Al-Qurtubi - An-Nisaa : 93
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو یہ (تمہارا فعل دونوں ہی صورتوں میں) اللہ کے حکم سے تھا اور تاکہ (اللہ) نافرمانوں کو رسوا کرے
کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے یا ان کو چھوڑ جو ہوا اللہ ہی کے حکم سے ہوا 5 ؎ (لینۃ) کا اصل مادہ ل ی ن ہے اور ( لینۃ) کا لفظ ایک ہی بار قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔ اسم جنس ہے کھجورتر و تازہ اور شاداب پھل دینے والے بار آور درخت کو کہا جاتا ہے خواہ وہ کسی قسم کا بھی ہو۔ جب بنی نضیر نے اپنے محلوں اور گڑھیوں سے نکلنے سے انکار کیا تو مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کرنا چاہا ، ان کے باغات جو گھنے کھجوروں کے تھے اس گھیرائو میں مزاحم ہوئے اور آپ ﷺ نے ان درختوں کو کاٹ دینے کا حکم دیا اور اتنے حصہ کو کاٹ دیا گیا جتنا حصہ مزاحمت کرتا تھا۔ زیر نظر آیت میں اس کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ یہ درخت کتنے یہ پھل دار اور قیمتی تھے لیکن جس مقصد کے لیے کاٹے گئے وہ مقصد اس سے زیادہ قیمتی تھا جو بحمد اللہ حاصل ہوگیا ۔ ممکن ہے کہ بنی نضیر کے نکل جانے کے بعد خود مسلمانوں ہی کو اس کا احساس ہوا ہو کہ یہ درخت تو بہت قیمتی تھے اگر اس وقت یہ جلدی میں کاٹ نہ دیئے جاتے تو آج ہمارے کام آتے حالانکہ جب یہ کاٹے گئے تھے اس وقت بھی کوئی مصلحت پیش نظر تھی لیکن جب وقت گزر گیا تو اس وقت یہ احساس ہونے لگا کہ اگر ان درختوں کو کاٹ نہ دیا گیا ہوتا تو اس وقت ان کا پھل ہمارے کام آتا ۔ ان کو جواب دیا جاتا ہے کہ ان درختوں کو کاٹ دینے پر تم کف افسوس ملت ملنے لگو اس وقت جب ان کو کاٹنے کا حکم دیا گیا تھا اس وقت ان کے کاٹ دینے میں ہی ساری بھلائی تھی لیکن اب جب وہ وقت نکل گیا اور جو بھلائی اس میں مضمر تھی وہ ظاہر بھی ہوگئی اور اس سے تم نے فائدہ بھی حاصل کرلیا اور اس کے بعد تم بہت ہی جلد بھول گئے کہ ان درختوں کو کیوں کاٹا گیا حالانکہ ان کا کاٹنا اسوقت عین مصلحت کے مطابق تھا اور جن کو چھوڑا گیا ان کو محض اس لیے چھوڑا گیا ان کو محض اس لے و چھوڑا گیا کہ اس وقتی ضرورت و مصلحت میں مزاحمت نہیں کر رہے تھے اس لے یہ اعتراض اٹھانابالکل غلط ہے۔ جو ہوا سب اللہ کے حکم سے ہوا ، جو درخت کاٹے گئے وہ اللہ کے حکم سے کاٹے گئے اور جو چھوڑے گئے وہ بھی اللہ کے حکم سے چھوڑے گئے اور اس سے جن فاسقوں کو سزا دینا مطلوب تھی ان کو مل گئی اور ان درختوں کے کاٹنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس وقت وہ عین مصلحت کے مطابق تھا اور ظاہر ہے کہ یہ درخت محض لکڑی حاصل کرنے کے لیے نہیں کاٹے گئے تھے کہ ان کی بجائے دوسرے درخت کاٹ لیے جاتے بلکہ جس مصلحت کے تحت کاٹے گئے تھے وہ ان ہی درختوں کے کاٹنے سے حاصل ہوئی تھی اور بحمد اللہ وہ مصلحت حاصل بھی ہوگئی ۔ اب اس طرح کے اعتراض اور نکتہ چینی بالکل بےکار اور فضول ہے۔ اس لیے ایسے سوالات اٹھانا کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے۔
Top