Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 15
وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍۚ
وَخَلَقَ الْجَآنَّ : اور اس نے پیدا کیا جن کو مِنْ مَّارِجٍ : شعلے والی سے مِّنْ نَّارٍ : آگ سے۔ آگ کے
اور جن کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا
اور (الجان) کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا ہے 51۔ (الجان) کا لفظ قبل ازیں سورة الحجر کی آیت 72 میں بھی گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں ملا خطہ ہو جلد پنجم ص 85۔ زیر نظر آیت (الانسان) اور (الجان) دو متقابل شخصیتوں کے طور پر بیان ہوئے ہیں اور اوس کی وضاحت آپ پڑھ چکے ہیں کہ ہماری فہیم کے مطابق جب یہ دونوں الفاظ دو متقابل شخصیتوں کے لیے بولے جائیں تو انسان یعنی (الانسان) اور اسی انسان جنس کی ایک دوسری قسم کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ فرشتہ کے مقابلہ کی مخالف قوتوں کے لیے اس لیے اس جگہ ہم انسان ہی کی جنس کی دوسری قسم کے متعلق اس کو سمجھتے ہیں کو رن کہ اس جگہ جس شخصیت کا بیان ہے وہ انسان کے مقابلہ میں برابر کی مکلف ہے اور اس کو الگ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں آگ کا عنصر زیادہ اور اسی جبلت کے باعث اس کو الگ قسم کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ جس طرح اس کی جبلت میں فرق ہے اس کی معاشرتی زندگی میں بھی وہ جبلی فرق نمایاں ہے ایک مدنی زندگی کو پسند کرتا ہے اور دوسرا بدوی زندگی کو اور اسی طرح دوسرے فرق بھی نمایاں ہیں۔ زیر نظر آیت میں (الانسان) کے لیے ایک لفظ (کالفخار) آیا ہے لیکن (الجان) کے لیے (مارجٍ منٍ نارٍ ) کے الفاظ بھی بولے گئے ہیں اور (مارج) آگ کی لپٹ ‘ بھڑکتا ہوا شعلہ جس میں دھواں نہ ہو۔ (قاموس) (مرج) چراگاہ اور چراگاہ میں جانوروں کو چھوڑ دینا (مرج) چراگاہ میں چھوڑے ہوئے اونٹ ‘ تباہی ‘ بےچینی ‘ تباہ ہونا۔ ڈانواں ڈول ہونا اور ہاتھ میں انگوٹھی کا فٹ (Fit) نہ ہونا وغیرہ سب پر بولا جاتا ہے ۔ (حوط مریج) آپس میں گھتی ہوئی ، لپیٹی ہوئی ٹہنیاں۔ (امر مریج) مشتبہ اور گٹر بڑ کام۔ امام راغب (رح) نے (مارج) کا ترجمہ لھیب مختلط کیا ہے اور اس کو قرآن کریم نے دوسری جگہ (من نار السموم) (الحجر : 72) ” تیز قسم کی حرارت “ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ آگ کا شعلہ نظر آتا لیکن چونکہ مفسرین کی اکثریت نے (الجان) سے ابو الجن مراد لیا ہے اور ان جنوں کو انسانوں کی طرح مکلف قرار دیا ہے اور انبیاء و رسول کو جو بنی نوع انسان کے لیے آئے ہیں ان ہی کو بنی نو عِ جن کے لیے بھی نبی و رسول مانا ہے حالانکہ یہ نظریہ کتاب و سنت کے بالکل خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے بار بار نبی و رسول نوع بشر سے ہونالازم و ضروری قرار دیا ہے لیکن نوع جن سے کسی نبی و رسول کا بیان نہیں کیا اگر کوئی شخص نوع جن سے کسی نبی و رسول کا ہونا تسلیم کرتا ہے یہ نطریہ بھی اسلام کا نظریہ نہیں اور اگر نبی نوع انسان کے لیے ہونے والے 7 انبیاء و رسل کو بنی نوع جن کے لیے بھی نبی و رسول مانا جائے تو یہ نظریہ بھی اسلام کا نظریہ نہیں کہلا سکتا لیکن اگر نبی نوع انسان کے دواقسام تسلیم کی جائیں جو فی الواقع موجود بھی ہیں ، پہلے بھی تھیں اور آج بھی ہیں اور دونوں کی رہائش ، بودوباش اور رہن سہن کے طریقوں اور دوسرے کاموں میں بھی واضح فرق موجود ہے اور دونوں کا تعلق بھی ایک نوع انسان ہی سے ہے لیکن اس کے باوجود مازج کا فرق واضح ہے تو اس کے پیش نظر اس نظریہ 9 کو قبول کرنا ہی زیادہ قرین قیاس اور مازج اسلام کے قریب ہے اگرچہ اس کے ماننے والے آٹے میں نمک ہی کے برابر ہوں یا اس سے بھی کم اور ان پر طرح طرح کے الزام بھی لگائے گئے ہوں جیسے ان کو معتزلہ ‘ مرجیہ ہی کے ناموں سے کیوں نہ یاد کیا گیا ہو کیونکہ کسی کی گالیوں سے حقیقت تو نہیں بدل جایا کرتی۔ ہمٰن تعجب ہے کہ ہم روزمرہ زندگی میں خود اپنی زبان اس طرح کے فقرات بولتے ہیں کہ ” فلاں آدمی تو نہیں وہ تو کوئی جنے “ ” اس کی کیا بات کرتے ہو وہ تو جن کی طرح کام کو چمٹ جاتا ہے۔ “ دفعہ ہو جائو تم تو جن کی طرح میرے پیچھے ہی پڑگئے ہو۔ “
Top