Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 8
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَا١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ : پس ایمان لاؤ اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَالنُّوْرِ : اور اس نور پر الَّذِيْٓ : وہ جو اَنْزَلْنَا : اتارا ہم نے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو خَبِيْرٌ : خبر رکھنے والا
پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے
اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر ایمان لائو اور اس نور کو قبول کرو جو ہم نے اپنے رسول ﷺ پر نازل کیا 8 ؎ یہ تلقین ہے ان لوگوں کے لیے جو ابھی زندہ وجاوید موجود ہیں اور اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے بلکہ ان کا وقت ابھی آنے والا ہے۔ ان کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ جو چلے گئے وہ تو چلے ہی گئے اور وہ یقینا اپنے انجام کو بھی پہنچ گئے اور تم جو لوگ ابھی زندہ ہو کچھ تو خیال کرو کہ تم کس طرح غفلت میں پڑے ہو۔ اٹھو اور اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر سچے دل کے ساتھ ایمان لائو اور اس روشنی کو تسیم کرو جو ہم نے اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کی ہے یعنی قرآن کریم ۔ یہ بات اس لیے اس جگہ ذکر کی گئی کہ قرآن کریم میں بار بار اس بات کی طرف رغبت دلائی گئی ہے کہ تم سب کو اس دنیوی زندگی کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور تمہارے اعمال کی تم سے باز پرس ہوگی ۔ جب یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ تم کو محض دوسرے جانوروں کی طرح ہی پیدا نہیں کیا گیا بلکہ پوری کائنات کے پیدا کرنے کا مقصد محض انسان کا استفادہ کرنا ہے تو کیا یہ بات ممکن ہو سکتی ہے کہ جب دنیا کی ہر ایک چیز کے پیدا کرنے کا ایک مقصد موجود ہے تو انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کو محض بےکار اللہ نے پیدا کردیا ہو اس کو تو عام انسان کی عقل بھی صحیح تسلیم کرنے کے لے تیار نہیں ہے پھر تم یہ کس طرح کہہ دیتے ہو کہ اللہ ہم کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا اور وہ کیوں زندہ نہیں کرے گا جب کہ وہ ضرورت جو انسان کے پیدا کرنے کی تھی اس کا تصفیہ ہونا ابھی باقی ہے اور وہ اس دنیا کی زندگی میں پورا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ درالعمل ہے جب تک عمل مکمل نہ ہوجائے اس وقت تک نتیجے کا اعلان کرنا تو سراسر جہالت ہے ۔ معلوم ہوا کہ اس دارالعمل سے نکل جانے کے بعد ایک دوسرا نظام آئے گا جس میں سب انسانوں کے سامنے ان کا نتیجہ پیش کردیا جائے گا اور اس نتیجہ کے بعد ان کی ابدی زندگی شروع ہوجائے گی اور ابھی جب کہ تم لوگ دارالعمل میں ہو اس لیے ضروری ہے کہ تم تو اپنے بیان پر نظر ثانی کرو اور ایک غلط راہ کو چھوڑ کر سیدھی راہ پر گامزن ہو جائو کہ مثل ہے کہ صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اس کو بھولا نہیں کہا جاتا اور اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سارے اعمال سے اچھی طرح واقف ہے اور تمہاری کوئی حرکت بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس کلام پر ایک بار پھر غور کرو کہ وہ تفہیم کا کیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ پہلے قرآن کریم میں کفر و انکار جن ہلاکتوں سے انسان کو دو چار کرتا ہے ان کا ذکر کیا گیا ، پھر قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا حتمی اعلان کیا اور اس کے بعد ارشاد فرمایا جا رہا کہ تمہاری سلامتی اور بہتری اسی میں ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آئو اور قرآن کریم جو سراسر نور اور روشنی ہے اس کو اللہ تعالیٰ کا کلام سچے دل سے مان لو تو یہ نور تمہاری زندگی کے گوشہ گوشہ کو منور کر دے گا اور اس کی چمک سے تمہارے تصورات کے ظلمت کدہ میں اجالا ہوجائے گا اور پھر تم حق اور باطل میں بآسانی امتیاز کرسکو گے ۔
Top