Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور ملک کی درستگی کے بعد اس میں خرابی نہ پھیلاؤ ڈرتے ہوئے اور امیدیں رکھتے ہوئے اس کے حضور دعائیں کرو یقینا اللہ کی رحمت ان کے نزدیک ہے جو نیک کردار ہیں
ملک میں خرابی پھیلانے کی مخالفت اور اللہ کی رحمت طلب کرتے رہنے کی ہدایت : 67: ” ملک کی درستگی کے بعد اس میں خرابی نہ پھیلائو۔ “ یہاں دو متضاد لفظ متقابل آئے ہیں یعنی ” فساد “ اور ” اصلاح “ اصلاح کے معنی درستی اور فساد کے معنی خرابی کے ہیں۔ درستی اور خرابی سے کون واقف نہیں۔ اصلاح کی بھی دو قسمیں ہیں اور فساد کی بھی یعنی ظاہری اور باطنی۔ زمین کی ظاہری اصلاح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ایسا جنم بنایا ہے کہ نہ پانی کی طرح نرم ہے جس پر نہ قرار نہ ہو سکے اور نہ پتھر اور لوہے کی طرح سخت ہے جس کو کھودا نہ جاسکے اس کو ایک درمیانی حالت پر رکھا گیا ہے تاکہ انسان اس کو نرم کر کے اس میں کھیتی اور درخت اور پھل پھول اگا سکے اور اس کو اپنی ضرورت کے مطابق آسانی سے کھود سکے اور اپنے مکانات کی بنیادیں مستحکم کرسکے پھر اس زمین کے اندر اور باہر ایسے سامان پیدا فرمادئیے جن سے زمین کی آبادی ہو ، اس میں سبزی اور درخت اور پھل پھول اگ سکیں۔ باہر سے ہوا ، روشنی اور گرمی سردی پیدا کی اور پھر بادلوں کے ذریعہ اس پر پانی برسایا جس سے درخت پیدا ہو سکیں۔ مختلف ستاروں اور سیاروں کی سرد وگرم کرنیں ان پر ڈالی گئیں جن سے پھولوں پھلوں میں رنگ اور رس بھر گئے۔ انسان کو فہم و عقل عطا کی گئی جس کے ذریعہ اس نے زمین سے نکلنے والے خام مواد لکڑی ، لوہا ، تانبا ، پیتل ، ایلومونیم ، گندھک اور اسی طرح کی ان گنت معدنیات کو جوڑ توڑ لگا کر مصنوعات کی ایک نئی دنیا بنا ڈالی۔ یہ سب زمین کی اصلاح ظاہری ہے جو اللہ رب العالمین نے اپنی قدرت کاملہ سے اس کی فرمائی ہے اور اصلاح باطنی و روحانی کا دارومدار انسانوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ انسان کو پیدا فرما کر اس کی فطرت میں ایک مادہ اور جذبہ اللہ کی اطاعت اور یاد کا بھر دیا اور انسان کے گردو پیش کے ہر ذرے ذرے میں اپنی قدرت کاملہ اور صنعت عجیبہ کے ایسے مظاہر رکھے کہ ان کو دیکھ کر معمولی فہم و ادراک رکھنے والا بھی بول اٹھے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی یہ کرشمہ سازی ہے اور پھر اصلاح فی الارض کے لئے رسول اور کتابیں نازل کیں تاکہ مخلوق کا رشتہ خالق کے ساتھ قائم رہے اور اس طرح زمین میں فساد کی بجائے اصلاح ہو سکے۔ جس طرح اصلاح کی دو قسمیں ہیں اسی طرح فساد کی بھی دو قسمیں ہیں یعنی ظاہری اور باطنی اور زیر نظر آیت سے ان دونوں طرح کے فساد کی ممانعت فرما دی گئی۔ اگرچہ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کا اصل وظیفہ اور فرض منصبی اصلاح باطنی اور یہ بھی کہ فساد ظاہری ہو یا باطنی اس سے روکنا اور منع کرنا ہے لیکن اس دنیا میں ظاہر و باطن کی اصلاح و فساد میں ایک ایسا ربط ہے کہ ایک کا فساد دوسرے کے فساد کا موجب بن جاتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم نے جس طرح باطنی فساد کے دروازے بند کئے ہیں اسی طرح ظاہری فساد کا موجب بن جاتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم نے توڑنا پھوڑنا ، باغات کو اکھاڑ دینا ، کھیتوں کو اجاڑ دینا ، کارخانوں کو برباد کردینا ، تجارت و صنعت میں دھوکہ بازی ، فریب اور مکاری کرنا ، حکومت وقت کے خلاف بلاوجہ سازشیں کرنا اور اس طرح کی ہر تخریبی کاروائی جس سے ملک کی معاشی اور اقتصادی خوشحالی متاثر ہو یا اس کے سیاسی استحکام کو نقصان پہنچے اور اس طرح عقائد حقہ میں کجی ، احکام شرعی میں اپنی اغراض کے لئے تحریف ، غیر اسلامی عادات واطوار کو اپنانا ، اسلامی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر غیر اسلامی تہذیب اور ملحدانہ تمدن کو اختایر کرنا ان سب کی ممانعت فرما دی گئی۔ زیر نظر آیت میں لا تفسدوا کے ساتھ بعد اصلاحھا کے الفاظ ارشاد فرما کر اس فعل کی شناخت کو مزید واضح کردیا یعنی ملک میں فساد پیدا کرنا بجائے خود سب سے بڑا جرم ہے لیکن یہ جرم سنگین سے سنگین تر ہوجاتا ہے جب یہ اصلاح کے بعد واقع ہو اس لئے کہ یہ بگڑی ہوئی چیز کو بگاڑنا نہیں بلکہ بنی ہوئی چیز کو بگاڑنا ہے۔ ہمارے بہت سے اجتماعی مصلحین کو یہ اصول سمجھنے میں سخت غلطی لگی جس کے سبب سے وہ افراط وتفریط میں مبتلا ہوگئے جو لوگ خود تعصب میں مبتلا رہے انہوں نے ہمیشہ ہر غالب قوم کے غلبہ کو اس کی چیرہ دستی پر محمول کیا وہ اپنے تعصب کے سبب سے نہ تو اس اخلاقی برتری کو دیکھ سکے جو غالب قوم کے اندر موجود تھی اور نہ اس اخلاقی ضعف پر ان کی نظر پڑی جو ان کے اپنے اندر پایا جاتا تھا۔ اس طرح جو لوگ مرعوب ذہن کے تھے انہوں نے ہر غالب کے غلبہ کو اس کے برحق ہونے کی دلیل سمجھا اور اس کے ہاتھوں جو فساد و باطل بھی دنیا میں برپا ہوا اس کو نظام حق سمجھ کر اس کے گن گانے لگے اور اس افراط وتفریط کا اثر قومی تاریخ پر یہ پڑا کہ وہ بالکل غلط طریقہ پر مرتب ہوگئی جس سے صحیح نتائج نکالنا اور ان سے اجتماعی اصلاح میں فائدہ اٹھا ناممکن ہوگیا اور اس کی تفصیل انشاء اللہ سورة محمد میں آئے گی۔ لیکن اس جگہ ایک اور طریقہ سے بھی نظر ڈال لو اور دیکھو کہ یہ سارا جہان اور اس کی ہر چھوٹی اور بڑی چیز سب مالک الملک والملکوت کی بنائی ہوئی اور اسی کے تابع فرمان ہے۔ جب تک انسان اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان رہتا ہے تو یہ سب چیزیں انسان کی صحیح صحیح خدمت گار ہوتی ہیں اور جب انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگے تو دنیا کی ساری چیزیں ؟ ؟ ؟ انسان کے استعمال میں رہتی ہیں پانی اس کے حلق میں اترے تو پیاس بجھانے سے انکار نہیں کرتا ، کھانا اس کی بھوک رفع کرنے سے نہیں رکتا ، لباس اور مکان اس کی سردی گرمی کی آسائشوں کو مہیا کرنے سے انکار نہیں کرتے لیکن عواقب اور نتائج کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز اپنا کام پورا نہیں کر رہی کیونکہ اصل مقصد ان تمام چیزوں اور ان کے استعمال کا یہ ہے کہ انسان کو آرام و راحت میسر آئے اس کی پریشانی اور تکلیف دور ہو اور بمانریوں سے صحت یاب ہو۔ لیکن ذرا دنیا کے حالات پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ آج کل سامان راحت اور سامان شفاء کی زائد از قیاس فراوانی کے باوجود انسانوں کی اکثریت پریشانیوں اور بیماریوں کا شکار ہے۔ نئے نئے امراض ، نئی نئی مصیبتیں بارش کی طرح برس رہی ہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا انسان اپنی جگہ مطمئن اور آسودہ نہیں بلکہ جوں جوں یہ سامان بڑھتے جاتے ہیں اسی انداز سے مصائب و آفات اور امراض اور پریشانیاں بڑھتی جاتی ہیں گویا : مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی آج کا انسان اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کی ہرچیز سے استفادہ کر رہا ہے اور وہ برق و بھاپ اور دوسری رنگینیوں سے اس قدر مسحور ہوچکا ہے کہ وہ ان ساری چیزوں کو پیدا کرنے والے اور ان کے اندر ان تاثیرات کے رکھنے والے کو بالکل بھول گیا ہے اور کبھی اس کو بھول کر بھی یاد نہیں آیا کہ یہ چند چیزوں کو جوڑ کر جو میں نے ایک چیز تیار کی ہے اس میں میرا کتنا کمال ہے اور ان چیزوں کے پیدا کرنے والے کا کتنا حصہ اور کتنا کمال ہے اور پھر یہ جو کچھ میں نے تیار کیا ہے اور جو جو مصنوعات میں نے ایجاد کیں ان کا اصل مقصد تو راحت و آرام پہنچانا تھا لیکن جو کچھ ظاہر ہوا وہ یہ ہے کہ جو راحت و آرام حاصل تھا وہ بھی اڑ گیا اور اس طرح میں فیل و ناکام ہوگیا اس کی وجہ کیا ہے ؟ ظاہر ہے کہ وجہ بجز اس معنوی اور باطنی سبب کے نہیں ہے کہ ہم نے اپنے رب ومالک کی نافرمانی اختیار کی تو اس کی مخلوق نے اس معنوی طور پر ہم سے نافرمانی شروع کردی۔ چوں از و گشتی ہمہ چیز از تو گشت اس مضمون کو مولانا روم (رح) نے اس سے بہت پہلے اس طرح قلم بند کیا تھا : خاک وباد وآب و آتش بندہ اند ۔ بامن وترمردہ باحق زندہ اند یعنی اس دنیا کی یہ سب چیزیں اگرچہ بظاہر بےجان و بےشعور نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں اتنا ادراک ان میں بھی موجود ہے کہ وہ مالک کے تابع فرمان کام کرتی ہیں۔ مختصر یہ کہ جب غور سے دیکھا جائے تو ہر گناہ اور اللہ تعالیٰ سے غفلت اور اس کی ہر نافرمانی دنیا میں نہ صرف باطنی فساد پیدا کرتی ہے بلکہ ظاہری فساد بھی اس کا لازمی ثمرہ ہے اور اس بات پر قرآن کریم اور ارشادات رسول اللہ ﷺ واضح ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ دعا کے دو آداب اس آیت سے پہلی آیت میں بتلائے گئے تھے۔ ایک یہ کہ دعا عاجزی اور تضرع کے ساتھ کی جائے اور دوسرے یہ کہ دعا آہستہ اور خفیہ کی جائے اور ان دونوں صفتوں کا تعلق انسان کے ظاہری جسد سے ہے کیونکہ تضرع کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ظاہری ہیئت بوقت دعا عاجزانہ اور فقیرانہ بنائے متکبرانہ یا بےنیازانہ نہ بنائے اور خفیہ ہونے کا تعلق بھی منہ اور زبان سے ہے۔ زیر نظر آیت میں دعا کے لئے دو آداب باطنی اور بتلائے گئے جن کا تعلق انسان کے دل سے ہے وہ یہ کہ دعا کرنے والے کے دل میں اس کا خطرہ بھی ہونا چاہئے کہ شاید میری دعا قبول ہو یا نہ ہو اور ان دونوں حالتوں کے درمیان رہنے کی ہدایت فرمائی گئی اور وہ آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا : ” یقیناً اللہ کی رحمت ان سے نزدیک ہے جو نیک کردار ہیں۔ “ یعنی دعا کی عدم قبولیت کا کوئی خطرہ ہو سکتا ہے تو وہ اپنی بد اعمالی اور گناہوں کی نحوست سے ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہونے کے لئے محسن یعنی نیک عمل ہونا بھی ضروری ہے اور ہر اعتدال نیکی ہے اور تجاوز برائی ہے۔
Top