Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 14
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو مِنْ صَلْصَالٍ : بجنے والی مٹی سے كَالْفَخَّارِ : ٹھیکری کی طرح
اس نے انسان کو مٹی سے جو بجنے والی تھی پیدا کیا ہے
اسی نے (الانسان) کو مٹی سے جو بجنے والی تھی ، پیدا کیا ہے 14۔ اس جگہ جنس انسان کی دونوں قسموں کا بیان ہے اور دونوں کا آپس میں موازنہ بھی کیا گیا ہے اصل اگرچہ دونوں کی ایک ہے لیکن ایک ہی مٹی کا عنصر زیادہ ہے اور دوسرے میں بھڑکتے ہوئے شعلے کا اثر فوقیت رکھتا ہے جس نے ان دونوں میں ایک واضح فرق قائم کردیا ہے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھیں کہ نر (Male) اور مادہ (Female) دونوں ایک ہی جنس ہیں لیکن ایک جنس کی دو اصناف ہیں اور دونوں میں جو واضح فرق ہے اس سے ہر انسان واقف ہے اس کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں دونوں اصناف مکلف ہیں اگرچہ دونوں کے بعض احکام ایک جیسے ہیں لیکن بعض میں فرق ہے اور اس فرق نے ان کو ایک جنس ہونے کے باعث وہ الگ الگ اصناف میں تقسیم کردیا ہے ان دونوں کو نر اور مادہ یا مذکر و مئونث کی الگ الگ حیثیتوں میں رکھا گیا ہے اگرچہ جنس کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں لیکن ایک ہونے کے باوجود دو ہونے سے بھی کسی کو انکار نہیں ہے اور نہ ہی انکار ہوسکتا ہے اور یہی صورت اس جگہ ہے کہ (الانسان) کے مقابلہ میں (الجان) کا لفظ لاکر اس کی دوسری قسم کو واضح کیا گیا ہے اور جان بمعنی الحیۃ بھی بیان کیا گیا ہے اور (جن) کا اطلاق سانپ پر عام ہے کیونکہ وہ بھی تقریباً پوشیدہ رہنا ہی پسند کرتا ہے بلکہ پوشیدہ ہی رہتا ہے اور یہ بات اوپر واضح کی گئی ہے کہ ” جن “ کو کیوں جن کہتے ہیں اور اس کا اطلاق دنیا کی اکثر چیزوں پر ہوتا ہے اور خصوصاً سانپ کے لیے تو اس کا لفظ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے بلکہ قرآن کریم میں پانچ بارمحض جن کے لفظ پر اس کا اطلاق قرآن کریم میں موجود ہے فرق ہے تو فقط یہ ہے کہ (جان) پر الف لام نہیں لیکن ایک جگہ الف لام بھی موجود ہے جیسے سورة الحجر کی آیت 27 میں اور اس جگہ قابل غور بات صرف یہ ہے کہ (جان) یا (الجان) بطور تشبیہ کہا گیا ہے اس سے مراد وہ غیر مرئی مخلوق نہیں ہے جو ملک (فرشتہ) کے مقابلہ میں ذکر کی گئی ہے جس کے متعلق ہم نے اوپر وضاحت بھی کردی ہے کہ یہ مجسمہ برائی ہے جس میں خیر کا نام ونشان نہیں اور نہ ہی مکمن ہوسکتا ہے۔ جس طرح (الانسان) کو بھی کا لفخار کہا گیا ہے۔ (صلصال) بجتی ہوئی مٹی ، کھنکھناتی ہوئی مٹی ، وہ خشک مٹی کہ جب اس پر انگلی ماری جائے تو وہ بجنے اور کھنکھنانے لگے۔ (صلصال) کہلاتی ہے اور بعض نے اس کے معنی سٹری ہوئی مٹی کے کیے ہیں اور امام راغب (رح) لکھتے ہیں کہ : ” اصل میں (صلصال) خشک چیز کے بجنے کا نام ہے اور اسی سے محاورہ ہے صل المسار کھونٹی بجی اور اسی سے خشک مٹی (صلصال) سے موسوم ہے کیونکہ وہ بجتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے : (من صلصال کا لفخار) کھنکھناتی ہوئی مٹی سے جیسے پک کر تیار ہوجائے اور (من صلصال من حماء مسنون) کھنکھناتے سنے گارے سے اور (صلصلۃ) باقی ماندہ پانی پر بھی بولا جاتا ہے جو مشکیزہ میں ہلنے کی کھڑکھڑاہٹ سے مشابہ ہونے کے باعث اسی نام سے موسوم ہے اور بعض نے کہا ہے کہ (صلصال) سڑی ہوئی مٹی ہے اور یہ عرب کے محاورہ (صل اللحم) گوشت سٹر گیا ہے سے ماخوذ ہے۔ ان کا بیان ہے کہ اس کی اصل صلصال ہے ایک لام کو ” ص “ سے بدل لیا گیا ہے۔ “ (مفردات) ” (صلصال) سے وہ مٹی مراد ہے جس میں ریگ ملی ہوئی ہو اور اس طرح بجنے لگے جس طرح ٹھیکری بجتی ہے۔ “ (فراء “ ” ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ (صلصال) وہ خشک مٹی ہے جس کو آنچ نہ پہنچی ہو اور جب تم اس کو انگلی سے ٹھونکو تو بجنے لگے اور تم اس کی کھنکھناہٹ سن لو اور جب وہ آگ میں پکائی جائے تو (فخار) ہے نیز ہر وہ شے جو کھن کھن بولے (صلصال) ہے اور مجاہد نے سٹری ہوئی مٹی کے معنے روایت کیے ہیں۔ (فتح الباری ج 2 ص 257 ، 258) کسائی نے بھی مجاہد ہی کے قول کو اختیار کیا ہے۔ (معالم التنزیل ج 4 ص 53 طبع مصر 1332 ھ) ۔ اب مزید غور کرو کہ قرآن کریم نے جنس (الانسان) کی اصل کے لیے جو الفاظ پیش کیے ہیں وہ کیا ہیں۔ (1) { فااِنا خلقنکم من تراب } (الحج : 5) ” ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے “ اور اصل { تراب } خود زمین کا نام ہے یعنی ہم نے تم کو زمین سے پیدا کیا۔ (2) { اخلقکم من طین } (الانعام : 2) ” تم کو مٹی سے پیدا کیا “ اور کہا گیا ہے کہ مٹی اور پانی کے آمیزہ کو ” طین “ کہا جاتا ہے یعنی تم کو پیدا کیا مٹی اور پانی کے آمیزہ سے (3) { اِناخلقنھم من طین لازب } (الصافات : 11) ہم نے ان کو پیدا کیا ہے چپکنے والی ‘ چمٹنے والی ‘ لیسدار جم جانے والی ایسی مٹی سے جو مٹی اور پانی کے آمیزہ سے تیار کی گئی ہو۔ (4) { خلقنا الانسان من صلصال من حمائٍ مسرنٍ } (الحجر : 62) ” ہم انسان کو خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے۔ (5) { خلق الانسا من صلصال کا لفخار } (الرحمن : 31) ” اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ “ (6) { انی خالق بشر من طینٍ } (ص : 17) ” بلا شبہ میں بشر کو پیدا کرنے والاں ہو مٹی اور پانی کے آمیزے سے “۔ غور کرو کہ قرآن کریم نے تخلیق انسانی کے لیے جو مختلف پیرایہ بیان اختیار کیے ہیں وہ اس پر کس طرح صادق آرہے ہیں اور پھر سب کے سب بیک وقت صحیح اور درست ہیں۔ انسان اول پر بھی اور اس کے بعد ہر ایک انسان پر بھی کیونکہ جو چیز اصل پر لازم آتی ہے وہ اس کی نسل پر لازم آئے گی اگر اس کی نسل ہے۔ پھر نسل کے بعدجو { مائٍ مھین… کے الفاظ بولے گئے ہیں اس پر بھی غور کرو گے تو یہ سب تعبیرات اس پر بھی صادق آئیں گی۔
Top