثیر ؓ فرماتے ہیں کہ (عزیٰ ) ایک درت تھا جہاں ایک عمارت بنی ہوئی تھی اور اس پر پردے پڑے رہتے تھے یہ مقام نخلہ ہی تھا جو طائف اور مکہ مکرمہ کے درمیان ہے۔ قریش اس کی بہت عزت کرتے تھے اور عظمت جانتے تھے جیسا کہ ابوسفیان نے احد کے دن اس کی جے بولی تھی۔ بخاری میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جس شخص نے قسم کھائی اور اپنی قسم میں اللات والعزیٰ کہا یعنی لات اور عزیٰ کی قسم کھائی اس کو چاہئے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے یوں کہا کہ آجوا کھیلیں تو وہ صدقہ دے اور یہ حکم اس شخص کے بارے میں ہے کہ جس کی زبان سے بےساختہ یہ کلمات نکل جائیں جس طرح کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کی زبانوں پر یہ الفاظ چڑھے ہوئے تھے۔ چناچہ نسائی نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کی ہے کہ میری زبان سے لات و عزیٰ کی قسم نکل گئی تو میرے ساتھیوں نے مجھے ٹوکا کہ تم نے برا کیا اور ایک بیہودہ بات زبان سے نکالی۔ میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کہو لا الہ الا اللہ وحدہ ‘ لا شریک ‘ لاہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شئی و قدیر اور تین دفعہ بائیں طرف تھتکار دو اور اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھو اور آئندہ ایسا کبھی نہ کہنا۔ ازیں بعد ابن اسحٰق کی کتاب السیرۃ سے نقل کرتے ہیں کہ ” اہل عرب نے کعبہ شریف کے علاوہ بھی بہت سے استھان بنا رکھے تھے چناچہ متعدد بت خانے ایسے تھے جن کی وہ خانہ کعبہ کی طرح تعظیم کرتے تھے۔ (بالکل اس طرح جس طرح آج کل ہمارے لوگ قبروں اور مزاروں کی کرتے ہیں) ان بت خانوں میں پجاری اور دربان بھی ہوتے تھے اور کعبہ کو جس طرح ہدی جاتی ہے یہاں بھی بدی دی جاتی تھی۔ (جس طرح ہمارے لوگ خانقاہوں پر بکرے ‘ چتھرے بطور چڑھاوے چڑھاتے ہیں) ان کا طواف بھی ہوتا تھا اور گویا قربانی بھی ہوتی تھی حالانکہ وہ لوگ ان بت خانوں پر کعبہ کی فضیلت بھی مانتے تھے کیونکہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عبادت کدہ بنایا ہوا ہے۔ چناچہ مقام نخلہ میں قریش اور بنی کنانہ کی دیبی عزی تھی اور اس کے پجاری اور دربان قبیلہ سلیم میں سے بنی شابہن تھے جو بنی ہاشم کے حلیف تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو عزی کی طرف بھیجا تھا اور انہوں نے اس کو منہدم کیا تھا اور گراتے وقت خالد بن ولید ؓ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ ؎ یا عزیٰ کفر انک لا سبحانک انی رایت اللہ قد اھانک ” اے عزیٰ تیرا انکار ہے تیری پاکیزگی نہیں۔ میں نے دیکھ لیا کہ اللہ نے تجھے ذلیل کردیا ہے “۔ نسائی میں ابو الطفیل ؓ سے روایت ہے کہ جب نبی اعظم و آخر ﷺ نے مکہ کو فتح کرلیا تو حضرت خالد بن ولید ؓ کو نخلہ کی جانب روانہ فرمایا۔ عزیٰ کی دیوی وہیں تھی۔ چناچہ خالد بن ولید ؓ وہاں آئے اور اس مقام پر ببول کے تین درخت تھے۔ انہوں نے سب کو کاٹ ڈالا اور اس کے مٹھ کو گرا دیا اور جو کچھ اس پر بنا تھا اور اس کے بعد آپ ﷺ کی خدمت مبارک میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی تو آپ ﷺ نے فرمایا واپس جائو تم نے ابھی کچھ نہیں کیا۔ خالد ؓ واپس آئے تو پجاریوں نے جو دربان بھی تھے ان کو آتے دیکھا تو (عزیٰ ) کی جے لگائی اور پہاڑ کے اندر جا کر کہیں غائب ہوگئے۔ خالد ؓ اس مقام پر آئے تو ایک عورت کو دیکھا جو برہنہ تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے اور سر پر خاک اڑا رہی تھی۔ خالد ؓ نے دیکھا تو اس کا سر قلم کردیا اور واپس آ کر نبی کریم ﷺ کو خبر دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بس اب صحیح ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج 4 ص ‘ 254 طبع مصر ۔ 1367 ھ) ابوالمنذر ہشام کلبی نے کتاب الاصنام لکھی تو اس مسلمان نما یہودی نے نہ معلوم کس طرح یہ تحریر کردیا کہ : وقد بلغنا ان رسول اللہ ﷺ ذکر ھا یوما فقال لقد اھدیت للعزیٰ شاۃ عفورا اونا علی دین قومی (کتاب الاصنام ص 19 طبع امیریہ قاہرہ 1332 ھ) ” اور ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز عزیٰ کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں نے عزیٰ پر ایک کالی رنگ کی بھیڑ چڑھائی بھی جب کہ میں ابھی اپنی قوم کے دین پر تھا “ لا ریب یہ ایک واہیات بات ہے جو ہشام کلبی نے ذکر کردی ہے اور پھر تعجب ہے کہ اس نے اس کا کوئی مآخذ بھی ذکر نہیں کیا اور جب اتنے قریب کہ آدمی نے ایسی بات کہہ دی تو آج وہ ہمارے پاس ایک نقل شدہ بات ہو کر رہ گئی اور جب ہم اس کتاب کے دوسرے حوالے نقل کرتے ہیں تو دوسروں کا حق ہے کہ وہ ان باتوں کو نقل کر کے ان کو دلیل بنائیں اس لئے ہم بار بار تحریر کرتے چلے آ رہے ہیں کہ آنکھیں بند کر کے صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات ہی تسلیم کی جاسکتی ہے باقی کسی کی بات ہو اس کو تحقیق کے بعد ہی دلیل بنایا جاسکتا ہے اور اس سے تائید حاصل کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ اس بات پر تمام اہل حق کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) نبوت سے پہلے بھی شرک و کفر سے معصوم تھے کیونکہ ان کی تربیت براہ راست رب کریم کی قدرت کے تحت تھی جس میں کسی انسان کا بہت کم دخل تھا۔ لیکن افسوس کہ بعض اس طرح کی بےبنیاد باتیں نبی اعظم و آخر ﷺ کی طرف لوگوں نے اس طرح منسوب کردیں کہ انہوں نے قطعاً غور نہیں کیا کہ یہ بات ہم کس شخصیت کے بارے میں کہہ رہے ہیں اس طرح ہشام بن عروہ کی زبانی بھی نقل کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے ایک صاحب زادہ کا نام عبدالعزیٰ رکھا جو سیدہ خدیجتہ الکبریٰ کے بطن سے پیدا ہوا تھا جو زمانہ اسلام سے قبل ہی وفات پا گیا تھا حالانکہ یہ بھی محض ایک غلط بات ہے اگرچہ یہ تاریخ صغیر امام بخاری ؓ ص 3 طبع انوار احمدی الٰہ آباد میں نقل کیا گی ا ہے۔ بحمد اللہ اس کو امام طحاوی ‘ بیہقی ‘ ابن الجوزی ‘ ابن الناصر ‘ حافظ قطب الدین حلبی وغیرہ نے اس واقعہ کے غلط ہونے کی تصریح کردی ہے۔ جزا کم اللہ احسن الجزاء۔ (شرح الزرقانی علی المواہب الدنیہ ج 3 طبع مصر 1346 ھ) زیر نظر آیت میں ان دو معبودان باطل کا ذکر کر کے قریش مکہ اور دوسرے عرب گروہوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اور جلال و جبروت اور اس کی محکم قدرت اور آسمان و زمین میں ان احکام کی تنقیذ کے آثار کا ذکر کرنے کے بعد کہا جا رہا ہے کہ تف ہے تم پر کہ ان باتوں سے منہ چڑھا رہے ہو اور اپنی اختراعی باتوں کو حقیقت سمجھتے ہو اور ان حقیر و ذلیل بتوں اور ان گھڑے پتھروں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو لیکن تم نے کبھی غور نہیں کیا کہ اس سے بڑھ کر کوئی حماقت ہو سکتی ہے جو تم کر رہے ہو ؟
Top