Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 52
وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا هُمْ اَظْلَمَ وَ اَطْغٰىؕ
وَقَوْمَ نُوْحٍ : اور قوم نوح کو مِّنْ قَبْلُ ۭ : اس سے قبل اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : تھے وہ هُمْ اَظْلَمَ : وہ زیادہ ظالم وَاَطْغٰى : اور زیادہ سرکش
اور اس سے قبل بھی قوم نوح کو (ہلاک کیا) کہ وہ بڑے ظالم (مشرک) اور سرکش (لوگ) تھے
اس سے پہلے قوم نوح کو ہلاک کیا کہ وہ بڑے سرکش لوگ تھے 52 ؎ سیدنا آدم (علیہ السلام) کے بعد نوح (علیہ السلام) پہلے و رسول ہیں جن کو رسالت سے نوازا گیا۔ نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن کریم کی تقریباً 28 سورتوں میں آیا ہے یعنی سورة آل عمران ‘ سورة النساء ‘ سورة الانعام ‘ سورة الاعراف ‘ سورة التوبہ ‘ سورة یونس ‘ سورة ہود ‘ سورة ابراہیم ‘ سورة الاسراء ‘ سورة مریم ‘ سورة الانبیاء ‘ سورة الحج ‘ سورة المومنون ‘ سورة الفرقان ‘ سورة الشعراء ‘ سورة العنکبوت ‘ سورة الاحزاب ‘ سورة الصافات ‘ سورة ص ‘ سورة غافر ‘ سورة الشوریٰ ‘ سورة ق ‘ سورة الذاریات ‘ سورة النجم ‘ سورة القمر ‘ سورة الحدید ‘ سورة التحریم اور سورة نوح۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے تمام قوم اللہ تعالیٰ کی توحید اور صحیح روشنی سے یکسر نا آشنا ہوچکی تھی۔ اور ایک اللہ رب کریم کی جگہ خود ساختہ بتوں نے لے لی تھی۔ غیر اللہ کی پرستش کا سلسلہ عام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی رشد و ہدایت کے لئے ان ہی میں سے ایک رسول نوح (علیہ السلام) کو ہادی و راہنما بنا کر بھیج دیا۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو راہ حق کی طرف پطکارا اور سچے مذہب کی طرف دعوت دی لیکن قوم نے نہ مانا اور نفرت و حقارت کے ساتھ انکار پر اصرار کیا۔ امراء و رئوسائے قومنی ان کی تکذیب و تحقیر کی۔ وہ غریب اور نادار افراد کو جب نوح (علیہ السلام) کا تابع فرمان دیکھتے تو نہایت مغرورانہ انداز میں حقارت سے کہتے : ” ہم ان کی طرح نہیں ہیں کہ تیرے تابع فرمان بن جائیں اور تجھ کو اپنا مقتدا مان لیں “ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کمزور اور پست لوگ نوح (علیہ السلام) کے اندھے مقلد ہیں ‘ پھر نہ تو یہ لوگ ذی رائے ہیں کہ ہماری طرح اپنی جانچی ‘ پرکھی رائے سے کام لیتے اور نہ ہی ڈی شعور لوگ ہیں کہ حقیقت حال کو سمجھ لیتے اور اگر وہ نوح (علیہ السلام) کی بات کی طرف کبھی توجہ بھی دیتے تو ان سے اصرار کرتے کہ پہلے ان پست اور غریب افراد قوم کو اپنے پاس سے نکال دے تب ہم تیری بات سنیں گے کیونکہ ہم کو ان سے گھن آتی ہے اور ہم ان کے ساتھ مل کر ایک مجلس میں نہیں بیٹھ سکتے۔ نوح (علیہ السلام) ان کو کہتے کہ یہ بھی انسان ہیں میں یہ نہیں کرسکتا کیونکہ یہ اللہ کے مخلص بندے ہیں۔ تم یہ بات کان کھول کر سن لو کہ اللہ رب کریم کی سعادت و خیر کا قانون ظاہری دولت و حشمت کے تابع نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ہاں سعادت وہدایت کا ہصول و ادراک سرمایہ کی رونق کے زیر اثر ہے بلکہ اس کے برعکس طمانیت نفس ‘ رضا الٰہی ‘ غناء قلب اور اخلاص نیت و عمل پر موقوف ہے۔ نوح (علیہ السلام) ان سے کہتے کہ مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں اور نہ ہی جاہ و منصب کی ‘ نہ میں کسی اجرت کا طلبگار ہوں۔ مختصر یہ کہ نوح (علیہ السلام) نے انتہائی کوشش کی کہ بدبخت قوم سمجھ جائے لیکن قوم نے نوح (علیہ السلام) کی ایک نہ مانی اور جس قدر نوح (علیہ السلام) کی جانب سے تبلیغ حق میں جدوجہد ہوئی اسی قدر قوم کی جانب سے نغض وعناد میں سرگرمی کا اظہار ہوا اور ایذا رسانی اور تکلیف دہی کے تمام وسائل کا استعمال کیا گیا اور ان کے بڑوں نے عوام سے صاف صاف کہہ دیا کہ تم کسی طرح دو ‘ سواع ‘ یغوث ‘ اور نسر جیسے بزرگوں کے بتوں کی پرستش نہ چھوڑو بلکہ ان پر قائم رہو اور نوح (علیہ السلام) کو تو کسی کی مار لگ گئی ہے اس لئے وہ پاگل ہوگیا ہے۔ تب ہی اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ بہرحال یہ بات ایک مدت اسی طرح ہوتی رہی اور قوم کے وڈیروں نے نوح (علیہ السلام) کا ناطقہ بند کردیا اور اس کا انجامیہ ہوا کہ نوح (علیہ السلام) کو اللہ نے حکم دیا کہ آپ ایک بہت بڑی کشتی تیار کریں ہم آسمان کو کہیں گے وہ برسنا شروع ہوجائے گا اور زمین سے کہیں گے تو اس سے چشمے ابلنے لگیں گے اور صرف وہی لوگ بچیں گے جو تیری کشتی میں سوار ہوں گے۔ اس پیش گوئی کے مطابق نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنانا شروع کی۔ قوم کے لوگ اس کیتت کا بہت مذاق اڑاتے رہے بہرحال وہ وقت بھی آگیا کہ آسمان نے برسنا شروع کردیا اور زمین سے چشمے ابلنے لگے۔ نوح (علیہ السلام) نے صدائے عام دی کہ آئو کشتی میں سوار ہو جائو لیکن نوح پر ایمان لانے والوں کے سوا کوئی شخص بھی کشتی کے قریب نہ گیا۔ نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانی والے لوگ اور وقتی ضرورت کی اشیاء اور جانور سب کے سب نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے سوار کر لئے اور پانی کا یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ نوح (علیہ السلام) کی اس کشتی کے سوا باقی ساری مخلوق جو اس علاقے میں تھی تباہ و برباد ہوگئی اور نوح (علیہ السلام) کے مخالفین میں سے ایک بھی باقی رہا یہاں تک کہ آپ کا بیٹا جو کشتی پر سوار نہ ہوا اور وہ بھی جان بوجھ کر اور سمجھ سوچ کر سوار نہ ہوا لہٰذا وہ بھی قوم کے ساتھ ہی غرق ہو کر رہ گیا۔ تفصیل ” نوح (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت “ میں ملے گی جو غزوہ الوثقیٰ ‘ جلد چہارم میں سورة ہود کی آیت 49 کے بعد درج کی گئی ہے۔ زیر نظر آیت میں نوح (علیہ السلام) کی قوم کے ظلم اور سرکشی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ تفصیل بیان نہیں کی گئی۔
Top