Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 7
زَعَمَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا١ؕ قُلْ بَلٰى وَ رَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ١ؕ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
زَعَمَ : دعوی کیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يُّبْعَثُوْا : اٹھائے جائیں گے قُلْ : کہہ دیجئے بَلٰى وَرَبِّيْ : کیوں نہیں ، میرے رب کی قسم لَتُبْعَثُنَّ : البتہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ : پھر البتہ تم ضرور بتائے جاؤ گے بِمَا عَمِلْتُمْ : ساتھ اس کے جو تم نے عمل کیے وَذٰلِكَ : اور یہ بات عَلَي : پر اللّٰهِ يَسِيْرٌ : اللہ (پر) بہت آسان ہے
کافروں کا خیال ہے کہ وہ ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں ؟ میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے پھر جو کام تم کرتے رہے تھے وہ تم کو جتائے جائیں گے اور اللہ کے لیے یہ بات بالکل آسان ہے
کافروں کا یہ گمان کہ ان کو دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا سراسر جھوٹ ہے 7 ؎ کوئی شخص یا قوم زبان سے اقرار کرے کہ قیامت ہے اور آخرت کی زندگی لازم ہے یا اقرار نہ کرے اس وقت دونوں ایک ہی نظریہ کے حامل گنے جاتے ہیں جب اعمال دونوں کے ایک جیسے ہوں اور جب تک اعمال میں فرق واضح نہ ہو یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ اس قوم کا آخرت پر ایمان ہے اور اس قوم کا آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ اس لیے زیر نظر آیت میں دونوں طرح کے لوگوں کو ایک ہی طرح کے شمار کرتے ہوئے بات کی جا رہی ہے اور ان کو کافر کہا جا رہا ہے کہ وہ عملاً انکاری ہیں کہ وہ اپنے کیے گئے اعمال کے اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ غور کیجئے کہ جب ایک قانون بنتا ہے اور اس کا اعلان ہوجاتا ہے کہ بی ڈی ۔ ایم ۔ پی ۔ اے اور ایم ۔ این ۔ اے کی درخواست دینے کے لیے یہ قانون ہے اور یہ اس کی شرائط ہیں ۔ کیا درخواست دہندہ ان کا لحاظ کیے بغیر درخواست دے دیتا ہے۔ اچھا اگر وہ دے دے تو اس کی درخواست قبول ہوجاتی ہے ؟ ہرگز نہیں ۔ یہ وہ قانون ہے جو ان انسانوں کا بنایا ہوا ہے جو قانون کو بناتے اور ہٹاتے رہتے ہیں اور اپنے قانون میں ترمیمات (Amendments) بھی کرتے رہتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص اس بات کا دعویٰ کرے کہ میں اس قانون کو مانتا ہوں لیکن اس کی پابندی نہ کرے تو انجام کیا ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ درخواست مسترد کردی جاتی ہے جب تک اس بنائے ہوئے قانون کے مطابق درخواست نہ ہو اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی زندگی کے لیے قانون بنایا اور اس میں فیصلہ کیا کہ جس شخص نے یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کہ آخرت ہے اور ہم انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے کیے کے جوابدہ ہیں عقدتا ً اس کو مان لیا اور دوسرے نے اس کو ماننے سے صاف انکار کردیا لیکن جب عمل کا وقت آیا تو اس قانون کا ماننے والا بھی اس سے بےنیاز ہو کر عمل کرتا ہے اور نہ ماننے والا تو پہلے مانتا ہی نہیں جب دونوں کا عمل ایک جیسا ہے تو ان دونوں کا نتیجہ آخر ایک جیسا کیوں نہیں ہوگا ؟ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ جس نے اس عقیدہ کے ماننے کا اعلان کیا ہے وہ زیادہ سزا کا مستحق قرار دیا جائے کیونکہ اس نے قانون کی خلاف ورزی بھی کی ہے ، عدالت عالیہ کی ہتک کا بھی وہ مرتکب ہوا ہے لیکن دوسرا اس کے مقابلہ میں اس قانون ہی کو تسلیم نہیں کرتا تھا وہ مجرم ہے لیکن اس ماننے کا دعویٰ کرنے والے سے کمتر درجہ کا ۔ اسلام نے اس کو بالکل اسی طرح مانا اور تسلیم کیا ۔ اس نے بظاہر اس قانون کو تسلیم کرنے کے جو خلاف ورزی کی ہے اس کا نام منافق رکھا ہے اور دوسرے کو کافر مانا ہے اور منافق کی سزا کافر سے بھی بری قرار دی ہے لیکن ہمارے مذہبی پیشوائوں نے عقیدہ بھی تسلیم کرنے والے کے لیے بہت رعایت روا رکھی ہے اور کافر کو اس سزا کا مستحق سمجھا ہے انہوں نے یہ رعایت کس آیت یا حدیث سے استنباط کی ہے یہ بات وہی بہتر بنا سکتے ہیں بہر حال اس جگہ ان عملی کافروں ہی کا ذکر ہے ۔ فرمایا کافر گمان کرتے ہیں کہ ہم کو قطعاً دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا ۔ ان کی اس بات کا ان کو جواب دیا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ﷺ ! آپ ﷺ اعلان فرما دیں کہ کیوں نہیں ہمارا رب یقینا سب کو اٹھا کھڑا کرے گا اور پھر سب کو ان کے اعمال کے بارے میں بتا دے گا کہ یہ تمہارے کرتوت ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہے اس لیے کہ پہلی پیدائش کے مقابلہ میں دوسری پیدائش ہر حال میں آسان ہے اور کوئی عقل مند بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ پہلی بار ایک چیز بنانے سے دوسری باری اس کا بنانا مشکل تصور کیا جائے۔ اس کی وضاحت پیچھے بہت سے مقامات پر گزر چکی ہے کہ دوسرے تیسرے حاشیہ میں اس کا کچھ نہ کچھ ذکر موجود پایاجاتا ہے۔
Top