Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 72
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِۚ
حُوْرٌ : حوریں مَّقْصُوْرٰتٌ : ٹھہرائی ہوئیں۔ روکی ہوئیں فِي الْخِيَامِ : خیموں میں
(یہ) حوریں خیموں میں مقیم ہوں گی
یہ حوریں خیموں میں مقیم ہوں گی 27 (حور) جمع ہے حوراء کی اور حورآء نہایت وری صورت کو کہتے ہیں جس کی رنگت سفیدی میں نکھری ہوتی ہو۔ یعنی اس کے گورے پن کے باعث ایک طرح کی چمک سی پیدا ہوگئی ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن کی آنکھوں کی سفیدی بہت سفید اور سیاہی بہت گہری سیاہ ہو اور آنکھوں میں سرخی ڈورے موجود نہ ہوں۔ مردوں کی آنکھوں میں سرخ ڈورے خوبصورتی کی نشانی ہے اور عورتوں کی آنکھوں کی سفیدی نہایت سفید ہو تو وہ خوبصورتی کی علامت تصور ہوتی ہے۔ اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ (حور) کا لفظ اس دنیا کی عورتوں کے لیے بولا گیا ہے یہ جو تصور پیش کیا جاتا ہے کہ حوریں کوئی نوری مخلوق ہیں صحیح نہیں ہے جس طرح مرد و عورت اس دنیا میں ایک جنس کی دو اصناف ہیں اسی طرح وہاں بھی ایک ہی جنس کی دو اصناف بیان کی گئی ہیں غیرجنس سے موانست کا کوئی تصور قرآن کریم میں موجود نہیں ہے۔ یہ تصور محض غلط العام ہے۔ (مقصورات) اسم مفعول جمع مؤنث مقصورۃ پردہ نشین ، مسہریوں کے پروں کے اندر چھپی ہوئی۔ (معالم) اور وہ عورتیں جنہوں نے اپیپ نگاہوں کو اپنے شوہروں کے لیے روک رکھا ہو اور وہ کسی دوسری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی ہوں گویا مقصورات اور قاصرات تقریباً ہم معنی ہیں۔ (فی الخیام) جو خیموں کے اندر محفوظ ہیں اور باہر ادھر ادھر آوارہ گرد نہیں رہتیں۔ غور کرو کہ یہ خیمہ کا تصور نسل انسانی کی دوسری قسم کے لیے ہے جس کو اس سورت میں بار بار (جن) اور (الجان) سے تعبیر کیا گیا ہے کس طرح صادق آرہا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو معاشرتی زندگی میں مدنی زندگی کے مقابلہ میں بدوی زندگی کو زیادہ پسند کرتے ہیں ، پہاڑوں کی کہوں میں اور بستیوں سے دورخیمے گاڑتے ہیں اور ان خیموں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں جس طرح معاشرتی زندگی میں مدنی زندگی اختیار کرنے والوں کے لیے خیموں میں کوئی دلچسپی کی بات نہیں ہوتی اسی طرح بدوی لوگوں کے لیے خیموں کے اندر ساری دلچسپی مخفی رکھی گئی ہے اور مدنی زندگی میں ان کے لیے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ قرآن کریم کے ایک ہی لفظ (الخیام) نے ساری حقیقت کھول کر رکھ دی ہے اگر کوئی عقل وفکر سے کام لینا چاہتا ہے تو اس پر کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں رہتی۔
Top