Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 7
وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰىؕ
وَهُوَ : اور وہ بِالْاُفُقِ : افق پر تھا الْاَعْلٰى : بالائی۔ اعلیٰ
اور وہ افق اعلیٰ پر تھا
اور وہ افق اعلیٰ یعنی آسمان کے بلند ترین کنارے پر تھا 7 ؎ جب یہ بات طے ہے کہ یہ سفر جو بین النوم والیقظان کیا گیا جسم مثالی اور روح کے کے جوڑ سے طے ہوا ہے اور یہ الفاظ ہم محض تفہیم کے لئے بولنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے احاطہ عقل میں نہ آنے والی حقیقت کا بیان کرنا مقصود ہے اس میں ایک بلانے والا ہے اور ایک بلایا گیا ہے اور ایک بلا کر لانے والا ہے اس لئے جہاں بلانے والے کا ذکر ہوگا وہاں ضمائر اس کی طرف پھریں گی اور جہاں بلائے گئے کی بات ہوگی وہاں ضمائر بلانے والے کی طرف پھریں گی اور اسی طرح جہاں بلا کر لانے والے کا ذکر آئے گا تو ضمائر خود بخود اس کی طرف پھرتی چلی جائیں گی اور ان اشارات و استعارات کے لئے ضمائر کا آنا ہی ضروری تھا۔ گزشتہ آیت میں ہمارے خیال میں بلانے والے یعنی اللہ رب کریم کا ذکر تھا اور اب بلائے جانے والے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ افق اعلیٰ یعنی آسمان کے بلند ترین کنارہ پر پہنچ گئے اور (افق اعلیٰ ) اس کا نام محض اس لئے رکھا گیا کہ انسان کے ذہن کی رسائی اس سے آگے ممکن نہیں ہے اور انسان کا تخیل بھی اس جگہ جا کر رک جاتا ہے اس لئے آپ ﷺ وہاں تک گویا پہنچ گئے جہاں تک انسانی عقل و فکر کی رسائی ممکن ہے اور جس سے آگے کی حدود انسانی عقل میں آنے والی نہیں اور ان مشاہدات کا وہاں تک پہنچ کر رک جانا ضروری ہے۔ انسان کتنی ہی بلندی پر رسائی حاصل کرلے لیکن اس کے آگے اس کی رسائی ممکن نہیں ہے اور یہی آنے والے اور اس دنیا میں ہونے والی ترقیوں کی انتہا ہے جہاں سے آگے انسان کے قدم نہیں چل سکیں گے خواہ وہ کوئی ہو ‘ کون ہو اور کہاں ہو اسی مقام کو قرآن کریم نے (افق اعلیٰ ) قرار دیا ہے یہ کتنے سیارگان سے آگے ہے اس کی ہقیقت کو صرف اور صرف اللہ رب ذوالجلال والاکرام ہی جانتا ہے اس کا نام اگر دنیا ہے تو کوئی ” لامکان “ کہے اور کوئی ” لاہوت “ قرار دے اور چاہے جو الفاظ اس کے لئے اختیار کری بہرحال چونکہ اس کی ایک حد مقرر کی گئی ہے خواہ ہم میں سے اس کی نوعیت حقیقت کو کوئی سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے بہرحال اس کی ضمیر اللہ رب کریم کی طرف راجح نہیں بلکہ نبی اعظم و آخر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ ہی مراد لئے جاسکتے ہیں اگرچہ اس جگہ بھی مراد اکثریت نے جبریل (علیہ السلام) ہی لئے ہیں لیکن ہم نے اپنی تفہیم آپ ﷺ کے سامنے واضح کردی ہے ۔ آپ حضرات سے ہمارا کوئی تقاضا نہیں جو بات آپ کی سمجھ میں آتی ہے وہ آپ مراد لے سکتے ہیں جہاں وسعت موجود ہے ہم اس وسعت کو تنگ کرنے کیلئے کسی حال میں تیار نہیں۔ ہاں ! جوں جوں آگے چلیں گے مضمون ان شاء اللہ مزید کھلتا جائے گا اور اسی وسعت میں مزید وسعت پیدا ہوتی جائے گی۔
Top