Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 42
وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰىۙ
وَاَنَّ اِلٰى رَبِّكَ : اور بیشک تیرے رب کی طرف الْمُنْتَهٰى : پہنچنا ہے۔ انتہا ہے
اور یہ کہ (سب کو) آپ ﷺ کے رب تک پہنچنا ہے
اور ہاں ! سب کو اپنے پروردگار حقیقی کے ہاں پہنچنا ہے خواہ وہ کوئی ہے اور کون ہے 42 ؎ فکر انسانی کی انتہا کیا ہے ؟ یہی سعی و کوشش کی انتہا ہے کہ وہ اپنی دنیا کے سنوارنے کی سعی و کوشش کرے اور اس کی سعی و کوشش اس طریقہ سے ہو کہ اس کی آخرت برباد نہ ہوجائے کیونکہ اس کی انتہا اس کی آخرت ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں یعنی اس سے آگے اس کی کوشش اور سعی بیکار ہے۔ اس سے آگے کیا ہے ؟ اس سے آگے اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہے جو خالق کل ہے اور خالق کے متعلق غور و فکر کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ وہ ذہن انسانی سے ماورا ہے اور عقل انسانی اس کا احاطہ نہیں کرسکتی اور یہ بھی کہ ہر انسان کی انتہا رب کریم ہی کی ذات ہے کیونکہ ہر ایک انسان خواہ کوئی ہو ‘ کون ہو اور کہاں ہو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہے اور کوئی نہیں جو کسی کو اس کی جوابدہی سے بچا لے ‘ ہاں ! وہ خود جس کو چاہے اپنے کامل علم کی بناء پر نہ پوچھے کیونکہ وہ بغیر کسی کے بتائے ہر ایک کے متعلق جانتا ہے پھر وہ کسی کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کر دے تو اس کے اس احسان کا جو حق دار ہوا وہ یقینا اسی پر احسان فرمائے گا اور حدیث میں بعض لوگوں کے متعلق آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کرے گا جیسے وہ لوگ جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں۔
Top