Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 52
وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ١ؕ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَا تَطْرُدِ : دور نہ کریں آپ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَدْعُوْنَ : پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا رخ (رضا) مَا : نہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ شَيْءٍ : کچھ وَّ : اور مَا : نہیں مِنْ : سے حِسَابِكَ : آپ کا حساب عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ شَيْءٍ : کچھ فَتَطْرُدَهُمْ : کہ تم انہیں دور کردو گے فَتَكُوْنَ : تو ہوجاؤ مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور (اے پیغمبر اسلام ! تم) ان لوگوں کو جو ( دعوت حق پر ایمان رکھتے ہیں اور) صبح و شام اللہ کے حضور مناجات کرتے اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اپنے پاس سے نہ نکالو ، ان کے کاموں کی جوابدہی تمہارے ذمے نہیں نہ تمہاری جوابدہی ان کے ذمے ہے کہ ان کو نکال دو اگر ایسا کرو گے تو زیادتی کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے
اے پیغمبر اسلام ! اللہ کے حضور مناجات کرنے والوں کو اپنے سے دور مت کرو : 80: ” وَ لَا تَطْرُدِ “ طرد سے ہے۔ تو مت دور کر۔ تو مت ہانک۔ زیر نظر آیت میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب فرما کر آپ ﷺ کی امت کے لوگوں کے لئے ایک خاص پیغام دیا گیا ہے۔ جس طرح خاص پیغام دینے کے لئے خاص پیغام پہنچانے والا تلاش کیا جاتا ہے وہی انداز اس جگہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص پیغام پہنچانے کے لئے اپنے خاص بندے محمد ﷺ کو مخاطب فرمایا اور آپ ﷺ کی امت کے نام پیغام بھجوا دیا کہ دیکھو ” ان لوگوں کو جو صبح و شام اللہ کے حضور سچے دل کے ساتھ مناجات کرتے ہیں۔ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں ان کو اپنے پاس سے دور مت کرو۔ “ چونکہ ہر زمانہ میں حیات دنیا کی بھول بھلیوں میں پھنسے ہوئے انسانوں نے مال دار کو معزز اور شریف اور اس کے مقابلہ میں غریب اور فقیر کو بےعزت و رذیل قرار دیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ایمان لانے والے غریب لوگوں کو اس معیار سے رذلیل کہہ کر یہ اعتراض کیا کہ ہم ان رذیل لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکے۔ اگر آپ ﷺ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی پیغام سنائیں تو ان غریب غرباء کو اپنے پاس سے نکال دیجئے۔ نوح (علیہ السلام) نے ان کے اس دل خراش کلام کا جواب مخصوص پیغمبرانہ انداز میں دیا کہ ” میں ان کے اعمال سے پوری طرح واقف نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکوں کہ وہ رذیل ہیں یا شریف ومعزز بلکہ ہر شخص کے عمل کی حقیقت اور اس کا حساب میرے رب ہی کو معلوم ہے جو دلوں کے رازوں سے واقف ہے۔ “ نوح (علیہ السلام) نے ان جاہل اور متکبر انسانی شرافت ورذالت کی حقیقت سے نا آشنا لوگوں کا رخ ایک ہی واضح حقیقت کی طرف پھیر کر یہ بتلایا دیا کہ شریف و رذیل کے الفاظ تم لوگ استعمال کرتے ہو اور ان کی حقیقت واقع نہیں۔ بس مالدار کو شریف اور بےمال کو رذیل کہنے لگے حالانکہ شرافت و رذالت کا معیار دولت کب ہے ؟ بلکہ وہ تو اعمال و اخلاق ہیں۔ اس موقع پر حضرت نوح (علیہ السلام) یہ فرما سکتے تھے کہ اعمال واخلاق کے معیار پر یہ لوگ تم سے زیادہ شریف و معزز ہیں لیکن پیغمبرانہ طرز تبلیغ و اصلاح نے اسکی اجازت نہ دی اور یہ بھی کہ ایسا کہنے سے خواہ مخواہ ایک الجھاؤ مزید بڑھ جاتا۔ اس لئے اتنا فرما دیا کہ رذالت کا مدار تو افعال و اعمال پر ہے اور میں ان کے اعمال سے پوری طرح واقف نہیں اس لئے ان کے شریف یا رذیل ہونے کا فیصلہ اللہ کے پاس موجود ہے۔ نوح (علیہ السلام) کے بعد بھی ہر زمانہ میں قوم کے غریب لوگ خواہ وہ اپنے اخلاق و اعمال کے اعتبار سے کتنے ہی شریف اور باعزت ہوں مگر دنیا پرست نخوت شعار لوگ انکو حقیر و ذلیل کہتے آئے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی بصیرت اور اخلاص صالحہ کی بناء پر ہر زمانہ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرنے میں پہل کی یہاں تک کہ مذاہب وملل کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے نزدیک کسی پیغمبر کی صدق و حقانیت کی ایک دلیل یہ بن گئی کہ ان کے ابتدائی متبعین قوم کے غریب لوگ ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہر قل شاہ روم کے پاس نبی کریم ﷺ کا دعوت نامہ پہنچا اور اس نے آپ ﷺ کی حقانیت و صدق کی تحقیق کرنا چاہی تو واقف کار لوگوں سے نبی کریم ﷺ کے متعلق جو سوالات کئے ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ان کے اکثر متبعین غریب عوام ہیں یا قوم کے بڑے لوگ ؟ اس کو جب یہ بتلایا گیا کہ غریب لوگ ہیں تو اس نے کہا کہ ” رسولوں کے ابتدائی متبعین یہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔ “ جن لوگوں نے انسان ہونے کے باوجود انسانیت کو نہیں پہچانا بلکہ انسان کو دنیا کے مختلف جانوروں میں سے ایک ہوشیار جانور قرار دیا جس نے دوسرے جانوروں کو اپنا تابع و محکوم بنا کر سب سے خدمت لی ، ان کے نزدیک انسان کی تخلیق کا منشاء اس کے سوا ہو ہی کیا سکتا تھا کہ وہ ایک جانور کی طرح کھانے پینے ، سونے جاگنے اور دوسرے حیوانی جذبات کو استعمال کرنے ہی کو مقصود زندگی سمجھیں اور جب مقصد حیات صرف یہی ہو تو یہ بھی ظاہر ہے کہ اس دنیا میں اچھے ، برے ، چھوٹے ، بڑے ، باعزت و بےعزت ، شریف و رذیل کے پہچاننے کا معیار یہی ہوسکتا تھا کہ جس کے پاس کھانے پینے ، پہننے ، برتنے کا سامان زیادہ ہو وہ کامیاب ، باعزت اور شریف ہے اور جس کے پاس یہ چیزیں کم ہوں وہ بےعزت ، ذلیل اور نامراد و ناکام ہے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ اس عقیدہ ونظریہ پر اخلاق و اعمال صالحہ کی کوئی بحث ہی انسان کے شریف اور معزز ہونے میں نہیں آتی بلکہ وہی عمل عمل صالح اور خلق خلق حسن ہوگا جس کے ذریعہ یہ حیوانی مقاصد اچھی طرح پورے ہو سکیں۔ اس لئے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کے لائے ہوئے دین و مذہب کا پہلا اور آخری سبق یہی رہا کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جو دائمی اور غیر منقطع ہوگی۔ وہاں کی راحت بھی مکمل اور دائمی ہوگی اور تکلیف و عذاب بھی مکمل اور دائمی ہوگا۔ دنیا کی زندگی خود مقصد نہیں بلکہ دوسری زندگی میں جو سامان کام آنے والا ہے اس کی فراہمی اس چند روزہ زندگی کا اصل مقصد ہے۔ پھر یہ بھی کہ انسان اور حیوان میں یہ امتیازی فرق ہے کہ حیوانات کو اگلی زندگی کا کوئی فکر نہیں بخلاف انسان کے کہ اس کی سب سے بڑی فکر اہل عقل و ہوش کے نزدیک دوسری زندگی کی درستی ہے۔ اس عقیدہ و نظریہ پر شرافت اور رذالت اور عزت کا معیار ظاہر ہے کہ زیادہ کھانا پنا یا زیادہ مال و دولت جمع کرنا نہیں ہوگا بلکہ اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ ہوں گے جن پر آخرت کی عزت کا مدار ہے۔ دنیا جس وقت سے انبیائے کرام کی ہدایات اور تعلیمات اور عقیدہ آخرت سے غافل ہوئی تو اس کا طبعی نتیجہ سامنے آگیا کہ عزت و دولت اور شرافت و رذالت کا معیار صرف روٹی اور پیٹ رہ گیا جو اس میں کامیاب ہے اور حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر جتنی زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرسکتا ہے وہ اتنا ہی شریف و معزز کہلاتا ہے جوا س میں ناکام یا ادھورا ہے وہ غریب ، بےعزت ، رذیل اور ذلیل سمجھاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج حضرت العلام کہلانے والوں سے لے کر سارے مذہبی پیشواؤں کا یہ حال ہے کہ وہ مال و دولت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں تاکہ دنیا میں شریف ومعززین بن جائیں۔ آخرت اگرچہ برباد ہوجائے۔ ان کے اعمال کی ذمہ داری آپ ﷺ پر نہیں کہ آپ ﷺ ان کو نکال باہر کردیں : 81: یہ گمراہی اس وقت سے چلی آرہی ہے جب سے انسان نے آنکھ کھولی ہے کہ بڑا کون ہے اور چھوٹا کون ؟ اور پھر جو بھی خود بڑا بنا ہے اس نے اپنے سے چھوٹوں کو حقیر جانا ہے اور دل میں یہ بات رکھی ہے کہ ہمیشہ بڑی مجھلی چھوٹی کو کھاتی ہے۔ بس اس تصور کے ساتھ اس نے چھوٹوں کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب نبی اعظم و آخر ﷺ دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت بھی عزت و ذلت کا یہی معیار تھا کہ جو مالدار اور قوت والا تھا وہ عزت دار کہلاتا تھا اور جو غریب اور بےاقتدار تھا وہ رذیل سمجھا جاتا تھا۔ عرب جاہلیت اور خصوصاً قریش کے امراء و رؤسا اس طرح طبقاتی کبر ونخوت میں مبتلا تھے جس کی مثالوں سے آج دنیا اور خصوصاً یورپ بھرا بڑا ہے۔ وہ اپنے عوام کے ساتھ ایک مجلس میں نشست کے روا دار نہ تھے چہ جائیکہ ایک مجمع میں جس میں غیر عرب حبشی اور وہ بھی غلام تک موجود ہوں۔ انہیں رئیسوں اور سرداروں نے نبی اعظم ﷺ کے ہاں کہلا بھیجا ان عوام کالانعام کو جو نان جویں کو بھی ترس رہے ہیں اپنے پاس سے ہٹایئے تو ہم لوگوں کے لئے کوئی گنجائش پیدا ہو۔ فرمایا اے میرے رسول ﷺ کہ میں ان کے اعمال کا جواب دہ نہیں اور نہ ہی آپ ان کے اعمال کا جوابدہ ہوں۔ وہ اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہو اور میرا کام پیغام سنانا ہے اور اس کو سنایا جاسکتا ہے جو سننے کے لئے تیار بھی ہو۔ جب وہ لوگ ایک بات کو بڑے غور سے سنتے ہیں اور وہ دن رات اللہ کا کلام سننے کے لئے تیار رہتے ہیں تاکہ اس کے مطابق اپنے آپ کو درست کرلیں تو میرے لئے کیا جواز رہا کہ میں ان کو اپنی مجلس سے اٹھا کر دور کر دوں تاکہ تمہارے جیسے نا سمجھوں کے لئے جگہ کشادہ ہوجائے اور میں اس جگہ کسادہ کے حق میں نہیں ہوں کہ یہ بات مجھے پسند نہیں ہے کہ انسان کو حیوان سمجھ کر دور کر دوں۔ وہ بھی اس باعث کہ اس کے پاس دولت کے انبار نہیں ہیں اور حیوانوں کو اپنے قریب میں جگہ دوں جن کے پاس حرام کے مال کے ڈھیر موجود ہیں۔
Top