Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 55
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ تَتَمَارٰى
فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكَ : پس کون سی اپنے رب کی نعمتوں کے ساتھ۔ پس ساتھ کون سی اپنے رب کی نعمتوں کے تَتَمَارٰى : تم جھگڑتے ہو
اب (اے انسان ! ) تو اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائے گا
اے انسنا تو ہی بتا کہ تو اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائے گا 55 ؎ (تعماری ) مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تو جھگڑا کرے گا۔ تو جھٹلائے گا ۔ تو شک کرے گا۔ تمہاری سے جس کے معنی شک کرنے اور جھگڑنے کے ہیں۔ اس آیت میں ہر اس شخص کو جس نے ان گزشتہ اقوام کے تذکار پڑھے یا سنے ہیں ان کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اقوام جن کا ذکر تو نے پڑھایا یا سنا ہے یعنی عاد ‘ ثمود ‘ قوم نوح اور قوم لوط وغیرہ جن کو عذاب الٰہی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟ محض اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں شک کیا اور انبیاء کرام اور رسل عظام (علیہ السلام) سے وہ جھگڑتے رہے ان کو جو کچھ دیا گیا جس پر وہ اترائے اور پھولے نہ سمائے انہیں یقین ہی نہ آیا کہ ان انعامات سے اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے ان کو نوازا ہے بلکہ وہ غیر اللہ ہی کو اپنا داتا اور ان انعامات سے نوازنے والا سمجھتے رہے اور جب ان کے نبیوں اور رسولوں نے ان کو اس غلطی سے بچانے کی کوشش کی تو وہ ان نبیوں اور رسولوں ہی کے خلاف ہوگئے۔ ان کا مذاق اڑایا ‘ ان کو اذیتیں پہنچائین اور اس طرح سے ان کو تنگ کیا لیکن اس طرح جب ان کو دی گئی ڈھیل اور مہلت ختم ہوگئی تو وہ اپنے کئے کی سزا پا گئے اور دوسروں کے لئے ان کو درس عبرت بنا دیا گیا اور سب سننے والوں کو کہا جا رہا ہے کہ اگر تم لوگوں نے بھی وہی روشن اختیار کی تو یاد رکھو کہ تمہارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو ان کی ساتھ ہا۔ اب غور کرو کہ اس وقت ہم کیا کر رہے ہیں ؟ وہی کچھ جو کچھ وہ کرتے رہے تھے بلکہ ان سے بھی ہماری حالت ناگفتہ بہ ہے اور یقین جانئے کہ اس وقت ہم بھی چاروں طرف سے اسی طرح گھر کر رہ گئے ہیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ کسی کو یقین آئے یا نہ آئے ہر تعمیر کے لئے تخیرب لازم و ضروری ہے اور تخریب بہرحال جاری ہے۔ اقوام عالم کی تارخ گواہ ہے کہ تخریب ہوتی رہی ہے اور تخریب کے بعد تعمیر بھی ہوئی ہے اور اگر اب تخریب جاری ہے تو اس کا انجام کس طرح ہوگا ؟ واللہ اعلم لیکن بہرحال ہوگا ضرور کیونکہ یہ بات حتمی ہے پھر اس کے بعد اصلاح ہوگی یا تخریب کے بعد پھر تخریب تاآنکہ اصلاح ہوجائے۔ (الاء) جمع ہے الی اور الی کے معنی نعمت کے ہیں۔ نعمتیں یا احسانات۔ ای کے معنی ہیں کونسا ‘ کونسی ‘ جس ‘ جس میں ‘ کس کس ‘ کیا کیا۔ یہ استفہامیہ بھی ہوتا ہے اور شرطیہ بھی۔ صفت بھی واقع ہوتی ہے اور جس پر الف لام داخل ہو اس کی ندا کا صلہ بھی نیز موصولہ بھی ہوتا ہے مگر بعض نے موصولہ ہونے سے انکار کیا ہے۔
Top