Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 34
وَ اَعْطٰى قَلِیْلًا وَّ اَكْدٰى
وَاَعْطٰى : اور اس نے دیا قَلِيْلًا : تھوڑا سا وَّاَكْدٰى : اور بند کردیا
اور تھوڑا سا دیا اور پھر ہاتھ کھینچ لیا
وہ تھوڑا سا آگے بڑھتا ہے اور پھر پیچھے ہٹ جاتا ہے 34 ؎ (اعطیٰ ) ” اس نے دیا “ (اعطاہ) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اس جگہ دینے سے مراد فرمانبرداری کرنا اور بات کو سن کر مائل ہونے کے ہیں یعنی اس نے قرآن کریم جیسا کلام سنا تو فرمانبرداری کی طرف مائل ہوا لیکن جب اپنے سرداروں اور ساتھیوں کی باتیں سنیں تو پھر قدم پیچھے ہٹا لیا اور اسلام کو قبول کرنے کی جرأت پیدا نہ ہوئی۔ حالانکہ اس کے لئے مائل بہ اعتراف تھا اور بات کو قبول کرنے پر دل آمادہ ہوتا تھا۔ (اکدی) وہ پتھر کی طرح سخت نکلا۔ (اکدہ) سے جس کے معنی زمین کے پتھر کی طرح سخت نکلنے کے ہیں۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب (اکدہ) اصل میں کدیتہ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی زمین کے سخت ہونے کے ہیں۔ چناچہ جب کنواں کھوایا جائے اور اس میں کوئی ایسا پتھر نکل آئے جو کھودنے سے عاجز کر دے تو اس وقت کہتے ہیں فدا کدی یعنی بہت سخت نکلا۔ پھر اہل عرب اس کا استعمال اس شخص کے متعلق کرنے لگے جو کچھ دے کر رک جائے اور پورے طور پر عطا نہ کرے یا ذرا طلب کرے اور پھر طلب کرنے سے باز رہے۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ کفر میں رہنے کے باوجود منافقت سے کام لیتے رہے کہ اسلام کی طرف مائل ہونے کے باوجود کفر پر قائم رہے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کو وقت نے مہلت نہ دی کہ وہ بھیڑ چال کے تحت اسلام میں داخل ہوجاتے کیونکہ اس وقت اسلام میں داخل ہونا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔ وہ اسلام کی دعوت سے متاثر تھے لیکن اعلان کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے اور یہ ہمت محض ان کے نفاق کے باعث ان کو میسر نہ آئی اور بلاشبہ سرداران قریش میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی اور آج بھی وڈیروں کی تقریباً یہی حالت ہے جو اس وقت تھی کہ صحیح اور سچی باتوں کو ان کے دل قبول کرتے ہیں لیکن رسم و رواج اور اکثریت کا ہوا ان کو وہیں کھڑا رہنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اس کے ہاتھوں ہمیشہ مجبور رہتے ہیں۔
Top