Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
(اے پیغمبر اسلام ! بہرحال) نرمی و درگزر سے کام لو ، نیکی کا حکم دو ، جاہلوں کی طرف متوجہ نہ ہو
نرمی سے کام لینے ، نیکی کا حکم دینے اور جاہلوں سے الگ رہنے کا حکم : 228: زیر نظر آیت قرآنی اخلاق فاضلہ کا ایک جامع ہدایت نامہ ہے اور اس میں تین امور کے متعلق ہدایت فرمائی گئی ہے ۔ 1 ۔ (خذ العفو ) جو قصور وار معذرت طلب کرتا ہوا آپ ﷺ کے پاس آئے اس کمال فراخ دلی سے معاف کر دیجئیے اور بدلہ و انتقام لینے پر اصرار نہ کیجئیے ۔ (روح المعانی) 2 ۔ (وامر بالعرف ) کی اچھی اور مفید چیزوں کے کرنے کا آپ ﷺ لوگوں کو حکم دیجئیے۔ ( بیضاوی) 3 ۔ (وا عرض عن الجاھلین ) اور جاہل اور نہ سمجھ لوگ اگر آپ کو برا بھلا کہیں تو ان سے مت الجھئے (قرطبی) بلا شبہ ہر مومن و مسلم کو ان صفات حسنہ سے متصف ہونا چاہیے اور خصوصا اس طبقہ کو جن کے ذمہ اشاعت دین اور تبلیغ اسلام کا فریضہ ہے انہیں خصوصی طور پر ان خصائل حمیدہ سے اپنے آپ کو مزین کرنا چاہئیے ۔ غور کرو کہ پیچھے دشمنان اسلام کی کج روی ، ہٹ دھرمی اور بد اخلاقی کا ذکر کتنا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا لکن اس کے مقابلہ میں رسول اللہ ﷺ اور سارے مسلمانوں کو اخلاق فاضلہ کی ہدایت دی گئی۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے عفو اور امر بالمعروف اور جاہلوں سے کنارہ کشی کے واقعات ، بتفصیل کتاب و سنت میں بیان کئے گیے ہیں ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ ﷺ کے اخلاق فاضلہ کا بیان بہت وسیع ہے اور احادیث میں بھی اس کو بڑی وسعت سے بیان کیا گیا ہے اس جگہ تبرکاً نبی کریم ﷺ کا ایک فرمان مختصراً بیان کیا جاتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : امرنی ربی بتسع الاخلاص فی الر و العلانیۃ اوالعدل فی الرضاء والعقب والقصد فی الغناء و الفقر و ان اعفوا عمن ظلمنی واصل من قطعنی ا عطی من حرمتی و ان یکون نطقی ذکرا و صمتی فکرا و نظری عبرۃ ۔ ( قرطبی) مجھے میرے پروردگار نے نو باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں 1 ۔ ظاہر و باطن میں اخلاص کو اپنا شعور بنائوں ۔ 2 ۔ خوشنودگی اور ناراضگی میں عدل کروں ۔ 3.۔ خوشحالی اور تنگ دستی میں میانہ روی اختیار کروں ۔ 4 ۔ جو مجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کر دوں 5 ۔ جو قطع تعلقی کرے اس سے صلہ رحمی کروں ۔ 6 ۔ جو مجھے محروم رکھے اس کو دوں ۔ 7 ۔ میری زبان ذکر الٰہی سے ہمیشہ تر رہے ۔ 8 ۔ خاموشی کی حالت میں اس کی آیتوں میں غور و فکر کروں ۔ 9 ۔ اور میرے دیکھنے میں عبرت پذیری ہو ۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے نبی اعظم و آخر ﷺ سے سنت مصطفویہ اور طریقہ محمدیہ کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : 1 ۔ معرفت میرا راس المال ہے ۔ 2 عقل میرے دین کی اصل ہے ۔ 3 ۔ محبت میری بنیاد ہے ۔ 4 ۔ شوق میرا مرکب ہے ۔ 5 ۔ ذکر الٰہی میرا مونس ہے ۔ 6 ۔ اعتماد میرا خزانہ ہے ۔ 7 ۔ حزن میرا رفیق ہے ۔ 8 ۔ علم میرا ہتھیار ہے ۔ 9 ۔ صبر میرا لباس ہے ۔ 10 ۔ رضا میری غنیمت ہے ۔ 11 ۔ عجز میرا فخر ہے ۔ 12 ۔ زہد میرا حرفہ ہے ۔ 13 ۔ یقین میری خوراک ہے ۔ 14 ۔ صدق میرا ساتھی ہے ۔ 15 ۔ طاعت میرا خلق ہے ۔ 16 ۔ اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ( کتاب الشفا قاضی عیاض) مختصر یہ کہ زیر نظر آیت مکارم اخلاق کی جامع ہے ۔ بعض مفسرین نے اس کا خلاصہ یہ بیان کیا ہے کہ لوگ دو قسم کے ہیں ایک محسن یعنی اچھے کام کرنے والے دوسرے بد کار و ظالم اس آیت نے دونوں طبقوں کے ساتھ اخلاق کریمانہ برتنے کی یہ ہدایت دی ہے کہ نیک کام کرنے والوں سے ان کی ظاہری نیکی کو قبول کرلو ۔ زیادہ تفتیش و تجسس میں نہ پڑو اور نیکی کے اعلیٰ معیار کا ان سے مطالبہ نہ کرو بلکہ جتنا وہ آسانی سے کرسکیں اس کو کافی سمجھو اور بد کاری کے معاملہ میں یہ ہدایت دی کہ ان کو نیک کام سکھائو اور نیکی کا راستہ بتائو اگر وہ اس کو قبول نہ کریں اور اپنی گمراہی اور غلطی پر جمے رہیں اور جاہلانہ گفتگو سے پیش آئیں تو ان سے علیحدہ ہو جائو اور ان کی جاہلانہ گفتگو کا جواب نہ دو اس طرح سے یہ امید ہے کہ ان کو کسی وقت ہوش آئے اور اپنی غلطی سے باز آجائیں ۔
Top