Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 192
وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّ لَاۤ اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ
وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ قدرت نہیں رکھتے لَهُمْ : ان کی نَصْرًا : مدد وَّلَآ : اور نہ اَنْفُسَهُمْ : خود اپنی يَنْصُرُوْنَ : مدد کرتے ہیں
ان میں نہ تو اس کی طاقت ہے کہ ان کی مدد کریں ، نہ اس کی کہ خود اپنی ذات ہی کو مدد پہنچائیں
ان میں نہ کسی کی مدد کی طاقت ہے اور نہ ہی وہ اپنی ذات کی مدد کرسکتے ہیں : 220: مطلب یہ ہے کہ پیدا کرنا تو ایک بہت بڑا کام ہے وہ تو کسی کی مدد بھی نہیں کرسکتے اور کسی کا مشکل کشا ہونا بھی اس کے مقابلہ میں بڑی بات ہے کہ انسان اپنی مدد کرے یہ اپنی ہی ہر حاجت پوری کرسکے فرمایا ان میں تو اتنی بھی طاقت نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی بجائے اپنی ہی مدد کرسکیں وہ تو اپنی مدد کے لئے بھی اللہ کے محتاج ہیں تو پھر جو ان کی احتیاج کو پورا کرتا ہے وہ سارے انسانوں کی احتیاجوں کو بھی پورا کرنے والا ہے ۔ پھر افسوس ہے کہ اصل حاجت روا اور مشکل کشا کو چھوڑ کر ایسی بےبس ہستیوں کو معبود کے درجہ پر رکھا جائے ۔ مختصر یہ کہ قرآن کریم نے جا بجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ روحانی اعتقاد کے ساتھ ایک بالاتر ہستی کو پکارنا بزرگی و نیاز کا ایسا فعل ہے جو صرف اللہ کے لئے ہونا چاہئے اگر کسی دوسری ہستی کے لئے کیا گیا تو یہ شرک ہوگا ۔ یہی مقام ہے جہاں پیروان مذہب نے ٹھوکر کھائی ہے کہ وہ توحید ربوبیت میں ہی اکثر کھوئے گئے کہ وہ خالق و رب اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی ماننے لگے جیسے سید نا عیسیٰ (علیہ السلام) کو لنکک اگر کچھ اس گمراہی سے بچ نکلے تو وہ توحید الوہیت میں گمراہ ہوگئے یعنی اپنی دعائوں ، منتوں اور مرادوں کے لئے بہت سے آستانے بنانے لگے جسے قرآن کریم ( الٰہ) بنا لینے سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس لئے کہ ( ا لہٰ ) کے کام انہوں نے ان کے سپرد کر دئے اور کھلے کھلے شرک کے مرتکب ہونے لگے اور آج بھی ہر جگہ ایسے لوگوں کی کثرت پائی جاتی ہے ۔
Top