Urwatul-Wusqaa - Al-Qalam : 46
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَۚ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ : یا تم سوال کرتے ہو ان سے اَجْرًا : کسی اجر کا فَهُمْ : تو وہ مِّنْ مَّغْرَمٍ : تاوان سے مُّثْقَلُوْنَ : دبے جاتے ہوں
کیا آپ ﷺ ان سے کوئی اجر چاہتے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ سے دبے جاتے ہیں ؟
کیا آپ ﷺ ان سے کچھ اجر چاہتے ہیں کہ وہ اس تاوان کے بوجھ میں دبے جاتے ہیں 46 ؎ اے پیغمبر اسلام ! اور اے مخاطب ! کیا آپ ﷺ نے ان سے کوئی اجر طلب کیا ہے کہ یہ لوگ اس بوجھ کے نیچے دب کر رہ گئے ہیں ؟ دراصل یہ ان لوگوں کے کردار پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ان کو ایک طرح کی ملامت بھی کی جا رہی ہے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ ایک آدمی اتنی خیر خواہی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کسی کو سمجھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا لیکن یہ لوگ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور ان کو اس بات کی ذرا پر دا نہیں ہے کہ کم از کم یہ ذہن میں اس کا احترام ہی رکھتے۔ گویا ان کے اخلاق و کردار کا بالکل ہی جنازہ نکل چکا ہے تو آپ ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے اور ہر اس شخص کو جو آپ ﷺ کی سنت کے مطابق آپ ﷺ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے کہ اگر یہ لوگ نعمت الٰہی سے بھاگ رہے ہیں تو اس میں ان ہی کی محرومی ہے ، تم اپنے اللہ کے ہاں بالکل سرخرو ہو اس لئے آپ ان کے اس رویہ کی مطلق پروا نہ کریں اور اپنا کام رضائے الٰہی کے لئے کئے جائیں۔
Top